کچھ روزقبل ایرانی پارلیمنٹ نے امریکا کی جانب سے اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کے ردعمل کے طور پر آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ دنیا کی سب سے اہم توانائی گزرگاہوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔
آبنائے ہرمز خلیج فارس کو بحیرہ عمان سے ملاتی ہے اور روزانہ قریباً 2 کروڑ بیرل تیل اسی راستے سے دنیا بھر کو منتقل ہوتا ہے عالمی گیس کا بھی 20 فیصد حصہ اسی راستے سے ہوکر گزرتا ہے جس سے سب سے بڑھ کر مستفید ہونے والا ملک قطر ہے۔ اس گزرگاہ کے شمالی کنارے پر ایران جبکہ جنوبی کنارے پر عمان اور متحدہ عرب امارات واقع ہیں۔ اس کی کم سے کم چوڑائی 21 میل ہے، جسکی وجہ سے اسے توانائی کے عالمی تجارتی راستوں میں نقطہ انجماد، شہ رگ اورتیل کی شریان بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تادم تحریر ایران اسرائیل میں جنگ بندی کی اطلاعات آرہی ہیں تاہم مشرق وسطیٰ میں مزید تصادم بڑھا تو عالمی توانائی مارکیٹوں کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ بہت حدتک بڑھ جائے گا اور آبنائے ہرمز کی بندش نہ صرف تیل کی ترسیل کو روکنے کا سبب بنے گی بلکہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی اور عالمی معیشت میں عدم استحکام یا ایک بڑے بحران کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس کے اثرات خصوصاً ایشیائی ممالک جیسے چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا پر زیادہ پڑسکتے ہیں کیوں کہ یہاں سے گزرنے والے تیل کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ ان ممالک کو ہی جاتا ہے۔
آبنائے ہرمز ،جہاں سے روزانہ عالمی تیل کے 20فیصد حصے کی ترسیل ہوتی ہے، کی بندش عالمی تجارت اور اقتصادی استحکام کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، اپنا تیل آبنائے ہرمز کے ذریعے لے جاتے ہیں۔ ماہرین اورتجزیہ کاروں کی رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ کلیدی آبی گزرگاہ اگر واقعتاً بند کی جاتی ہے تو تیل کی قیمتیں 100ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر سکتی ہیں اوراس سے دنیا بھر میں مہنگائی کا بڑا طوفان بپا ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں ایران اسرائیل کشیدگی کے بعد فی بیرل تیل کی قیمتیں 69ڈالرز سے 74ڈالر تک پہنچ گئیں اور ہرمز کی بندش کے بعد اس میں مزید اضافہ یقینی ہے۔ آبنائے ہرمز کا کوئی متبادل راستہ بھی نہیں۔ تنازعات کے دوران مخالفین پر پریشر بڑھانے کیلئے جہاز رانی کے راستوں پر طویل عرصے سے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے یمن کے حوثی آبنائے باب المندب کے اردگرد بحری جہازوں پر حملے کر رہے ہیں جو جزیرہ نما عرب کے دوسری جانب بحیرہ احمر میں داخل ہوتا ہے۔ جبکہ حوثیوں کے حملوں نے عالمی تجارت کو متاثر کیا ہے۔ بحری جہاز حوثیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے افریقہ کے گرد سفر کرتے ہوئے بحیرہ احمر سے بچ سکتے ہیں، جو کہ ایک طویل لیکن محفوظ سفر ہے۔ تاہم، ہرمز سے گزرے بغیر خلیج سے سمندر کے ذریعے کچھ بھیجنے کا کوئی آپشن نہیں۔ ایران اس سے پہلے بھی ایسی ہی دھمکیاں دے چکا ہے، بشمول پچھلی ٹرمپ انتظامیہ کیساتھ جوہری کشیدگی کے دوران، لیکن ایران نے کبھی ان پر عمل نہیں کیا۔
ایران اور چین کے اچھے تعلقات ہیں۔ چین تیل کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہے اور ایران کی تیل کی برآمدات کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہے۔ اگر آبنائے ہرمز بند ہو جاتی ہے تو چین کو ترسیل متاثر ہو گی جبکہ یہ خود ایران کیلئے اقتصادی طور پر تباہ کن ہوگا کیونکہ اس سے قیمتیں بڑھیں گی، جس سے حکومت میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔
ایران پہلے ہی ہندوستان کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ اور اسرائیلی ’’موساد‘‘ کی سازشوں کی بنیاد پر اندرونی سطح پر بہت سے بحرانوں سے نبردآزما ہے اس وقت ایسا کوئی بھی اقدام جو عوام میں معاشی عدم اطمینان کا باعث بن سکتا ہے موجودہ ایرانی حکومت کیلئے تباہ کن نتائج لا سکتا ہے۔