• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی جو حالت زار ہے، دھرتی کے بدبختوں کا جو مقدر ہے، امیروں اور طاقتوروں کیلئے مزید وسائل حاصل کرنے کیلئے اس کا بھی سودا کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ روایت رہی ہے جسے ماضی میں بہت سے لوگوں نے بدلنے کا عزم کیا تھا لیکن اس لیے ناکام رہے کیوں کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اور پھر مفاد پرست اشرافیہ کا اثر و رسوخ نہایت سفاکی سے اقتدار کے در و بام پر مسلط ہے۔ اپنے مخالفوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور کھمبوں سے لٹکانے کی ان کی غراہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ اس سے تاثر یہ جاتا ہے کہ ان کے درمیان ناقابل تنسیخ سیاسی اختلافات ہیں، لیکن ہلکا سا بھی موقع ہاتھ آ جائے تو مفاد پرستی کی لت انھیں یک جان د و قالب کر دیتی ہے اور وہ ہاتھ ملاتے ہوئے ایک بار پھر اقتدار کے دستر خوان پر بیٹھ جاتے ہیں۔

میں نے پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر کو سمبڑیال میں ضمنی الیکشن کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھا۔ اعتراف کے ایک نایاب لمحے میں انھوں نے کہا کہ لوگوں نے نہ تو ان کی پارٹی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا ہے۔ مزید کہا کہ پی پی پی کو مسلم لیگ ن کے ساتھ اقتدار کے معاہدے میں شراکت کی سزا ملی ہے۔ انھوں نے اس بندھن کو توڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کی جیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ایک ایسی جماعت جسے ان کے مطابق لوگوں نے ووٹ نہیں دیے۔ اس کے باوجود اس پارٹی کو فاتح قرار دیا گیا جبکہ پی پی پی حکومت کا حصہ صرف اس لیے بنی ہوئی ہے کہ اسے خوف ہے کہ ایک بار اس سے باہر نکلنے کے بعد اس کا سیاسی سرمایہ ان لوگوں کے حملے سے مکمل طور پر تحلیل ہو جائے گا جو ماضی میں ان کی مجرمانہ چالوں سے واقف تھے، اور اب وہ اپنے ووٹ کے تقدس پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔

میں ان کے جرات مندانہ اعتراف کا احترام کرتا ہوں، لیکن جب تک یہ مقدس الفاظ حقیقت کا روپ نہیں دھارتے، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ حال ہی میں عمر کوٹ میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی ایسا ہی بھیانک منظر دیکھنے میں آیا جہاں ان کی اپنی جماعت نے ڈبے بھرتے ہوئے اور اپنی حکومت کی بے مہار طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے جیت چھین لی تھی، حالانکہ اسے حلقے کے عوام نے ووٹ دیا تھا۔

یہ گھناؤنی چالبازیاں ملک میں بدعنوان روایتی سیاسی اشرافیہ کی کمزور ہوتی ہوئی طاقت کی غماز ہیں۔ ان کی بقا کے تیزی سے کم ہوتے امکانات کے حوالے سے پیدا ہونے والا خوف انہیں پی ٹی آئی کی عوامی حمایت کو لپیٹ رکھنے کیلئے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ عمران خان کے خلاف جعلی اور من گھڑت مقدمات کے اندراج کے ذریعے ان کی مسلسل قید کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہ حربہ ماضی میں ناکام رہا تھا۔ درحقیقت ان جابرانہ اقدامات نے لوگوں میں خان کی حمایت کی بنیاد کو مزید تقویت دی جس کا ثبوت ان کے سیاسی ساتھیوں، اس کے وکلا اور خاندان کے افراد سے ملاقاتوں پر لگاتار پابندیوں سے ملتا ہے۔ یہ تباہ کن مشق ملک میں مزید تفرقہ اور تناؤکا باعث بنے گی۔

لیکن ہم مستقبل کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اب تک جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ نہ موثر ہے اور نہ مستحکم۔ تحریک انصاف کہیں نہیں جا رہی۔ یہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جسے قومی سطح پر بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ اس کی انتخابی فتوحات کو روک کر اور بدعنوان ٹولے کو نشستیں دلا کر اسے قومی دھارے سے باہر رکھنے کی کوششیں لازماً پلٹ کر وار کریں گی۔ اس کی وجہ سے مزید بداعتمادی اور اختلافات سر اٹھائیں گے۔ ملک میں یا تو جمہوریت ہوتی ہے، یا نہیں ہوتی۔ اور جب جمہوریت نہ ہو تو یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ موجود ہے۔ یہ اس طرح کام نہیں دیتی۔ درحقیقت اگر ایسا جھوٹا دعویٰ کیا جائے تو اس سے شفافیت اور دیانت کے مسائل پیدا ہوں گے۔ بدقسمتی سےہم نہ صرف یہ اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں کہ ہم جمہوریت اور آئینی حکمرانی نہیں رکھتے، ہمارا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ہم ملک کو دستور کی کتاب کے مطابق چلارہے ہیں۔ اس صورتحال نے ان لوگوں کو مایوسی اور بددلی کا شکار کر دیا ہے جو موجودہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

لیکن اس سےبھی اہم بات، لوگ غیر یقینی صورتحال اور آگے بڑھنے کے مواقع کے فقدان سے مشتعل ہو رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین سال میں تیس لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ چکے ہیں جن میں سے ایک لاکھ 35ہزار نے مختلف ممالک میں پناہ کی درخواست کی ہے۔ یہ ان لوگوں کا بڑے پیمانے پر اِخراج ہے جو یہاں مستقبل کی امید کھو چکے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ انہوں نے اپنے معمولی اثاثوں کو فروخت کر دیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ یہاں سے نکل جائیں۔

آئیے جو ہمارے پاس نہیں، اس کا دکھاوا کرنا چھوڑ دیں۔ آئیے جو ہم نہیں، اس کی بناوٹ نہ کریں۔ آئیے کم از کم اس بات کو تسلیم کریں کہ ہم کیا ہیں: یہاں کوئی آئین نہیں ہے، جمہوریت نہیں ہے، انصاف نہیں ہے، انسانی حقوق کا کوئی احترام نہیں ہے اور اخلاقیات اور انسانیت کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ہم ان اقدار کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ کیا ہم اس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں اور کیا ہمیں عوام کے مینڈیٹ سے طاقت حاصل کرنے والی ایک جائز حکومت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے؟ بطور ایک آئینی اور جمہوری ملک ہم تباہی کے دہانے پر ہیں۔ یہ ہمارے لوگوں کے مستقبل کیلئے اچھا نہیں۔ اپنی قسمت آزمانے اور کہیں اور جانے کیلئے بے چین بڑھتی ہوئی تعداد ملک سے ان کی مایوسی کو ظاہر کرتی ہے۔ لیکن ان کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے اصلاحی اقدامات کی بجائے ہم درحقیقت انھیں دور دھکیل رہے ہیں جیسے ہمیں انکی ضرورت نہیں۔ یہ صورت حال ملک اور عوام دونوں کیلئے زہریلے خدشات لیے ہوئے ہے۔

ہمیں اس بات کا فوری جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ عمران خان کو الگ تھلگ کرنے اور پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا جنون وہ مہلک ضرب ہے جس نے ملک کو نیچے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ لیکن اقتدار پر قابض لوگ عوام کے خیالات اور امنگوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات ہوں، یا اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات بشمول عمر کوٹ اور سمبڑیال کے حالیہ انتخابات، پی ٹی آئی کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ عوام میں موجود اور مقبول ہے۔ بعض سیاسی رہنماؤں کے اعترافی بیانات اس رجحان کی تصدیق کرتے ہیں جو ریاست کے سفاکانہ آلات کے اندھا دھند استعمال کے باوجود رکنے والا نہیں۔ یہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا وقت ہے۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ ہوشیاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ آئیے معاملات کو مزید تصادم کی طرف نہ دھکیلیں۔ بات چیت کے عمل سے ہی تنازعات کا حل نکلے گا۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے، آئیے اب اس سے زیادہ دیر نہ ہونے دیں۔

(صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ہیں)

تازہ ترین