پاکستان غیر سیاسی ہوتا جا رہا ہے ۔ایک المیہ ایک لمحہ فکریہ۔قوموں کی تعمیر،انسانی زندگی کے تحفظ ،تمدن کے فروغ، شائستگی کی تہذیب کیلئے سنجیدگی سے غور کیا جائے تو سیاست سب سے محترم اور مقدس فریضہ محسوس ہوگی کیونکہ یہ کروڑوں جیتے جاگتے انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں سیاست کو خود سیاستدانوں نے ایک قابل نفرت شعبہ قرار دیا ہے اس لئے گھریلو معاملات اور معاشی امور میں اکثر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ کوئی سیاسی ذکر نہیں ہوگا۔خود سیاسی سربراہ اپنے پارلیمنٹ میں دئے گئے بیان کو سیاسی کہہ کر نظر انداز کرنے کی اپیل کرتے رہے ہیں ۔یعنی سیاسی بیان میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے۔پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں معاشرے کو اسی لیے غیر سیاسی رکھنے پر زور دیا جاتا رہا۔ عوامی چائے خانوں میں ڈرائنگ روم میں عام طور پر ہدایت کی جاتی رہی ہے’’سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔اس ضابطے کا اثر یہاں تک ہوا ہے کہ ہماری ساری سیاسی پارٹیاں غیر سیاسی ہو کر رہ گئی ہیں۔کیسے ہی بحران ہوں کتنے ہی حساس مسئلے ہوں۔ سیاسی پارٹیاں اپنی مرکزی مجلس عاملہ سینٹرل کمیٹیوں کے اجلاس نہیں بلاتی ہیں اور اگر یہ اجلاس ہوں بھی تو خوف فساد خلق کے پیش نظر وہاں سیاسی گفتگو نہیں ہوتی یہی لگتا ہے کہ دربار لگا ہے بادشاہ سلامت کی ایک جنبش نظر کے سب منتظر ہیں پھر خوشامد کے در کھل جاتے ہیں ۔
مہذب جمہوری نظام کی مرکزی ستون قومی سیاسی پارٹیاں ہی ہوتی ہیں۔ وہی جمہوریت کی چار دیواری تعمیر کرتی ہیں۔ اسمبلیوں میں جمہوریت کےبام و در اور احاطوں کے قواعد و ضوابط طے کیے جاتے ہیں۔ ایک کتاب آئین کی بھی ہوتی ہے جو حکمرانی کی مدت کے آداب متعین کرتی ہے ۔ملک میں ایک بھرپور سیاسی عمل جاری رکھنے کیلئے شہر دیہات میں موجود پارٹیوں کی شاخیں عہدے داروں اور کارکنوں کے درمیان رشتہ استوار رکھتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے سیکریٹریٹ حکمران پارٹی کے لیے رہنما خطوط طے کرتے ہیں۔ اس لیے حقیقی جمہوری معاشروں میں پارٹی اور سرکاری عہدے الگ رکھے جاتے ہیں ۔سچی جمہوریت کی نشو ونما کے لیے پارٹی کو حکومت پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ پارٹی عہدے دار ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم کون ہونا چاہیے ،پارٹی ٹکٹ کسے ملنا چاہیے،پارٹی ٹکٹ کا حقدار کون ہے۔ایسا جمہوری اور سیاسی عمل ہی ملک کو ایک شائستہ سماج میں تبدیل کرتا ہے اور ایک باقاعدہ سسٹم کی صورت گری ہوتی ہے ۔پاکستان کے قریباََ ہم عمر بلکہ چند سال بڑے ہونے کی بدولت میں نے پاکستان کو وجود میں آتے پھر پورے ہوش کے ساتھ اس کے سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ 1947ءسے 1958 کے عشرے میں کتنے وزیراعظم آئے گئے اور ایک دوسرے پر کیسے کیسے الزامات عائد کیے گئے۔ آخر وہ کیا سیاسی اسباب تھے کہ انگریز اور ہندو جیسی منظم قیادتوں سےالگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ پہلے عشرے میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ۔انتخابات میں شکست کھانے لگی اس لیے کہ وہ غیر سیاسی ہو گئی تھی۔ سیاسی قواعد و ضوابط سے اجتناب کرنے لگی تھی۔سیاسی رہنما ہی ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگاتے رہے پھر سیاست دانوں پر کرپشن کے مقدمات چلانے کیلئے ایبڈو ،پروڈا جنرل ضیاء الحق کے دور میں فوجی نااہلی ٹریبونل پھر مشرف دور میں نیب وجودمیں لائے گئے۔نون لیگ اور پی پی پی نے ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات قائم کیے۔یہ سب تاریخی حقائق ہیں۔ ملک میں غیر سیاسی قوتیں بھی سیاسی شخصیات کی حمایت سے ہی براہ راست اقتدار میں آتی رہیں ۔