• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں کام کے لائق سوا سات کروڑ لوگوں میں سے 45لاکھ بے روزگار ہیںیعنی 45لاکھ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں اس پر کسی سیاسی پارٹی کو ،کسی دانشور کو ،کسی تحقیقی ادارے کو تشویش بھی نہیں ہے کہ یہ 45 لاکھ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں اور کن گروہوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ حال میں بے بسی 'مستقبل کیلئے بے یقینی 15 سے 24 سال کی 60 فیصد آبادی میں 11 فیصد بےروزگاری۔ انتہائی ضروری اشیاء کی قیمتیں فرد کی آمدنی سے کہیں زیادہ پھر حکمرانوں کی اس سنجیدہ مسئلے سے بے اعتنائی میڈیا پہ بھی ان حساس معاملات پر کوئی تجزیہ نہیں ہو رہا۔ موسمیات کی تبدیلی کا بہت شور ہے۔ اس کیلئے فنڈز مخصوص کیے جا رہے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر، جیتے جاگتے انسانوں کی بیکاری پر کوئی تشویش نہیں ہے ۔ٹیکنالوجی کی تیز رفتاری سے بہت سے پرانے ہنر اور پیشے معدوم ہو رہے ہیں اس لیے روزگار کے مواقع بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں معدوم ہنروں کے تجربہ کار فارغ کیے جا رہے ہیں ۔چند خاندانوں کو برسر روزگار رکھنےکیلئے آئین میں ترامیم کی جا رہی ہیں۔ چند عہدیداروں کو زیادہ با اختیار بنانے کیلئے قوانین بدلے جا رہے ہیں۔ کسی بھی ملک میں ریاستی ادارے کم از کم پانچ دہائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ ملک میں کون سی فصلیں ضروری ہونگی ۔ کتنے شہری روزگار کے قابل ہو جائیں گے۔ کس شعبے میں کتنے تربیت یافتہ کارکن درکار ہونگے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اسی حوالے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ افرادی وسائل کتنے مطلوب ہوں گے۔ خام مال کہاں کہاں ،کیا کیا ،کتنا دستیاب ہے۔ اس کی بنیاد پر اس علاقے میں کوئی صنعتی سرگرمی ہو رہی ہے یا نہیں ۔پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے کیا منصوبہ بندی ہے ۔فوری اور طویل المیعاد کن فصلوں کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی ادارہ یہ اعداد و شمار دیتا ہے کہ کن شعبوں میں کون سے تربیت یافتہ لوگ چاہئیں ۔آج کل معدنی ذخائر کی بہت بات ہو رہی ہے ۔کیا ہماری یونیورسٹیوں میں معدنی ذخائر کی بہتات کے مطابق ان علاقوں میں جیالوجی کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ ملک کی موجودہ ضروریات کی مناسبت سے ہمارے پرائمری سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک نصاب مرتب کیے جانے چاہئیں ۔آن لائن کاروبار کی بھیڑ چال چل چکی ہے ٹک ٹاک ،یوٹیوب اور عجیب و غریب حرکتوں کیلئے ہمارے بہن بھائی اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں۔ ان سے ان کمپنیوں کو تو فائدہ ہو رہا ہے ۔کچھ چرب زبان کھلنڈرے شوباز ڈالر کما رہے ہیں لیکن اس سے کیا کوئی اچھی اقتصادی روایات یا مثبت رجحانات پنپ رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع کی منظم منصوبہ بندی نہ ہونے سے معاشرے میں مایوسی اور ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے دوسری طرف نوجوانوں کی توانائیاں، مافیاوں دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ گروہوں کے کام آ رہی ہیں۔ حقیقی اعداد و شمار کیلئے سرکاری اداروں پر اگرچہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ میسر بھی نہیں ہے 25 کروڑ میں سے کہا جا رہا ہے کہ کام کرنے والوں کی تعداد سات کروڑ 17 لاکھ 60 ہزار ہے کیا اس پر تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس تعداد کی صلاحیتیں کیا درست جگہوں پر صحیح انداز میں استعمال ہو رہی ہیں ۔ اللہ تعالی نے ہمیں جس باشعور نوجوان آبادی سے نوازا ہے اور جو ستاروں پر کمند ڈال سکتی ہے کیا ہم اسے یہ موقع دے رہے ہیں ۔ان سات کروڑ میں سے 45 لاکھ بے روزگار ہیں تو کیا یہ تشویش ناک امر نہیں ۔ افسوس ناک یہ بھی کہ 4 ہزار پی ایچ ڈی بھی بے روزگار ہیں ۔ایک عرصے سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اب بہت سے شعبوں میں تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ ان میں روزگار کے مواقع نہیں رہے۔ اسی طرح بہت سے ہنر غیر ضروری ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ مصنوعی ذہانت گوگل اور کئی شعبوں میں خود کاری سے افرادی قوت غیر ضروری ہو رہی ہے مگر یہ بھی تو ریاست ہی کی ذمہ داری ہے کہ ایسی تبدیلیوں کیلئے قبل از وقت تیاری کی جائے اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ یہ تبدیلیاں دنیا بھر میں آ رہی ہیں اس لیے نصاب بدلے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹیاں قدیم علوم میں جدید تقاضوں کے مطابق تجدید کر رہی ہیں وہ انہیں بالکل ختم نہیں کر رہیں ۔ہمارے ارباب حل و عقد اور ماہرین تعلیم کا بھی فرض ہے کہ وہ ہمارے ماضی کے علوم صوفیا کے کلام روایتی ہنرمندی اور روزگار کے ذرائع کو جدید علوم سے ہم آہنگ کریں ۔ قومی سیاسی پارٹیوں کی بھی یہ سیاسی سماجی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں بالخصوص دیہات اور چھوٹے شہروں کے والدین کی یہ سوچ بدلیں کہ وہ اپنی اولادوں کیلئے اب بھی سرکاری ملازمت بالخصوص پولیس میں بھرتی کو ہی اپنا خواب سمجھتے ہیں۔ ملک میں سیاسی حکومتیں بھی آئیں، فوجی بھی لیکن افرادی وسائل اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں ان دونوں کے امتزاج سے روزگار کے مواقع کی تنظیم نہیں کی گئی۔ بے روزگاری سب سے زیادہ حساس اور نازک مسئلہ ہے صرف حکمرانوں کو ہی نہیں پورے سماج کو اپنی توجہ اس پر مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ 60 فیصد آبادی میں مایوسی بے بسی اور بیزاری پیدا ہو رہی ہے سٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارے نوجوان علیحدگی پسند تنظیموں دہشت گرد گروہوں اور جرائم پیشہ عناصر کا آلہ کار بننے پر مجبور ہیں۔ افرادی اور قدرتی وسائل دونوں ضائع ہو رہے ہیں۔ صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائی جا رہیں ۔ خام مال کی مناسبت سے صنعتوں کا پھیلاؤ نہیں ہو رہا اور جو نوجوان اپنے طور پر بزنس کرنا چاہتے ہیں ان کی رہنمائی بھی نہیں ہے اورماحول بھی سازگار نہیں ۔ پہلے سے امیر خاندانوں میں تو نوجوان اپنا کاروبار سنبھال رہے ہیں لیکن نئے نوجوانوں کیلئے حوصلہ افزا حالات نہیں ہیں۔ خود غور کر لیجئے کہ جس معاشرے کے 45 لاکھ افراد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں ۔اپنی صلاحیتوں کو اپنے خاندان کی خوشحالی ریاست کی ترقی کیلئے استعمال نہ کر پا رہے ہوں۔ اس خلا سے کتنے نفسیاتی ،مالی، اقتصادی ،سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہونگے اس کا مظہر بلوچستان کے حالات ہیں۔ سندھ میں شہری اور دیہی تضادات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں بھی نسلی لسانی فرقہ وارانہ تعصبات جڑ پکڑ رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔ملک میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ تب بے یقینی ختم ہوگی ۔اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور قومی سیاسی پارٹیاں میڈیا معاشرے کو خبردار کریں کہ کس ہنر کی ضرورت ہے ۔کس کے تربیت یافتہ لوگ کم ہیں اور کس ہنر میں اب روزگار کےمزید مواقع میسر نہیں ہیں ۔بے روزگاری معاشرے کو بانجھ بھی کر دیتی ہے اور جرائم میں بھی اضافہ کرتی ہے اسلئے اسکو سنجیدگی سے منظم انداز میں طے کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین