• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا ہے جس کا حجم 17ہزار 573ارب روپے ہے جس پر حکومتی ارکان نے ڈیسک بجائے جبکہ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی حد تک احتجاج کیا۔ ہمارے بلند پرواز نے کہا کہ اب پاکستان ٹیک آف کی پوزیشن میں آگیا ہے ملکی معیشت بہتر ہورہی ہے گزشتہ سوا سال کئی چیلنجز درپیش تھے لیکن ہم ملکی مستقبل تابناک بنانےکیلئے پرعزم ہیں۔ حالیہ جنگ میں معاشی طور پر مضبوط ملک کو شکست فاش دی ہے اب بھارت سے معاشی میدان میں بھی آگے نکلنے کا ٹارگٹ ہے۔‎

عرض مدعا ہے کہ آپ نے جو بجٹ پیش فرمایا ہے اس کا نصف کے قریب یعنی بیاسی کھرب روپے تو ناجائز و ناروا طور پر لیے گئے قرضوں کی ادائیگی پر اٹھ جائے گا اور ایک قابلِ ذکر حصہ مضبوط دفاع پر صرف ہو گا باقی کسر ایلیٹ کلاس کے اللوں تللوں پر نکل جائے گی۔ ابھی معروف صحافی دوست راشد حجازی صاحب نے کچھ تفصیلات کے ساتھ حکم صادر فرمایا ہے کہ افضال ریحان میں آپ کے کالم سے ہمیشہ استفادہ کرتا ہوں اس لیے آپ اپنے تازہ کالم میں عوامی دکھوں بالخصوص بجٹ میں جس طرح غریب عوام سے دشمنی کی گئی ہے اس پر ضرور اظہارِ خیال فرمائیں، ان لوگوں نے عوام کو کوئی ریلیف دینے کی بجائے اپنی جیبیں بھری ہیں، وزراء اور مشیروں کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے۔ رکن قومی اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ انیس ہزار کردی گئی ہے صوبائی ممبر کی تنخواہ چار لاکھ کی گئی ہے صوبائی وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے 9لاکھ ساٹھ ہزار، سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ سوا لاکھ سے 9لاکھ پچاس ہزار پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83ہزار سے ساڑھے چار لاکھ مشیروں کی تنخواہ فی کس ایک لاکھ سے چھ لاکھ پینسٹھ ہزار سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں پانچ سو فیصد بڑھاتے ہوئے دو لاکھ اٹھارہ ہزار سے تیرہ تیرہ لاکھ کردی گئی ہیں جبکہ ان لوگوں کی رہائشیں فری ،پٹرول فری، بجلی فری، ڈرائیوروں کی تنخواہیں، میٹنگوں کے خرچے، سرکاری خزانے سے اندرون و بیرون ملک ٹور، آنیاں جانیاں، ٹھاٹھ باٹھ سب سرکاری خرچے پر، دوسری طرف عوام کا کچومر نکالا جارہا ہے وہ غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ‎سچائی تو یہ ہے کہ خود عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہماری 44.7فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ہمارے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکول جانے سے محروم ہیں جو غریب دھکے کھا کر پڑھ جاتے ہیں ان کیلئے روزگار کے مواقع نہیں اس اکیسویں صدی کے دور میں یہاں انڈسٹری لگانے کا کوئی رجحان نہیں تمام تر جعلی ترغیبات کے باوجود کوئی باہر سے آکر یہاں سرمایہ کاری کرنے کیلئے آمادہ و تیار نہیں بلکہ اندرونی سرمایہ کاری پر بھی ٹیکسز کی بھر مارنے شب خون مار رکھا ہے۔ بجلی کے بلوں نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے لیکن حکومت اس حوالے سے سوائے طفل تسلیوں کے کوئی ریلیف دینے کیلئے تیار نہیں۔ حضور آپ کے پاس بجلی کی اس قدر کمی ہے کہ غریب عوام پر بھاری بلوں کی صورت مہنگائی کے بم پھوڑتے ہیں۔ اب اگر کچھ لوگوں نے جن کی سانس نکلتی ہے، سولر سسٹم کے تحت آپ کا یہ بوجھ کچھ کم کیا ہے جس سے غریبوں کے بجلی بلوں میں ریلیف کا اہتمام ہو سکتا ہے تو آپ نے اپنے اس نام نہاد عوامی بجٹ میں سولر پینلز پر بھی بھاری ٹیکس کی تجویز دے ڈالی ہے بالکل اسی طرح جیسے پراپرٹی کا کاروبار چل نکلا تھا جس سے کئی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار نصیب ہوا مگر حکومتی عاقبت نا اندیشی کی واضح مثال ہے کہ پراپرٹی ٹرانسفر پر اس قدر ٹیکسز عائد کر دیئے گئے جن سے کاروباری سرگرمیاں ہی ٹھپ ہوکر رہ گئیں۔ اب یہ سوچ ابھری ہے کہ زیادہ ہیوی ٹیکسز آمدن بڑھانے کی بجائے کاروبار کا ہی خاتمہ کر دیتے ہیں یہ ایسی ہی سوچ ہے جیسے آپ انڈے کھانے کی بجائے مرغی ہی ذبح کر دیں۔ اے اس بدنصیب ملک کے حکمرانو! ان چوبیس کروڑ غریب عوام کو اپنی مرغیاں ہی سمجھ لو ان کے انڈے ضرور کھاؤ لیکن خود انہیں ذبح تو نہ کرو ۔ کس قدر ظلم کی بات ہےکہ جن غریب عوام کے سروں پر تم لوگ سوار ہو جن کے خون پسینے کی محنت سے تم لوگ عیاشیاں کرتے ہو انہیں سہولیات دینے کیلئے تم لوگوں کے پا س وسائل نہیں، ایک بیوہ کی پنشن تم لوگ دس سال تک محدود کرنے جارہے ہو اپنی تنخواہوں میں اضافے پانچ سو فیصد اور بزرگ پنشنرز کو اس مہنگائی کی دلدل میں پھینک کر اضافہ محض سات فیصد، حاضر ملازمین کیلئے محض دس فیصد۔ ہمارے کسانوں کو مودی کیا مارے گا ہمارےصوبائی اور وفاقی حکمران خود مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یارستم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اب کےترقیاتی بجٹ پر ہی کٹ نہیں لگے ہیں عوامی اہمیت کے اہم ترین شعبہ جات تعلیم اور صحت کیلئے بجٹ کا محض عشر عشیر رکھا گیا ہے، یہ اہمیت ہے آپ لوگوں کے نزدیک قومی صحت اور ایجوکیشن کی الحفیظ و الامان! اس کے بعد کیا کہیں آپ بھی شرمسار ہوہم کو بھی شرمسار کر۔

تازہ ترین