• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ غالباً ۱۹۵۳ء کی بات ہے جب میں اپنے خاندان کے ہمراہ وزیر آباد سے’’ہجرت‘‘ کر کے لاہور کی سب سے خوب صورت بستی ماڈل ٹائون میں آکر آباد ہوا اور یہاں ماڈل ہائی اسکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا۔ یہ اسکول سی بلاک کے اسٹاپ کے سامنے ممتاز صحافی م ش کی کوٹھی میں واقع تھا۔ میری رہائش اے بلاک میں تھی۔ میں دھاری دار پاجامہ اور اسی قسم کی کوئی قمیص پہنے بستہ گلے میں لٹکائے، تختی ہوا میں لہراتے سایہ دار درختوں اور مہکتے باغوں میں سے ہوتا ہوا اسکول پہنچتا تو دروازے پر ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقبول قریشی ہاتھ میں بید لیے دیر سے اسکول پہنچنے والے طالبِ علموں کے’’ سواگت ‘‘ کے لیے کھڑے ہوتے۔ مقبول قریشی مرحوم بہت باوقارشخصیت کے مالک تھے اور طلبہ سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ان دنوں والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو لُقمہ سونے کا دیتے تھے اور دیکھتے شیر کی آنکھ سے تھے ۔ اس وقت تک بچوں کی نفسیات پرلندن میں شائع ہونے والی وہ کتابیں غالباً ہمارے خطے تک نہیں پہنچی تھیں جن میں سب سے بڑے ماہرِ نفسیات جناب’’مولا بخش‘‘ کی افادیت سے مکمل طور پر انکار کیا گیا تھا چنانچہ ان دنوں ہمارے تعلیمی نظام میں’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ والے مقولے کی افادیت کے پیشِ نظر اساتذہ کرام ہاتھ میں’’مولا بخش‘‘ ضرور رکھتے تھے اور بوقت ِ ضرورت اس کا بھرپور استعمال بھی کرتے تھے۔اس ضمن میں اسکول کے جن دیگر اساتذہ میں سے میں نے’کسبِ فیض‘ کیا ان میں ماسٹر محمد دین، ماسٹر قریشی صاحب، ماسٹر تاباں صاحب اور ماسٹر خدا بخش صاحب خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ پنجابی کے معروف شاعر راشد حسن رانا کے والد ِ محترم او ر اپنے وقت کے جانے پہچانے شاعر جناب حسن بخت بھی ماڈل ہائی اسکول ہی میں متعین تھے لیکن میں خوش قسمتی سے ان کی کلاس میں نہیں تھا۔ ان کی کلاس کو طلبہ نے’’پھانسی گھر‘‘ کا نام دے رکھاتھا۔ دراصل جس کلاس میں افتخار ’’کھڑکنے‘‘ ایسے طالبِ علم ہوں جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مار کھانے کے بعد ہانپتے ہوئے ماسٹر سے کہیں’’ماسٹر صاحب آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں تھک گئے ہوں گے، وہاں ماسٹر صاحب کے دل پر کیا بیتتی ہوگی؟اسی اسکول اور اسی فضا میں میری ملاقات اپنے ایک کلاس فیلو سے ہوئی۔ ہم دونوں کی عمر یہی کوئی دس گیارہ سال ہوگی، یوں توکلاس میں اور بھی بہت سے لڑکے تھے لیکن جس کے ساتھ میری گاڑھی چھننا شروع ہوئی وہ یہی گوراچِٹا اور گول مٹول سا بچہ تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہم دونوں بزمِ ادب کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے اور ایک دوسرے کو اُلٹے سیدھے شعر سُناتے رہتے جن میں سے اکثر ہم نے خود گھڑے ہوتے۔ نویں جماعت میں اپنے’’ذوقِ موسیقی‘‘ کی وجہ سے میں اسکول بینڈ کارُکن بھی بن گیاچنانچہ صبح’’اسمبلی‘‘ کے دوران اپنے جثّے سے بڑا ایک ڈھول گلے میں ڈالے جوشیلی دُھنیں فضا میں بکھیرا کرتا میرا یہ دوست اس’’نعمت‘‘ سے محروم تھا البتہ آٹھویں نویں جماعت میں ہم دونوں شعر گوئی کی طرف باقاعدہ مائل ہوئے صرف مائل نہیں ہوئے بلکہ خود کو باقاعدہ شاعر سمجھنا شروع کر دیا۔میر ے اس دوست کا نام ناصر زیدی تھا مگر ان دنوں یہ سیّد ناصر رضا عشرت زیدی کہلاتا تھا اور میں’’عطاء الحق قاسمی پیرزادہ‘‘ تھا۔ ہمارے فارسی کے عالم فاضل اُستاد ماسٹر تاباں سردیوں میں اسکول کے لان میں کلاس لیتے ہم گھاس پر بیٹھ جاتے اور وہ ہاتھ میں مولا بخش لیے پان چباتے۔ اکثر یہ پیش گوئی کرتے’’میری بات لکھ لو تم گنڈیریاں بیچو گے‘‘ ان کی پیش گوئی کم از کم ناصر زیدی کے بارے میں درُست ثابت نہیں ہوئی کیوں کہ ناصر گنڈیریاں نہیں بیچتا تھا،اپنی نظمیں غزلیں معاوضہ دینے والے سرکاری پرچوں، ریڈیو اور ٹی وی کے پاس بیچتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ غزلیں گنڈیریوں کی قیمت پر بیچتا ۔ ہمارے ہاں ادب اسی قیمت پر بکتا ہے۔میرا بہت جی چاہتا ہے کہ میں اپنے اس دور کے اساتذہ کی تصویر کشی کروں۔ آپ کو مشہور افسانہ نگار ذکاء الرحمٰن کے بارے میں بھی بتائوں جو ماڈل ہائی اسکول میں ہم سے دوجماعتیں آگے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی باتیں آپ کو بتانے والی ہیں۔لیکن میں یہ انتہائی دلچسپ حکایت کسی اور وقت کیلئے اُٹھا رکھتا ہوں کیوں کہ آج میرا جی صرف ناصر زیدی کے بارے میں باتیں کرنے کو چاہتا ہے جس کے ساتھ تعلق قریباً چالیس برس تک رہا اور یوں وہ ادبی حلقوں میں میرا سب سے’’کرانک‘‘ دوست ہے۔ میں اس وقت ناصر زیدی مرحوم کا خاکہ اُڑانے کے موڈ میں بھی نہیں ہوں کیوں کہ مجھے تو آپ کو یہ بتانا ہے کہ میرے سیلف میڈ دوست نے بہت کٹھن زندگی گزاری ۔ یہ ان چند ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے ایک طویل عرصے تک اپنی روزی ادب سے کمائی اس خوددار شخص نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین