برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ دو کروڑ آبادی کے حامل اس ملک کا پرچم تحریک انصاف جیسا ہے، ماضی میں اسے جمہوریہ اپر وولٹا کہا جاتا تھا، 4 اگست 1984ءمیں اس کا نام تبدیل کرکے برکینا فاسو رکھا گیا، اس کا مطلب ہے ’’دیانتدار لوگوں کے رہنے کی جگہ‘‘۔برکینا فاسو فرانس کی کالونی رہا، اسی لئے وہاں کی سرکاری اور کاروباری زبان فرانسیسی ہے، 1896ء میں فرانس نے برکینا فاسو پر قبضہ کیا اور اس کے بعد 1960ء تک فرانسیسی، برکینا فاسو پر براہ راست حکومت کرتے رہے،1960ء میں نام نہاد آزادی دی گئی مگر ملکی کرنسی، معیشت اور تجارت سمیت اہم فیصلے فرانس کے کنٹرول میں رہے، قدرتی وسائل پر بھی قبضہ رہا، یاد رہے کہ برکینا فاسو میں دنیا کے سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں مگر وہاں سونے کے لئے فرانس نے کبھی کوئی ریفائنری بننے ہی نہیں دی تھی، فرانس کی کمپنیاں سونا نکالتی رہیں، پیرس کی چمک بڑھتی رہی، برکینا فاسو پر ظلم جاری رہا، غربت میں اضافہ ہوتا رہا، غربت کے ساتھ جرائم بھی بڑھتے رہے۔ فرانس کی منظور نظر سیاسی قیادتیں کرپشن کرتی رہیں اور لوگوں کے آنگنوں میں غربت ناچتی رہی، اسی لئے لوگوں کا غصہ بڑھتا رہا، 2010ء کے بعد حالات تیزی سے خراب ہوئے، قبائل نے ہتھیار اٹھا لئے، بد امنی بڑھتی گئی، بغاوتیں شروع ہو گئیں، نوجوانوں نے فرانسیسی پٹھو کا تختہ الٹ دیا پھر 2015ء میں الیکشن کروائے گئے، ان انتخابات میں ایک بار پھر ایسا صدر چن لیا گیا جسے فرانس کی مکمل حمایت حاصل تھی، حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ جنوری 2022ء میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، سربراہ ایک فوجی جرنیل بن گیا، جرنیل کے وعدے بھی جھوٹے نکلے، نہ عوام کو کچھ ملا نہ فوج کی تنخواہیں بڑھیں، چند مہینوں کے اندر فوج میں بغاوت ہوئی، جرنیل کا تختہ الٹ کر کیپٹن ابراہیم تراورے اقتدار پر براجمان ہو گیا، اس نے انقلابی اقدامات کرنے شروع کر دیئے، جنوری 2023ء میں فرانس کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ ختم کر کے یہ کہا کہ فرانس ایک مہینے کے اندر اندر اپنی فوج کو نکال لے ورنہ انجام برا ہو گا۔ دنیا حیران ہو گئی کہ برکینا فاسو میں کون سا انقلابی لیڈر آ گیا ہے جس نے فرانس جیسے طاقتور ملک کو فارغ کر دیا ہے۔ جب فرانسیسی فوجی نکل گئے تو ابراہیم تراورے نے ماسکو کا رخ کیا، اس نے پیوٹن سے ملاقات کی تو روس نے برکینا فاسو کو فوجی تربیت اور ہتھیاروں میں مدد دینے کا اعلان کیا، اس کے بعد ابراہیم تراورے نے چین سے فوجی گاڑیاں خریدیں اور ترکیہ سے جدید ڈرونز خریدے، یہ ڈرونز آج کل برکینا فاسو کی فوج اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ابراہیم تراورے ہر وقت اپنے ملک اور اپنے لوگوں کا سوچتا ہے، اس نے سوچا کہ برکینا فاسو میں سونا تو بہت ہے مگر فائدہ دوسرے ملک اٹھا رہے ہیں، اس لئے اس نے 2023ء میں اپنے ملک میں پہلی گولڈ ریفائنری کی بنیاد رکھی تاکہ سونے کی کمائی ملک کے اندر رہے اور ملک کے لوگوں کو روزگار ملے۔ اس نے غیر ملکی کمپنیوں سے سونے کے پرمٹ واپس لینا شروع کئے اور کئی ایسی کانوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا، جو اس سے پہلے برطانیہ کے قبضے میں تھیں، یہ اقدام مغربی ملکوں کے لئے اعلان تھا کہ اب افریقہ کے لوگ جاگ چکے ہیں، اب آپ کو وہ لوٹ مار نہیں کرنے دیں گے۔ اس نے اگست 2024ء میں آئی ایم ایف سے 32 ملین ڈالر لینے سے انکار کیا اور کہا ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ ابراہیم تراورے نے دفاعی، معاشی اور سماجی سطح پر اہم فیصلے کئے، اسے پتہ تھا کہ میرے ملک کی اکثریت خوراک کی کمی کے باعث بھوکا سوتی ہے۔ روس سے بات کی تو اس نے 25ہزار ٹن گندم بطور امداد فراہم کی مگر ابراہیم تراورے امداد پر انحصار کرنے والا آدمی نہیں، اس لئے اس نے ہزاروں کے حساب سے زرعی مشینری چین سے منگوائی اور اپنے کسانوں میں مفت بانٹ دی۔ آزادی کے 60سال گزرنے کے باوجود برکینا فاسو کی 80فیصد آبادی بجلی سے محروم تھی، ابراہیم تراورے نے چین کی مدد سے 25 ہزار میگا واٹ کا بڑا سولر پلانٹ لگایا تاکہ کم وقت میں زیادہ لوگوں تک روشنی پہنچ سکے، روس کی مدد سے برکینا فاسو میں نیو کلیئر پلانٹ لگایا جا رہا ہے تاکہ نیو کلیئر انرجی سے بجلی پیدا ہو سکے، ابراہیم تراورے دیہاتوں کو شہروں سے ملانے کیلئے بڑی سڑکیں بنا رہا ہے، وہ تجارت اور معاشی ترقی کیلئے انفراسٹرکچر کو ضروری سمجھتا ہے۔ ابراہیم تراورے نے حال ہی میں خلیجی حکمرانوں کی 400 مساجد کی پیشکش کو یہ کہہ کر واپس کیا ہے کہ آپ یہ امداد فلسطین کے لوگوں کو دیں کیونکہ فلسطین میں ہمارے بہن بھائیوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ 37سالہ ابراہیم تراورے افریقی ملکوں کیلئے رول ماڈل بن چکا ہے، اسے دیکھ کر اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے