پاکستان ادب اور فن سے مالا مال سرزمین ہے۔یہاں خطاطی اور مصوری کو فنونِ لطیفہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ خطاطی اسلامی تہذیب کا روحانی اور جمالیاتی اظہار ہے، جو قرآن مجید کی تحریر سے وابستہ ہونے کے باعث احترام اور تقدس رکھتی ہے۔ پاکستان میں صادقین، گل جی اور دیگر فنکاروں نے روایتی خطاطی کو جدید اسلوب کے ساتھ پیش کر کے اسے فن کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
مصوری کے میدان میں بھی پاکستان نے آغاز ہی سے تخلیقی ترقی کی راہ اپنائی۔ فنکاروں نے مغربی فنون سے استفادہ کرکے اپنی قومی شناخت اور روایتی حوالوں کے ساتھ جدید مصوری کو فروغ دیا۔ ان فنکاروں نے ثقافت، روحانیت، معاشرتی مسائل اور داخلی کیفیات کو بصری انداز میں پیش کر کے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔ پاکستان میں خطاطی اور مصوری صرف فن کی شکلیں نہیں بلکہ قومی، ثقافتی، اور روحانی شناخت کی علامت ہیں جو وقت کے ساتھ ترقی کی نئی منزلیں سر کرتی جا رہی ہیں۔
صادقین ،پاکستان کے منفرد اور نمایاں حیثیت کے حامل عالمی شہرت یافتہ فنکار جو خطاطی ،مصوری اور دیواری نقش نگاری Murals میں نمایاں مہارت رکھتے تھے،نے1930 میں امروہہ میں آنکھ کھولی، تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور اپنی منفرد طرز مصوری اور فکر انگیز موضوعات کی بدولت خود بھی بے پناہ شہرت حاصل کی اور ملک کا نام بھی خوب روشن کیا۔انہوں نے روایتی اسلامی خطاطی کو اظہاری تکنیک سے ہم آہنگ کرتے ہوئے فن کے خمیر میں رکھی حیرت انگیز اور دلفریب جہتوں کو کینوس کی سطح پر ابھارا تو کمال ہو گیا۔ حرفوں کی منفرد تصویر کشی نے انھیں عربی رسم الخط کو عصری فن میں سمونے والی ،تحریک حروفیہ کے مرکزی کردار کی مسند پر سرفراز کیا۔
صادقین خود شاعر تھے اس لئے شعروں میں برتے جانے والے حرفوں کی وسعت اور گہرائی سے بخوبی آگاہ تھے۔حرفوں کو تصویری شکل میں ڈھالنے والے مصور نے اسلامی فن کی روح کو جدید مغربی آرٹ سے جوڑ کر ایک بصری زبان تخلیق کی جو عالمی سطح پر بھی منفرد تسلیم کی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے شعروں کے علاوہ غالب، اقبال اور فیض جیسے بلند پایہ شاعروں کے انسانی وقار ، جدوجہد، سماجی انصاف ،روحانی ارتقا ، وجودی فکر اور فطری مظاہر کا احاطہ کرنے والے شعروں کو تصویری صورت میں ڈھال کر طبقاتی فرق اور ظلم کے خلاف احتجاج کی رسم ڈالی۔ان کے کئی فن پاروں میں انسانی ہاتھ، کانٹے دار بیلیں اور پرندے ، تخلیق ، جدوجہد اور آزادی کی علامت کے طور استعمال ہوئے ہیں۔پاکستان کی کئی معروف عمارات میں انھوں نے شاہکار دیواری تصویریں (Murals) بنائیں جو ہر فرد کو سوچنے اور خیر کی جانب راغب کی دعوت دیتے ہیں۔
صادقین اور نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی جو پہلے پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج کے نام سے جانا جاتا تھا ، کے درمیان فن،ورثے اور قومی ثقافت کے تحفظ کے حوالے سے گہرا ربط رہاہے۔ 1970 کی دہائی میں صادقین نے اس کالج کی عمارت میں علم ، جدوجہد اور ارتقا کی عکاس دیواری تصویر تخلیق کی۔اس شاہکار کی اہمیت اور صادقین کی مجموعی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے NSPP میں نہ صرف صادقین گیلری کا قیام عمل میں لایا گیا بلکہ صادقین کے فن پاروںپر مشتمل خوبصورت کافی بک بھی شائع کی گئی۔ اس خوبصورت اور منفرد کتاب کو فن اور فکر سے جڑت رکھنے والی ڈاکٹر کرن خورشید نے بہت عمدگی سے مرتب کیا ہے۔ یہ کافی بک باطنی اور ظاہری جمالیات سے مالامال ہے۔ 112 صفحات پر مشتمل کتاب کھولی تو خود کو ایک عجیب جہان میں پایا ۔ جہاں حرف سرگوشیاں کرتے ہیں ۔رنگ مسحور کرتے ہیں اور آیات کی لکھت روحانی سرشاری عطا کرتی ہے اور اشعار کی گہری رمز چونکا دیتی ہے ، سورہ رحمن کی تلاوت گونجتی ہے اور مختلف انداز میں لکھے ’’فَبِاَىِّ اٰلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ‘‘دیکھ کر دل سجدہ ریز ہوا جاتاہے ۔صادقین گیلری فنکار کو خراجِ عقیدت، Sadequain Gallery 'an ode to the Artist ،مستقبل کے سول سرونٹس کی جمالیاتی اور فکری تربیت میں اہم کردار ادا کریگی۔
اس کتاب میں صادقین کی اصل پینٹنگز کی اعلیٰ معیار کی تصاویر شامل ہیں جو ان کے تخلیقی سفر ، موضوعاتی جہتوں اور فنی تکنیکوں پر بصیرت فراہم کرتی ہیں یہ کتاب فن کے شائقین ،مورخین اور محققین کیلئے ایک قیمتی دستاویز ہے، خصوصا وہ جو صادقین کے فن کے گہرے مطالعے کے تمنائی اور پاکستان میں خطاطی پر ان کے اثرات کو سمجھنا چاہتے ہیں اس کتاب کو ضرور دیکھیں ، پڑھیں اور روح کا حصہ بنائیں۔