’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘، عید الاضحی کے فوری بعد عمران سیاست پر آناً فاناً کڑا وقت تن چکا ہے۔ ’’جو حق پر کھڑا ہوتا ہے وہ ہارتا نہیں ہے‘‘، عمران خان کی 5دن پہلے کی ٹویٹ XPosts میں کتاب الحکمت درج ہے۔ کون حق پر اور کون باطل؟ فیصلہ رب ذوالجلال کا، صرف باری تعالیٰ کے علم میں ہے۔ صد افسوس! اقتدار سے علیحدگی پر اسلامی ٹچ ’’نہی عن المنکر‘‘۔ 75 سال سے ہوسِ اقتدار کی جنگ نے وطن عزیز کو ہلکان رکھا، عمران نے تندہی سے جنگ کو آگے بڑھایا۔ جان کی امان پاؤں تو سچ اتنا! مقتدرہ مع سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکیں۔ اسلامی ٹچ، القابات، استعارے وطنی سیاست کا اہم جزو بن چکے ہیں۔ وطنی سیاسی جماعتیں بوجوہ اپنے دورِ اقتدار میں، اسلامی ٹچ کو کبھی قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ آج اسلامی ٹچ اور فرعون ویزید جیسے استعارے، مقبول جماعت کے اندھے مقلدوں کی بے نور آنکھوں میں دھول جھونکنے اور حسن بن صباح کی جنت کے نظارے کروانا، بکثرت زیر استعمال ہیں۔ سیاسی نابلد عمران کنفیوژن کے بھنور میں، شش و پنج اسٹیبلشمنٹ سے معاملات کیسے نبیڑیں کہ سیاسی زندگی پھر سے باغ و بہار ہو جائے۔ 3 سالہ سیاست کا لبِ لباب، مخاصمت اور مفاہمت ساتھ ساتھ، ہر ہنر آزمایا، سارے جتن کر ڈالے، طے کرنے سے قاصر کہ مخاصمت اور مفاہمت کی تدبیریں کیونکر کارگر نہیں۔ اِدھر معاملہ طے ہوا چاہتا ہے تو اسی وقت کوسوں دور کیوں چلا جاتا ہے؟
بلاشبہ خان بہادری کی مجسم تصویر، فنونِ حرب میں کسبِ کمال، ذرائع ابلاغ میں غیرمعمولی مہارت، اپنے پیغام کو چابکدستی اور ہنرمندی سے مقلدین معتقدین کی روح تک پہنچانے کے وصف سے مالا مال۔ بدقسمتی کہ ایسے اوصاف کی موجودگی میں سیاسی عاقبت اندیشی، دانشمندی اور حکمت عملی سے تہی دامنی نے سیاسی مستقبل تاریک بنا رکھا ہے۔ سانحہ ہی کہ عمران خان کی 29سالہ انصافی سیاست کا حاصلِ کلام، کوئی ایک ایسا سیاسی فیصلہ دفتر میں موجود نہیں جو بطور نمائش فخریہ پیش کیا جا سکے۔ اکثر فیصلوں کے بہیمانہ نتائج بھگتے، یوٹرن لیا، اکثر کہا :مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آفرین! والہانہ اور دیوانہ وار لپکنے والے مقلدین، لیڈر کے ہر فیصلہ پر فریفتہ رہے۔ پچھلے تین سال کی چکا چوند مقبولیت کی وجہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ، دہائیوں سے سیاستدانوں کی سیاسی قدر و قیمت کو چار چاند لگائے، رفعتیں ملیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی خرابی اتنی کہ اقتدار کوسوں دور چلا جاتا ہے، تکلیف و پریشانیوں کا انبوہ رہتا ہے۔ عمران کا پونے چار سالہ جمہوری دور کرپشن، بدانتظامی، نااہلی، آئین و قانون کی پامالی، سفارتی تنہائی کی ایک داستان ہے۔ کوئی ایک انتخابی وعدہ جو پورا کیا ہو۔ کرپشن انڈیکس 116سے 141تک پہنچایا۔ کشمیر ہاتھوں سے گیا۔ بیانیہ کا ہی اعجاز کہ سیاست کو چار چاند لگے۔ بلاشبہ اس دوران چابکدستی سے مخاصمت مفاہمت کو آگے بڑھانے کی ٹھانی۔ ایک طرف دن دہاڑے اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا تو اسی رات اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ فہمی، مک مکا، معافی تلافی کی التجا کر ڈالی۔ کج فہمی کہ دباؤ سے مفاہمتی پالیسی میں جان آئیگی۔ اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ میں آنا اسکی سرشت میں ہے ہی نہیں۔ مفاہمت یا مخاصمت ایک راہ پکڑنی تھی، یکسوئی درکار تھی۔
حالیہ بیانات عمران کا رسمی طبل جنگ، گھبراہٹ مجھ پر طاری ہے۔ اگرچہ ٹکراؤ کی حکمت عملی پسند فرما چکے، بین السطور مفاہمت کیلئے اُکسانا نہیں بھولے، کنفیوژڈ حکمت عملی کہ دباؤ بڑھا کر مفاہمت پر اُبھارنا ہے۔ اپنی حکومت اُلٹانے کا واحد ذمہ دار جنرل باجوہ کو ٹھہرایا، سانحہ 9 مئی کو لندن پلان بتایا ۔ 2014کا حقی سچی لندن پلان، نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے وطنی سیاسی عمائدین بشمول عمران خان، طاہر القادری، ق لیگی رہنمامع اسٹیبلشمنٹ بنفس نفیس لندن میں موجود، خدا گواہ کہ سانحہ 9 مئی کو لندن پلان کہنا، ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔ لندن پلان ( 2014)، RTS الیکشن 2018، 2011 تا 2021تک دس سال اسٹیبلشمنٹ کے جرائم میں شراکت داری، آئین و قانون سے کھلواڑ، کئی چیف جسٹس خصوصاً باکمال ثاقب نثار قدم بہ قدم ساتھ، باجوہ عمران جوڑی مملکت کو اجاڑ کر ہی تو رخصت ہوئی ۔ دیانتداری کا تقاضا کہ عمران دلجمعی سے معافی مانگے۔
خاطر جمع! کسی سیاسی رہنما نے عمران باجوہ جوڑی کو کبھی فرعون یا یزید کہا نہ ہی جنرل باجوہ یا کسی سپہ سالار کو غدار اور جانور کہا۔ یادش بخیر! جنرل باجوہ کے 6سالہ دور میں عمران خان سوا پانچ سال مستفید رہے ۔ بلاناغہ جنرل باجوہ کو ساڑھے پانچ سال تک تحسین سے نوازا، حتیٰ کہ غیر معینہ توسیع مدت ملازمت کی آفر تک کر دی۔ ایک حقیقت اور بھی، اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ کبھی کسی سے رابطہ کرنے کی مکلف نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بات چیت آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ کہ ’بڑوں‘ تک رسائی تقریباً ناممکن رہتی ہے۔ چنانچہ ’کچھ لو‘ کا پیکیج بڑوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ اپنے طور پر خان صاحب کا نرم گرم رویہ ماسوائےخود کو ہلکان کرنے کے کچھ نہیں۔ دباؤ سعی لاحاصل ہے۔ بذریعہ دباؤ مفاہمت کا کیس آگے بڑھانا، حماقت کے علاوہ کچھ نہیں ۔
4 دنوں کے 2بیانات ِعمران سیاست کے سارے راستے مسدود ہو چکے، چنانچہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہیں۔ پچھلے چند دنوں کے بیانات نے دہلا رکھا ہے۔ آنیوالے دنوں میں خان کی پریشانیوں اور مشکلات میں کئی گنا اضافہ رہنا ہے۔ بنفس نفیس گوڈے گوڈے خطرات میں گِھر چکے۔ تازہ ٹویٹس و بیانات، عمران سیاست کے اُفق پر وہ گرہن جو شاید اب طلوعِ سحر کا موقع نہ دے۔
حالیہ ٹویٹس کے تناظر میں چند باتیں مستحکم، عمران خان مکمل مایوس، فرسٹریشن کا شکار ہو چکے ہیں۔ جنرل فیض حمید کیس آج تک پردہِ سیمیں کے پیچھے، محض اسلئے کہ عمران خان کی طرف سے مفاہمت کی تابڑ توڑ کوششیں جاری تھیں۔ اب جبکہ طبل جنگ بج چکا، ڈر ہے کہ عید کے بعد جنرل فیض حمید مع اعترافی جرائم کی لمبی فہرست قیامت ڈھانے کو ہے۔ عمران کا سیاسی مکو ٹھپنے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ایسا کوئی قدم بھی وطن عزیزکو لاینحل سیاسی بحران میں دھکیل جائیگا۔ میری پریشانی کہ جنگی جیت کے نشے سے سرشار قوم و ملک اس وقت کسی طور بھی کسی بڑے سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا بلکہ سیاسی استحکام کے حصول کا یہ نادر موقع ہے۔ اللّٰہ کرے، سیاسی استحکام ابتری کی بجائے، بہتری کی طرف جائے۔ معاملہ فہمی عمران کی ضرورت تو اسٹیبلشمنٹ کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے ۔کاش عمران رضاکارانہ قومی ڈائیلاگ کا حصہ بن کر پاکستان کا سوچیں اور اسٹیبلشمنٹ حوصلہ افزائی کرے۔ قومی ڈائیلاگ میں ہی عمران خان کی بھی عافیت اور وطنی سلامتی بھی۔