پاکستان میں ایک عمومی رویہ پایا جاتا ہے کہ ہم اپنے پیشہ ورانہ اور تخصیصی شعبوں سے ہٹ کر ان معاملات میں بھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے ہمارا تعلق نہیں ہوتا۔ اصل میںاسے بھی ہمارے جمہوری تجربے کے اتار چڑھائو کا ایک ناگزیر نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ غیر جمہوری یا آمرانہ معاشروں میں فیصلہ سازی کا دائرہ محدود اور من مانا ہونے سے بنیادی نقصان یہ ہوتا ہے کہ قوم مختلف امور پر بہترین پیشہ ورانہ رائے سے محروم ہو جاتی ہے۔ سینٹ کے حالیہ اجلاس میں محترم پرویز رشید نے ایک نہایت دانش مندانہ نکتہ اٹھایا۔ ان کے الفاظ تھے۔ ’’جب تک ہم پاکستان کے تمام شہریوں سے مساوی سلوک نہیں کریں گے ، جب تک ریاست، پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھے گی اور ایک جیسی توجہ پاکستان کے ہر شہری کو نہیں دے گی تو (قوم میں) تفریق موجود رہے گی ‘‘۔ محترم پرویز رشید کے ارشادات مجھے 12مارچ 1949 ء کو دستور ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سریش چندر چٹوپادھیائے کی تاریخی تقریر تک لے گئے۔ انہوں نے کہا تھا ’’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام مسلم یا غیر مسلم ایک ہی قوم پر مشتمل ہیں اور یہ سبھی پاکستانی ہیں ...میں کہتا ہوں کہ عوام میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کو ختم کیجئے اور آئیے خود کو ایک ہی قوم کہلوائیں۔ ہم خود کو ایک ہی قوم یعنی پاکستان کے عوام کہلوائیں‘‘۔پرویز رشید اور سریش چندر چٹوپادھیائے کی تقاریر کا ذکر یہاں اس لیے چلا آیا کہ کوئی دو مہینے پہلے پاکستانی قوم کے مختلف گروہوں کے مذہبی تشخص پر خیال آرائی فرمائی گئی۔ دوسرے یہ کہ غالباً پاکستان کے باشندوں کی اکثریت نے آئین کی شق 25 نہیں پڑھی جس میں پاکستان کے تمام شہریوں کو ہر طرح کے امتیازسے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ قائداعظم نے 11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی ترقی کا جو نسخہ بتایا تھا ، اگرچہ اس کا ذکر اب بہت سے عناصر پر گراں گزرتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہم پاکستان میں زبان ، عقیدے اور ثقافت وغیرہ کی بنیاد پر دیواریں کھڑی کر کے ایسی قوم تعمیر نہیں کر سکتے جو اپنی داخلی توانائی کی بنیاد پر معیشت ، علم اور تمدن میں ترقی کی راہیں تراش سکتی ہو۔ قیام پاکستان کے بعد بہت سے ایسے عناصر اس ملک میں فیصلہ سازی بلکہ حکمرانی کے دعویدار ہو گئے جن کا تحریک آزادی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگرچہ مولانا حسین احمد مدنی ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا محمد سجاد بہاری اور مولانا حفظ الرحمن جیسے حریت پسندوں کی عزیمت سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جو قومی تشخص مرتب کرنے کی کوشش کی گئی اس کا مطالبہ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آئیے کچھ اعداد و شمار دیکھتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 30 اپریل 1947 ء کو ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے صدر راجندر پرشاد نے ایک اخباری انٹرویو میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے 4مئی 1947 ء کو دہلی سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی مخالفت کی گئی تھی۔ قائداعظم کے بیان کا حرف بہ حرف متن موجود ہے اور اس سے کچھ بہت اہم زمینی حقائق برآمد ہوتے ہیں۔ 1941 ء کی مردم شماری کے مطابق بنگال کی کل آبادی 6 کروڑ تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ یعنی 54 فیصد تھی۔ 46 فیصد بنگالی غیر مسلم تھے جنہیں قائداعظم پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ اسی ماخذ کے مطابق پنجاب کی کل آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ تھی ۔ 53.2 فیصد پنجابی مسلمان تھے جبکہ ہندو ، سکھ اور دیگر غیر مسلم آبادی تقریباً 47 فیصد تھی۔ قائداعظم بنگال اور پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے تھے اور تبادلہ آبادی بھی تقسیم کی کسی تجویز کا حصہ نہیں تھا۔ گویا قائداعظم کے تجویز کردہ پاکستان میں پنجاب کی 47 فیصد اور بنگال کی 46 فیصد آبادی کو غیر مسلم ہونا تھا۔ قائداعظم کے مجوزہ پاکستان میں بنگال اور پنجاب ہی بڑے صوبے تھے۔ سندھ کی ساڑھے 48 لاکھ میں غیر مسلم آبادی کا تناسب 28 فیصد تھا۔ صوبہ سرحد میں البتہ مسلم آبادی 97 فیصد تھی لیکن صوبہ سرحد کی سیاست کا نقشہ ہی بالکل مختلف تھا۔ قائداعظم جس پاکستان کا مطالبہ کر رہے تھے اس کو سامنے رکھا جائے تو ایک مسلم اکثریتی قومی ریاست سامنے آتی ہے جسے مساوات اور رواداری کے اصولوں کی روشنی میں سیاسی اور معاشی حقوق دیے بغیر نئی قوم کی تعمیر ممکن نہیں تھی۔ پاکستان کو معاشی اور جغرافیائی طور پر کمزور کرنے کے لیے کانگرس نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا اشغلہ چھوڑا تھا اور اس تقسیم کے نتیجے میں قائداعظم پاکستان کو ’کٹا پھٹا‘ ،’مسخ شدہ ‘ اور ’دیمک زدہ‘ پاکستان قرار دیتے تھے۔ اب درویش یہ نوحہ کہاں بیان کرے کہ آج کے پاکستان کی قانونی، سیاسی اور تمدنی سمت متعین کرنے کے دعویداروں میں سے ایک مرحوم نے مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ کے کسی ریزولیوشن اور لیگ کے ذمہ دار لیڈروں میں سے کسی کی تقریر میں آج تک یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ ان کا آخری مطمح نظر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا ہے۔ برعکس اس کے ان کی طرف سے بصراحت اور بتکرار اظہار کیا گیا ہے کہ ان کے پیش نظر ایک ایسی جمہوری حکومت ہے جس میں دوسری غیر مسلم قومیں بھی حصہ دار ہوں مگر اکثریت کے حق کی بنا پر مسلمانوں کا حصہ غالب ہو۔ بالفاظ دیگر ان کو مطمئن کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ ہندو اکثریت کے تسلط سے وہ صوبے آزاد ہو جائیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ باقی رہا نظام حکومت تو وہ ’پاکستان‘ میں بھی ویسا ہی ہو گا ، جیسا ہندوستان میں ہو گا۔‘‘ یہ الگ قصہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلم لیگ نے تو پاکستان میں مذہبی پیشوائیت کا وعدہ کیا تھا۔