• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کنگ لیئر میں شیکسپیئر کہتا ہے: ہم دیوتائوں کے  ہاتھ  میں  ایسے ہیں  جیسے  شرارتی بچوں کے ہاتھ میں تتلیاں۔ وہ کھیل ہی کھیل میں  ہمیں مار ڈالتے ہیں۔

دنیا کاا سٹیج مغرور اور خود پسند شہنشاہوں سے بھر ا پڑا ہے ۔ کچھ کی تاریخ کے صفحات میں جھلک ملتی ہے ، دیگر محض خود ساختہ ہیں ۔ دونوں کی تاریخی شہرت تو بہت ہے لیکن عالی شان ناموں کی ساکھ کے مطابق ان کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ دور حاضر میں بھی ایسے شہنشاہوں کی کمی نہیں ۔ ان کے دور حکومت میں دنیا ناجائز دولت ، طاقت ، اختیار اور رجعت پسندی کی آماجگاہ بن گئی ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ اقدار کی ایسی دھجیاںبکھری ہیں کہ بیان سے باہرہے۔

ہم اس بدقسمت حالت پر غمزدہ رہتے ہیں لیکن اعتراف کرلیجیے کہ ہم نے واقعی بہتری کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ ہم ان فوائد سے راضی ہیں جو ہمیں اپنی حیثیت میں حاصل ہیں۔ ہم اس اذیت سے غافل ہیں جسے برداشت کرنا پسماندہ افراد کا معمول ہے۔ ان کا درد اور ان کی تکلیف، درحقیقت خود ان کی زندگی، کسی معنیٰ سے محروم رہی ہے۔اس تبدیلی کی سب سے گھنائونی بات یہ ہے کہ جب انسانیت کو اذیت دینے والے اقتدار کا منصب سنبھالتے ہیں تو طاقتور بھی گھٹنوں کے بل گر جاتا ہے۔ غزہ میں نسل کشی ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، لیکن دنیااس ہولناک حملے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مرد اور عورت، جوان اور بوڑھے، صحت مند اور بیمار، نوزائیدہ اور جو ابھی تک اپنی ماؤں کے پیٹ میں ہیں،کو بغیر کسی رحم کے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اندھا دھند بم دھماکوں اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی فورمز کے کمزور سے بندوبست کے ذریعے پہنچنے والی خوراک، ادویات اور امداد کو بھی روک دیا گیا ہے ۔ امریکہ نے جنگ بندی کی کال کو بار بار ویٹو کیا ہے۔ لیکن اس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا نہیں کیونکہ ہم بے عمل ہی نہیں بے حس بھی ہیں۔

ابھی حال ہی میں اسرائیل نے ایران پر بلا اشتعال حملہ کیا جسکی دنیا کے کچھ ممالک نے مدد اور حوصلہ افزائی کی جبکہ دیگر نے کچھ کرنے پر خاموشی کو ترجیح دی۔ انہوں نے جو کچھ کیا وہ اس حملے پر بے ضرر سے تنقید ی بیانات جاری کرنا تھا جس کا مطلب کچھ بھی نہ تھا۔ ابتدا میں امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اس کا اس تنازع سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسے امید تھی کہ ایران آسانی سے ہتھیار ڈال دے گا۔ لیکن جب اس نے ہمت اور جرأت کے ساتھ اسرائیل کو شدید نقصان پہنچایا تو اُس نے پہلے ’’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘‘ کا مطالبہ کیا اور پھر اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے میدان میں آ گیا۔ جب خلیج میں اس کے اثاثوں کو جوابی کارروائی میں نشانہ بنایا گیاتو اس نے امن ساز طاقت کاکردار ادا کرتے ہوئے متحارب فریقین کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔ اس دوران دنیا دم سادھے بیٹھی تھی جبکہ پورا خطہ ناقابل تصور تباہی کی نذر ہو سکتا تھا ۔ دنیا میں کبھی انصاف کی فراوانی نہیں رہی، لیکن اس طرح کبھی نہیں ہوا جیسا کہ عصر حاضر میں ہورہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ مساوات اور انصاف کے قابل اعتبار نظام کے بغیر دنیا زندہ نہیں رہ سکتی، خوشحال ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ اس طرح کا منصفانہ بندوبست ہمیں مفت میں آسمانی نعمت کی طرح میسر نہیں آنے جارہا۔ ہمیں اسے حاصل کرنےکیلئے لڑنا پڑے گا۔ غریبوں اور کمزوروں کی بجائے امیر اور طاقتور کی حمایت کرنے والے نظام کے خلاف لڑنا لازم ہوچکا ۔ یہ لڑائی آسان نہیں ہوگی جس میں ایک فریق بندوقوں اور بموں کے ڈھیر پر بیٹھا ہے ،ا ور اسے ان کے استعمال پر کسی تادیب کا خوف نہیں ۔ جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ پیارے بروٹس،عیب ہمارے ستاروں میں نہیں ، بلکہ ہماری کمزوری میں ہے ۔ جس حالت میں ہم خود کو مقید پاتے ہیں وہ فطرت کی طرف سے طے شدہ نہیں۔ اسکی آبیاری ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ہماری تقدیر کو سنوارنے کیلئے خود کو اقتدار کے عہدوں پر فائز کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے منظم جرائم اور غاصبانہ قبضے کے اس سنڈیکیٹ کے خلاف مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ہم نے مفاد پرست اشرافیہ کو نہ صرف اقتدار کی راہداریوں پر قابض ہونے کی اجازت دی بلکہ ہم خود بھی ناجائز اختیارات اور اس غیر منصفانہ نظام کے سامنے جھک گئے جسکی وہ مسلسل سرپرستی کر رہے ہیں ۔ یہ خود کو تباہ کرنے کا نسخہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نہ صرف اسکے نتائج کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں بلکہ ہماری کمزوری اس جبر کو مزیدتقویت بھی دے رہی ہے ۔ اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس راہ کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے تو ہمیں جو راستہ اختیار کرنا پڑے گا وہ خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ کوئی آسان راستہ نہیں ۔ یہ ایک مشکل چیلنج ہے جہاں ہر قدم ہمیں وہاں واپس لا سکتا ہے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔ لیکن یاد رہےدنیا میں کچھ بھی مفت ہاتھ نہیں آتا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق اور اپنی آزادی کے حصول کیلئے طویل عرصے تک جدوجہد کرنا پڑی۔ ایسا ہی ایک وقت ہمیں بلا رہا ہے۔ کیا ہم اس کی کال پر لبیک کہنے کیلئے تیار ہیں، یا ہم خیرات کے چند لقموں پر، جو ہمارے ہاتھ پر رکھے جارہے ہیں ، پر قناعت کرکے چپ بیٹھےرہیں گے؟

خواب دیکھنے والے قوم سازی کرتے ہیں ۔ قیادت نہ صرف خوابوں کی شناخت کرتی ہے بلکہ انھیں دیکھنے والوں کو بھی پہچانتی ہے ۔ تاہم اگر قیادتیں لوگوں کی خواہش کے برعکس کام کرنا شروع کر دیں تو تصادم کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جو تناؤ، حتیٰ کہ تشدد کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے بچا جانا چاہیے۔ناانصافی دائمی نہیں ہو سکتی لیکن تبدیلی ناگزیر ہے ، جو آ کر رہے گی ۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین