انڈیا میں ایک مووی بنی تھی”تھری ایڈٹس‘‘ بڑی پاپولر ہوئی۔ بین الاقوامی سیاست میں ظاہر ہے ہم کسی بھی لیڈر کیلئے اس نوع کے الفاظ استعمال نہیں کرسکتے،یہ تہذیبی و سفارتی تقاضا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ کردیا ہے ”تین زیادہ سیانے“ ۔
امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں انکے بہت سے لچھن دیکھتے ہوئے اسی عنوان سے ایک کالم لکھا۔ تین کا ہندسہ پورا کرتے ہوئے دو زیادہ سیانے’’پاک ہند‘‘سے لیے، جو اس وقت یہاں راج سنگھاسن پر براجمان تھے، بشمول ہمارے سابق کھلاڑی کے، تینوں میں خصوصیات کا خاصا اشتراک تھا اگرچہ انڈیا والے نے اپنے دیش کو نسبتاً زیادہ ترقی دیتے ہوئے اچھی کارکردگی دکھائی تھی بالخصوص معاشی حوالے سے مگر نمود و نمائش یا ریاکاری میں وہ بھی اپنے دیگر دوستوں سے کوئی بہت زیادہ پیچھے نہ تھے۔
اس سلسلے میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ حالیہ معرکہ آرائی میں پوری کردی گئی ہے۔ ویسے اگر’’انصافی نظر‘‘سے دیکھاجائے تو تیسرا زیادہ شتابی دکھاتے ہوئے مکافاتِ عمل کے تحت اس پاتال میں پہنچ چکا ہے جہاں گرتے گرتے بھی لوگ کچھ نہ کچھ عرصہ لگاتے ہیں مگر مقام حیرت ہے کہ وہ کتنی جلدی آؤٹ ہو گیا۔ سو اس خالی نشست پر ہم ان دنوں تل ابیب کے بے بی کو رکھ سکتے ہیں جسکی خونیں شدت اسکی ذہنی حدت کو واضح کرتی ہے۔ یوں ثابت ہوتا ہے کہ درویش کے ممدوح پرائم منسٹر اضحاق رابن کے سرے، یہی صاحب چڑھے تھے جسکے کارن رابن، مصری صدر انور سادات، امریکن ہیرو ابراہم لنکن اور انڈین باپو مہاتما گاندھی کی طرح، اپنی ہی قوم کے مذہبی جنونی کی گولی کا ٹارگٹ بن گئے۔ درویش کو نوعمری کا اپنا وہ بیانیہ بھی پوری طرح یاد ہے جب وہ مسلم ورلڈ پر حاوی یا چھائے ہوئے تین خوفناک کرداروں کی ذہنی مماثلت کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ یہ تینوں اگرچہ خود کو انقلابی قرار دینے یا دلوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ر ہے تو ان تینوں کا انجام بھیانک ہوگا یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ’’مقام شہادت‘‘ حاصل کیے بغیر،اپنی طبعی موت مرے ۔اگرچہ یہ تینوں جنونی اپنی متشدد ذہنیت یا نام نہاد پاپولیریٹی و قابلیت کا ڈھنڈورا خوب پیٹتے تھے بلکہ ایسے کلٹ کہ عقیدتمند کم از کم انکے اپنے خطوں میں کسی نہ کسی حد تک آج بھی اُسی سابقہ پروپیگنڈے کے زیراثر موجود ہیں، ان میں سے ایک کا ملک لیبیا تھا تودوسرے کا عراق اور تیسرے کا ہمارا بدنصیب ملک پاکستان۔دوستو! آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے کہ یہ تینوں کون تھے؟
خیر یہ تو قصہ پارینہ ہے اور کیا فائدہ گڑے مردے اکھاڑنے کا اور وہ جو لمبی جیل یاترا پر ہے اسکے بھی خراب کپڑے ہم نے کیا دھونے ہیں۔ بات تو ان پر ہونی چاہیے جو آج بھی بڑے طمطراق کے ساتھ برسرِ اقتدار ہیں اور اپنی پاپولیریٹی کے قصیدے سننے کیلئےاوٹ پٹانگ حرکات کرتے رہتے ہیں ان میں ہمارے بلند پروازکوبھی شامل کیاجاسکتا ہے،باقی زور آوروں کے متعلق اس تضادستان میں رہ کر کسی امر کی لب کشائی کا یارا کسی میں بھی نہیں سو سارا غصہ جیسے تیسے جمہوریوں پر نکال لیا جاتا ہے۔موجودہ تینوں جمہوریوں میں سرفہرست امریکی سیانے کو تو مسخرہ بھی کہاجاسکتا ہے جو امریکا جیسے طاقتور جمہوری سسٹم میں کسا ہونے کی بجائے کسی تھرڈ ورلڈ کنٹری کی حکمرانی پر فائز ہو جاتا تو بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوتا، ویسے امریکی و برطانوی گوروں کا تقابل کرنے والے اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ برٹش جس قدر روایت پرست یا قدامت پسند ہوتے ہیں امریکی اسی قدر روایت شکن یا نئی نرالی راہیں تراشتے یا تلاشتے رہتے ہیں۔ امریکی تاریخ میں بڑے بڑے لال بجھکڑ آئے ہونگے مگر موجودہ صاحب نے تو ”زیادہ سیانا“ ہونے کی تمام حدود و قیود ہی پار کرلی ہیں۔ کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ موصوف کہاں کیا ہانک دیں گے ، کسی کو کچھ معلوم نہیں یہ کدھر کو گھوم جائے۔ سوائے اپنی ذات کے موصوف کیلئے دوست دشمن کی کوئی پرکھ یا پہچان نہیں اور اب تو اوباما کے حسد میںامن کے حوالے سے سراہے جانےکی خاطر تمام حدود پار کر جانےکیلئے دیوانہ ہوا پڑا ہے۔ حالیہ الیکشن میں جس متر ایلون مسک نے اپنا سارا سرمایہ اسکی بھینٹ چڑھا دیا تھا، ذرا سا مفاد ٹکرانے پر اسکے ساتھ کیا سلوک ہوا، طوطا چشمی تو کوئی اس ایلون مسک کے یار سے سیکھے، مسک کی طرح انڈین سیانا، ’’متر متر‘‘کہتے’’جے جے‘‘کے نعرے لگاتے اسے گلے لگارہا تھا کہ اچانک یہ اُسی کے گلے پڑگیا اب مترتا کی مالا جپنے والے کو سمجھ نہیں آرہی کہ اسے نائیک کہے یا کھل نائیک ، اپنا کہے یا پرایا، یا پھر جل بھن کر اسے یہ شعر سنا دے۔’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔اگر یہ شعر مشکل لگے تو بالی وڈ کا یہ گیت ہی سہی’’اپنوُں پہ ستم غیروں پہ کرم اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر، رہنے دے مترتا کا کچھ تو بھرم‘‘۔ یہ تو دور کی ہندی دوستی کے گلے شکوے ہیں اس امریکی طوطا چشمی کے سامنے تو اپنے یورپی اتحادیوں کی بھی کوئی اوقات نہیں۔ یوکرین والے کی تو اس نے میڈیا کے سامنے وہ تذلیل کی جو ضرب المثل بن گئی۔ اس کے تو پہناوے پر بھی امریکی ’’زیادہ سیانے‘‘ کو اعتراض تھا یوں بے عزت کرکے اسے وائٹ ہاؤس سے نکالا کہ اگر وہ غالب کو جانتا تو ضرور کہتا ۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے