چند متفرق واقعات۔ پہلا واقعہ۔ دو ماہ پہلے کچھ افراد لاٹھیوں کے ساتھ ایک ریستوران میں داخل ہوئے، عملے کو زدوکوب کیا، توڑ پھوڑ کی، خواتین کی موجودگی میں باآواز بلند ننگی گالیاں بَکیں اور زور زبردستی کر کے ریستوران کو بند کروا دیا۔ اپنے تئیں یہ لوگ اُس ریستوران کا بائیکاٹ کروا رہے تھے کہ مبینہ طور پر وہ ریستوران اسرائیلی کمپنی کی ملکیت تھا اور یوں وہ غزہ کے عوام کے ساتھ اظہارِ یک جہتی فرما رہے تھے۔ اگلے ہی دن وہ تمام حملہ آور پولیس نے گرفتار کر لیے، گرفتاری کے وقت اُن کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں اور اُن کی گز گز بھر کی لمبی زبانیں خاموش تھیں، اُس وقت انہوں نے اتنی ہمت بھی نہیں دکھائی کہ میڈیا کے سامنے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ فلسطینی کاز کی خاطر کیا اور یہ گرفتاری ہمارا ایمان متزلزل نہیں کر سکتی، وغیرہ وغیرہ۔ نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دوسرا واقعہ۔ نور مقدم کیس آپ کو یاد ہو گا، اُس لڑکی کے قاتل ظاہر جعفر کو فوراً گرفتار کر لیا گیا تھا، مقدمہ چلایا گیا، پھانسی کی سزا ہوئی، عدالت عظمیٰ نے بھی وہ سزا برقرار رکھی، بالآخر ظاہر جعفر اب کیفر کردار کو پہنچ جائے گا۔ تیسرا واقعہ۔ ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز کو اپنی بیوی سارہ انعام کے قتل میں پھانسی ہوئی ہے، شاہنواز کو بھی قتل کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور اب سیشن عدالت نے اُس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ چوتھا واقعہ۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایک موٹر سائیکل سوار نے کسی امیر اور بااثر آدمی کی گاڑی کو ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں گاڑی پر کوئی نشان پڑ گیا، گاڑی کے مالک سلمان فاروقی نے اپنے محافظوں کی مدد سے موٹر سائیکل سوار کو تشدد کا نشانہ بنایا، اُس کی بہن کلپنا دہائی دیتی رہ گئی مگر موصوف نے پروا نہیں کی، کسی نے ویڈیو بنا لی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، اگلے ہی دن اُس بندے کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ موٹر سائیکل سوار کا تعلق غریب ہندو طبقے سے تھا۔ پانچواں واقعہ۔ ثنا یوسف نامی پھول سی بچی کو جو ٹِک ٹاک پر ویڈیوز بناتی تھی ایک نوجوان نے محض اِس لیے قتل کر دیا کہ اُس بچی نے اُس خبیث سے ملنے سے انکار کیا تھا۔ پولیس نے قتل کے فوراً بعد تفتیش شروع کی اور دو چار دن کے اندر اندر خبیث کو تلاش کر کے گرفتار کر لیا۔
یہ گزشتہ چند ماہ کے واقعات ہیں جو فوری طور پر ذہن میں آئے ہیں، اِن واقعات سے دو متضاد نتیجے نکالے جا سکتے ہیں۔ ایک، پاکستان میں لا قانونیت ہے اور دوسرا، پاکستان میں قانون توڑنے کے بعد آپ گرفتاری سے نہیں بچ سکتے، اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ کس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ دونوں ہی باتوں میں کسی حد تک مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ ہم نے یہ فرض کر لیا ہوا ہے کہ پاکستان جیسی لاقانونیت روئے زمین پر اور کہیں نہیں، ہر شخص جو کسی سرکاری دفتر میں داخل ہوتا ہے یہ فرض کر کے داخل ہوتا ہے کہ اِس دفتر میں کوئی قانون، قاعدہ، ضابطہ نہیں ہو گا اور اگر ہوگا تو صرف غریب آدمی کے لیے، امیر کو سو خون معاف ہیں۔ ہمارے دماغ میں پاکستانی ریاست کا ایسا تصور راسخ ہو چکا ہے جہاں کوئی پوچھنے والا نہیں لہٰذا اگر آپ کے ہاتھ میں تھوڑی بہت بھی طاقت ہو تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے ریستوران میں داخل ہو کر غنڈہ گردی کی اور فلسطین کے نام پر لفنگے پَن کا مظاہرہ کیا اُنہیں یقین تھا کہ اُن کی اِس حرکت پر نہ قانون حرکت میں آئے گا اور نہ کسی کے کان پر جوں رینگے گی کیونکہ اگر انہیں ذرہ برابر بھی یہ اندازہ ہوتا تو وہ کبھی اُس بدمعاشی کی جرات نہ کرتے جو اپنے تئیں انہوں نے فلسطینی عوام کی حمایت میں کی، گرفتاری کے وقت اُن کی شکلیں صاف بتا رہی تھیں کہ انہیں امید ہی نہیں تھی کہ اُن کے خلاف اِس قدر جلد اور موثر کارروائی ہو گی۔ اسی طرح جس سلمان فاروقی نے غریب ہندو موٹر سائیکل سوار پر تشدد کیا یا جس خبیث نے ثنا یوسف کو گولیاں ماریں، اُس کو یہ ادراک ہی نہیں تھا کہ وہ کس قدر جلد قانون کی گرفت میں آ سکتا ہے، اگر انہیں یہ احساس ہوتا تو شاید وہ یہ حرکت نہ کرتے۔ دراصل اِس رُجحان کی وجہ وہ غلط فہمی جو ہمارے معاشرے میں جنم لے چکی ہے کہ یہاں قانون نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو گئی ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے، کیونکہ روزانہ بیسیوں واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں قانون کی خلاف ورزی پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی مگر اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پاکستان برکینا فاسو، ڈی آر کانگو یا صومالیہ بن چکا ہے۔ تاہم انڈیا کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد، جہاں دنیا کی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں وہاں ہمیں اپنی بھی کر لینی چاہئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ غلط فہمیاں ہیں کیوں؟
ریاستی اور سرکاری نظام پر عدم اعتماد کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ یہ ہے میڈیا پر صرف نظام کی خرابیاں اور ہماری نالائقی اور نااہلی کا پرچار ہوتا ہے، کارکردگی کی خبر اگر نشر بھی ہوتی ہے تو ایسےجیسے جھوٹ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ اصل میں ریاست اور سرکار کا امیج اُس وقت خراب ہوتا ہے جب وہ کسی قاعدے قانون کی پروا کیے بغیر اپنے مخالفین پر جعلی اور بے سروپا مقدمات بناتی ہے، اِس کی وجہ سے نہ صرف جگ ہنسائی ہوتی ہے بلکہ اِس تاثر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ سرکاری اہلکار نالائق اور نا اہل ہیں جو قانون کے تابع رہ کر کام نہیں کر سکتے۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے عام شہری کو اپنے نظام پر اعتماد نہیں رہتا کیونکہ اُس کے دماغ میں یہ تصور راسخ ہو جاتا ہے کہ یہاں ریاست جب چاہے گی قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لے گی۔ یہاں تک لکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ میں نے ایک ’کَٹّا کھول لیا ہے‘ جسے واپس بند کرنا مشکل ہے، مسئلے کی نشاندہی تو کر دی گئی ہے مگر اِس کا حل ہزار الفاظ کے اِس مضمون میں دینا ناممکن ہے اور بعض اوقات حل دینا ضروری بھی نہیں ہوتا کیونکہ مسئلے کی درست نشاندہی بذات خود حل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ سو، آپ میرے اِس قدم کو ویسا ہی حل سمجھیں اور اگلی مرتبہ جب آپ کوئی غیر قانونی کام کرنے کے بارے میں سوچیں تو اچھی طرح یہ جان لیں کہ پاکستان برکینا فاسو نہیں، یہاں بہرحال کچھ نہ کچھ قانون کی حکمرانی ضرور ہے۔