• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمداورنگ زیب نےپیر کو مالی سال 2024-25ءکی اقتصادی صورتحال کے بارے میںسروے جاری کردیا ہے جس میں بعض شعبوں میں شرح نمو کے مقررہ اہداف کے حصول میں کامیابی ،جبکہ بعض میں ناکامی کا اعتراف کیا گیا ہے۔تاہم یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہوچکی ہےاور پچھلے سال اگرکوئی کمی رہ گئی ہےتو وہ آئندہ سال دور ہوجائے گی۔وزیرخزانہ نے نجی شعبے کو حکومتی اعدادوشمار کی جانچ پڑتال کے عمل میں شریک ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے حکومت کے اقتصادی اعدادوشمار کے بارے میں شکوک وشبہات دور کرنے کیلئے اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ اپوزیشن رہنمائوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے بھی سروے میں ظاہر کیے گئےاعدادوشمار میں بعض غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ،جس سے سروے کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا پتہ چلتا ہے۔اعدادوشمار کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ ملک کی معاشی مشکلات پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔فی کس آمدنی1662ڈالر سے بڑھ کر 1824ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔رواں مالی سال مجموعی قومی پیداوار میں 2.7فیصد کا اضافہ ہوا ،جی ڈی پی کا حجم پہلی مرتبہ411ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔صنعتی شعبے کی ترقی 4.77فیصد اور مہنگائی بڑھنے کی شرح 4.6فیصد پر آگئی۔ملک پر اس وقت مجموعی قرضوں کا بوجھ 76ہزار ارب روپے سے متجاوز ہے ،جاری کھاتوں کا خسارہ سرپلس ہوگیا۔اس سال36ارب ڈالر کی ترسیلات زر ریکارڈ کی گئیں ،جو اگلے سال 38ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ملکی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ قرضوں پر سود کا ہے جو رواں مالی سال کے پہلے9ماہ میں 6439ارب روپے ادا کیا گیا۔ٹیکس فائلرز کی تعداد دوگنا ہوچکی ہے۔حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کررہی ہےتاکہ موجودہ فائلرز پر بوجھ نہ بڑھانا پڑے۔مالی وسائل کی تقسیم میں آبادی کا فارمولا ترک کرکے صوبوں کی مشاورت سے نیا نظام وضع کیا جائے گا۔سروے میں بتایا گیا ہے کہ اقتصادی شرح نمو 3.6کے ہدف کے مقابلے میں 2.68فیصد رہی۔زراعت اور خدمات کے شعبوں میں بھی اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ رواں مالی سال میں گندم،چاول،کپاس اور گنے کی پیداوار میں تشویشناک کمی آئی۔مجموعی طور پر اہم فصلوں کی نمو منفی 3.5فیصد پر آگئی۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ تعلیم اور صحت کے شعبے مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔ان دونوں شعبوں پر ایک فیصد سے بھی کم خرچ ہورہا ہے ،جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔طبی سہولتیں ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ملک معدنی وسائل سے مالا مال ہے مگر عملاً خام تیل ،گیس،کوئلے اور خام لوہے کی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے۔ملک میں 44.7فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔یہ مسئلہ حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئےمگر اقتصادی سروے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ۔روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں ۔اس حوالے سے بڑی مینوفیکچرنگ صنعتوں کا زوال بھی ایک اہم عنصر ہے،جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔شرح سود میں کمی کرکے صنعتی ترقی کے دروازے کھولے جاسکتے ہیں ۔زراعت کی ترقی کیلئے آبی ذخائر تعمیر کیے جانے چاہئیں۔خاص طور پر بھارت سندھ طاس معاہدے اور مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریائوں کا پانی روکنے کی جو شرانگیزی کررہا ہے ،اس کا بروقت سدباب کیا جانا چاہئے۔افراط زر میں 4.6فیصد کمی اچھی بات ہے مگر مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے ۔مجموعی طور پر اقتصادی سروے آسانیوں کی بجائے مشکلات کی نشان دہی کررہا ہے ،حکومت کو اس کے دونوں پہلوئوں پر توجہ دینی چاہئے۔

تازہ ترین