(گزشتہ سے پیوستہ)
زندگی بھر محنت کی اور اپنی سفید پوشی کو برقرا ر رکھا۔ شاعری کے علاوہ ناصر زیدی تحقیق کے کُوچے کی طرف بھی نگل گیا۔ وہ بسا اوقات بہت دل چسپ حقائق ڈھونڈ کر لاتا بلکہ میں نے محسوس کیا کہ وہ ان دنوں اسی ٹوہ میں رہتا ۔ اس کے پاس پرانے رسائل و جراید اور اخبارات کے ڈھیر لگے ہوتے۔ وہ کباڑیوں کی دُکانوں پر بھی اکثر نظر آتا،تاہم یہاں وہ کسی معروف ادیب کی تازہ کتاب کی تلاش میں ہوتاجو اشاعت کے چند دنوں بعد فٹ پاتھ پر پہنچ گئی ہو اور وہ اکثر اپنی اس تلاش میں کامیاب رہتا ۔ اس کامیابی کے بعد ناصروہ کتاب ادیب کی خدمت میں بہ صد احترام پیش کرتا کہ’’حضور! کتاب کی مقبولیت کی وجہ سے آپ کے لیے تو سب دوستوں کو کتاب پیش کرنا ممکن نہیں تھا البتہ مجھے خوش قسمتی سے یہ کتاب فٹ پاتھ پر پڑی مل گئی ہے، آپ دستخط کر دیجیے‘‘۔ ناصر زیدی تحقیق کے شوق میں آپ کو چائے کے لئے بھیج کر آپ کے کمرے کی بھرپور تلاشی بھی لیتا،اس کے پاس بہت سے نوادرات اسی سلسلے کی کامیاب کوششیں ہیں۔
چائےکے ذکر سے یاد آیا کہ یہ وہ چیز ہے جو ناصر کی کمزوری ہے۔ وہ نہ سگریٹ پیتا ہے اور نہ اسے مے نوشی سے کوئی رغبت ہے۔ وہ صرف چائے کا رسیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو چائے پلائے بغیر یا آپ سے چائے پیے بغیر آپ کو اُٹھنے دے۔وہ ہر دوصورتوں میں خوش ہوتا ہے لیکن اظہر جاوید کی طرح جب یہ اپنے ’’اڈے‘‘ پر بیٹھا ہوتا، اس وقت وہ کسی اور کو بِل نہیں دینے دیتا اور وہ یہ وضع داری اس وقت سے نبھا رہا تھا ، جب سے میں نے اسے اپنے پائوں پر کھڑا دیکھا بلکہ اس وقت سے جب وہ رزقِ حلال کے لیے ایک پائوں پر کھڑے رہنے میں بھی راحت محسوس کرتا تھا۔ناصر زیدی کُھل کر ہنسنے کا’’شوقین‘‘ تھا۔ ایک دفعہ اپنے لمبے بالوں کے ساتھ حجام کی دکان پر گیا اور شکایت کی کہ تم نے پچھلی مرتبہ بال صحیح نہیں کاٹے۔ اس نے کہا’’جناب یہ ممکن نہیں کیوں کہ مجھے تو دُکان قائم کیے ابھی صرف دو سال ہوئے ہیں‘‘ یہ سُن کر ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا بھی اور ان کی جوابی چھیڑ چھاڑ برداشت بھی کرتا۔ مجھے وہ’’مولوی‘‘ کہتا اور اس’’مولوی‘‘ کے ساتھ وہ ایک لاحقہ بھی استعمال کرتا ، جسے ضبطِ تحریر میں لانے سے تحریر ضبط ہو سکتی ہے ۔ وہ سارا سال اخباروں میں مولویوں کے حوالے سے شائع ہونے و الی بُری بُری خبروں کے تراشے جمع کرتا رہتا اور سال کے آخر میں مجھے ارسال کر دیتا اور ساتھ لکھا ہوتا’’اومولوی ۔۔۔پڑھ لے‘‘ میں اس کا جواب بوقت ِ ملاقات زُبانی بلکہ’’منہ زُبانی‘‘ عرض کرتاجس پر ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا۔ناصر زیدی کو عام شاعروں کی طرح شعر سُنانے کی ’’علت‘‘ نہیں تھی بلکہ وہ آپ سے شعر سُنتا بھی نہیں تھا۔ اس کے بجائے وہ کاغذ آپ کے ہاتھ سے لے لیتا اور جیب سے قلم نکال کر رضا کارانہ طور پر اصلاح دینے لگتا اوریوں ملک بھر میں ہزاروں کی تعدادمیں اس کے’’شاگرد‘‘ موجود ہیں بلکہ میرے خیال میں فیض اور ندیم کو چھوڑ کر آج کے ان سبھی شاعروں کو یہ اعزازحاصل ہے جنھوں نے ناصر کے سامنے کبھی جیب سے غزل نکالی ہو۔اور اس مختصر سی تحریر کے آخر میں اس تحریر کے’’نزول‘‘ کا پس منظر بھی مجھے آپ کوبتانا ہے ۔ ہری پور کے مشاعرے میں ناصر سے میری ملاقات ہوئی تو میرے سامنے ماڈل ہائی اسکول کا چھٹی جماعت کا گول مٹول سا بچہ’’سیّد ناصر رضا عشرت زیدی‘‘ نہیں بلکہ ملک کا معروف شاعر’’ناصر زیدی‘‘ کھڑا تھا، جس کا جسم پھیل چکا تھا، بال سفید ہوچکے تھے اور عمر ڈھل رہی تھی ۔ میں نے خود پر نظر ڈالی تو خود کو بھی عمر کی اسی دہلیز پر کھڑا پایا۔ میں نے سوچا ہم دونوں نے رفاقت کا کتنا لمبا’’پینڈا‘‘ طے کیا ہے ۔ میرا اتنا پرانا دوست تو اور کوئی بھی نہیں تو میں کیوں نہ اسی دوستی کی سالگرہ اپنی یادوں کے حوالے سے منائوں؟ سو میں نے قلم اُٹھایا اور اپنی یادوں کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کر دی!