اس وقت ہم جس فکری انتشار کا شکار ہیں۔ بے یقینی سے دوچار ہیں۔ ایسے دنوں میں تو قومی سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کہ وہ قوم کو اس اقتصادی سماجی اور اخلاقی بحران سے نکالنے کیلئے باہمی مشاورت سے قوم کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھائیں۔ ملکی تقدیر کے فیصلے سیاسی پارٹیاں کریں نہ کہ چند خاندان۔ پاکستان کی تاریخ کے ایک سنجیدہ طالب علم کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اب 2025 میں پاکستان جتنا غیر سیاسی ہے اتنا 78 سال میں کبھی نہیں رہا۔جمہوری معاشرہ ہونے کیلئے پہلا قدم ملک کا سیاسی ہونا ہی ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی میں عوام کو شمولیت کا احساس بالکل نہیں ہے ۔امیر غریب کے درمیان فاصلے اور طبقاتی تضادات بہت وسیع ہو چکے ہیں۔ انگریزی اصطلاحات میں پاکستانی معاشرہ ایک Disconnect کا شکار ہے ۔سمت ایک نہیں ہے۔سماجی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کی روایات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ روزگار کے مواقع محدود ہو رہے ہیں۔بڑی بڑی کمپنیاں سینکڑوں لوگوں کو فارغ کر رہی ہیں ۔جو معزز شخصیات اس وقت بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر ہیں ان کی گفتگو میں بھی اعتماد نہیں ہے اور قطعی طور پر غیر سیاسی باتیں کی جا رہی ہیں ۔شخصیات تو آنی جانی ہوتی ہیں ان سے محبت یا نفرت ان پر اعتماد یا اختلاف قومی تعمیر میں اہمیت نہیں رکھتا۔اصل لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود سیاسی پارٹیوں کے اہداف کیا ہیں۔ انہوں نے اپنے حامیوں کو یا قوم کو بالعموم کسی منزل کی نشاندہی کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون 10 /20 سال بعد کیسا پاکستان چاہتی ہے ۔کس ملک کی ترقی کو اپنے لیے رول ماڈل خیال کرتی ہے۔ کیا 1971 سے برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو کوئی خواب دیا ہےکہ پی پی پی آئندہ ایک دو عشروں بعد کیسے پاکستان کیلئےجدوجہد کر رہی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف والوں نے کیا کوئی لائحہ عمل دیا ہے کہ وہ آئندہ 10/ 15 سال میں پاکستان کو کن منزلوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ پارٹیاں اپنے عہدے داروں اور کارکنوں کو کوئی اسائنمنٹ دیتی ہیں ۔کسی پارٹی نے بھی کسی ’’پاکستان پروجیکٹ‘‘کے خطوط واضح کیے ہیں۔ ہمیں شخصیات تو دکھائی جاتی ہیں موجودہ وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ، اسمبلیوں کےا سپیکر، سینٹ کے چیئرمین ہمارے سامنے ہیں۔آئندہ کے وزرائے اعظم کی بھی تشہیر کی جا رہی ہے مگر ملک کی معیشت ،تعلیم ،زراعت، مینوفیکچرنگ ،معدنی وسائل ،فی کس آمدنی، ٹیکنالوجی ،قانون۔ آب پاشی، پینے کے صاف پانی کے کیا امکانات اور اعداد و شمار ہوں گے یہ بھی کوئی سیاسی پارٹی بتاتی ہے یا نہیں ۔سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستان پر اس وقت جتنے قرضے چڑھ گئے ہیں جو ہماری فی کس آمدنی اور دوسرے اشاریوں سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ ان کو پاکستانی کیسے ادا کریں گے؟ یہ کوئی پارٹی بھی نہیں بتا رہی ہے ۔
ملک کو ایک حوصلہ افزا امید بھرا کلچر سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی عمل سے ہی عطا کرتی ہیں اور اپنے اہداف پر قوم کو اعتماد میں لیتی ہیں۔ اسی سے ایک سسٹم صورت پذیر ہوتا ہے ۔جس میں رہتے ہوئے قوم کا ہر فرد اپنا ایک ایک لمحہ گزارتا ہے اور اس کو اپنے جینے کا سبب جانتا ہے ایک شخصیت کیلئے نہیں بلکہ ایک ملک اور ایک قوم کیلئے وہ آگے بڑھتا ہے۔ ایسے میں ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک پوری طرح سیاسی ہے ،جمہوری ہے، آگے بڑھ رہا ہے۔