حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی نے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن اور علاقائی سیاست کے کئی بنیادی تصورات کو چیلنج کیا ہے۔ ایک عرصے سے بھارت خود کو خطے کا قائد، نگہبان اور غالب طاقت تصور کرتا آ رہا ہے۔ آبادی، معیشت اور عسکری وسائل کے بل بوتے پر نئی دہلی نے خود کو خطے کے ترجمان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، مگر حالیہ تنازع نے اس بیانیے کو کافی حد تک زائل کر دیا ہے۔ اس کشیدگی نے نہ صرف پاکستان کے سفارتی اور دفاعی وزن کو اجاگر کیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ بھارت اب جنوبی ایشیا میں واحد طاقت نہیں رہا۔پاکستان نے اس بحران کے دوران جہاں عسکری توازن کو مؤثر انداز میں سنبھالا، وہیں عالمی سفارتی محاذ پر بھی اپنی پوزیشن کو بہتر انداز میں پیش کیا۔ بھارت کا یہ تاثر کہ وہ خطے میں واحد فیصلہ کن قوت ہے، اس کشیدگی کے بعد کمزور ہوا ہے۔ دنیا نے دونوں ممالک کو مساوی فریق سمجھا، اور کسی ایک کو اخلاقی یا سیاسی برتری نہیں دی۔ امریکہ، یورپی یونین، روس اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے مداخلت کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش کی، جو بذات خود اس امر کا ثبوت ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اس تنازع کے دوران دونوں ممالک نے اپنے بیانیے کو عالمی دارالحکومتوں میں پیش کیا، لیکن کسی ایک کے مؤقف کو مکمل حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ یہ متوازن سفارتی ماحول ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اب یک طرفہ بیانیے کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ بندی کا معاہدہ، جس میں امریکہ اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے کردار کی بازگشت سنائی دی، بھارت کی اس دیرینہ پالیسی کو ضرب لگاتا ہے جس میں وہ پاکستان کے ساتھ صرف "دو طرفہ" بات چیت کا داعی رہا ہے۔ جب معاملات ایک خاص حد سے بڑھتے ہیں، تو عالمی قوتیں کردار ادا کرتی ہیں، اور بھارت اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔
علاقائی طاقت کے توازن پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کے پڑوسی ممالک، جو کبھی اس کے سائے میں سانس لیتے تھے، اب اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں۔ بنگلہ دیش نے چین، جاپان اور اب حالیہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ معاشی روابط استوار کیے ہیں۔ نیپال نے بھارتی دباؤ کے باوجود آئینی اور سرحدی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سری لنکا، بھوٹان اور مالدیپ جیسے ممالک نے اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے بھارت اور چین کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ ان تمام تبدیلیوں نے جنوبی ایشیا میں ایک نئے کثیر قطبی سیاسی منظرنامے کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کی مؤثر سفارت کاری، بہتر دفاعی حکمت عملی اور عالمی حمایت نے بھارت کی روایتی برتری کو واضح طور پر چیلنج کیا ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ طاقت کا توازن صرف معیشت یا ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ سیاسی فہم، سفارتی حکمت اور قومی عزم سے بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی عسکری برتری ایک حد تک مؤثر ضرور ہے، مگر پاکستان کی جوہری صلاحیت، تیز رفتار جوابی دفاع، اور خارجہ پالیسی میں توازن نے بھارت کے اس بیانیے کو زک پہنچائی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کا واحد محافظ ہے۔
اس کشیدگی کے نتیجے میں نہ صرف بھارت کی سفارتی برتری کو چیلنج ملا بلکہ خطے کے دیگر ممالک نے بھی بھارت پر انحصار کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنوبی ایشیائی اقوام اب بھارت سے زیادہ برابری اور احترام کی بنیاد پر تعلقات کی خواہاں ہیں۔ وہ صرف سامع یا تابع بننے کے لیے تیار نہیں بلکہ فعال کردار ادا کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ علاقائی قیادت صرف دھونس اور معاشی دباؤ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اصل قیادت تب سامنے آتی ہے جب آپ دوسروں کو ساتھ لے کر چلیں، ان کے مفادات کو تسلیم کریں اور ان کے فیصلوں کا احترام کریں۔ پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا نہ صرف خطے میں امن کے لیے ضروری ہے بلکہ بھارت کے اپنے قومی مفاد میں بھی ہے۔
آنے والے وقت میں اگر بھارت جنوبی ایشیا میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک باہمی شراکت دار کے طور پر سوچنا ہوگا، نہ کہ ایک بالا دست ریاست کے طور پر۔ خطہ اب مزید ایک ملک کے زیرِ سایہ رہنے کو تیار نہیں۔ اگر بھارت اس حقیقت کو جلدی تسلیم کر لے تو وہ جنوبی ایشیا کو ایک متحد، پرامن اور ترقی یافتہ خطہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر، بھارت کی بالادستی کا خواب ایک خواب ہی رہے گا۔