رواں برس گیارہ جولائی کو پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں شمولیت کے 75سال مکمل کر رہا ہے، تاریخی طور پر پاکستان نے آزادی کے تین سال بعد 11جولائی 1950ء کو آئی ایم ایف کی رکنیت حاصل کی، یہ ہماری ملکی تاریخ کا وہ ابتدائی دور تھا جب نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا معاشی و اقتصادی مسائل کا سامنا تھا، اس زمانے میںہماری معیشت کا دارومدار زراعت پر تھا، صنعتی ڈھانچے کا فقدان تھا، زرمبادلہ کے ذخائر کم اور تجارتی خسارے میں اضافہ تشویشناک تھا، ایسے حالات میں پاکستان کا آئی ایم ایف کی ممبرشپ حاصل کرنا بین الاقوامی مالیاتی نظام تک رسائی اور اقتصادی استحکام کے حصول کیلئے بہت بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرضہ 1958ء میں صدر ایوب کے دورِ اقتدار میںحاصل کیا، اگرچہ یہ قرض 25ملین ڈالر کا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں کو قرض کی مے پینے کی ایسی لت لگ گئی کہ آج پاکستان دنیا کا واحد ملک بن چکاہے جس نے سب سے زیادہ 23مرتبہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ملکی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو چاہے 1965ء کا سال ہو یا اکہتر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کی صورتحال، جنرل ضیاء کا مارشل لاء ہو یا نوے کی دہائی کی جمہوری حکومتیں، پرویز مشرف کی ڈکٹیٹرشپ ہو یا آج کا جمہوری دور، ہر زمانے میں ہمارے حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کو اپنی ترجیح بنایا جسکے نتیجے میں آج پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کا مجموعی طور پر تیس ارب ڈالرزسے زائدکا مقروض ہے۔ آئی ایم ایف ہر چند سال بعد پاکستان کو قرضہ فراہم کرتا ہے،تاہم ان قرضوں سے منسلک سخت شرائط کو ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے، پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات کلبلاتے ہیں کہ آخر آئی ایم ایف اتنی کڑی شرائط کیوں رکھتا ہے؟ کیا آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ جان بوجھ کر سختی کرتا ہے؟ کیاہمارے پاس آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان سوالات کا جواب کھوجنے کیلئے ہمیں عالمی برادری کے اُن ممالک کا جائزہ لینا چاہیے جنہوں نے ہمارے سے زیادہ کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور آج وہ اپنا قرضہ اُتار کر دنیا کی مستحکم معیشتوں میں اپنا نام درج کروا نے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔جب نوے کی دہائی میں جنوبی کوریا شدید اقتصادی بحران کا شکار ہوا تو آئی ایم ایف نے قرضے کیلئے شرائط رکھیں کہ ملکی معیشت پربوجھ تمام غیرفعال ادارے اور نجی بینک بند کردیے جائیں، قومی اداروں سے غیرضروری ملازمین کو برخاست کیا جائے، شرح ِ سود میں اضافہ کیا جائے اور غیرملکی سرمایہ داروں کو مقامی مارکیٹ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ آئی ایم ایف کے ایماء پر جنوبی کوریا کی حکومت کے اقدامات سے عوام میں سراسیمگی پھیل گئی، برطرف ملازم سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئے، تاہم چند سال بعد جنوبی کوریا کی معیشت سنبھل گئی، آئی ایم ایف کا قرضہ قبل از وقت 2001ء میں ادا کردیا گیا اور آج جنوبی کوریا کا شمار دنیا کی 13ویں بڑی معاشی قوت میں ہوتا ہے۔آئی ایم ایف نے آئر لینڈ کو 2010ء میں قرضہ دینے کیلئے بینکوں کو بیل آؤٹ کرنے کیساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی، غیرضروری اسٹاف کی برطرفی، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں اضافے جیسی سخت شرائط رکھیں، اقتصادی بحران سے دوچارآئر لینڈ میں سخت عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا اور لوگوں نے دوسرے ممالک میں نقل مکانی شروع کردی، تاہم آئی ایم ایف قرضے کی مکمل واپسی 2021ء میں ممکن ہوگئی، آج آئرلینڈ آئی ایم ایف کی گلوبل جی ڈی پی رینکنگ میں دوسرے جبکہ ورلڈ بینک کی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پرہے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ 1991ء کا سال تھا جب عالمی میڈیا پربھارت کے دیوالیہ ہونے کی خبریں ہر طرف پھیل چکی تھیں، سرکار کے پاس صرف چند دن کا زرمبادلہ بچا تھا، معیشت آخری ہچکیاں لے رہی تھی، بھارتی روپیہ اپنی قدر کھو چکا تھا، ایسے حالات میں بھارت سرکار نے آئی ایم ایف سے2.2 بلین ڈالرکے قرضے کیلئے رجوع کیا تو اسے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اُترنے کیلئے سرکاری خزانے میں موجود 67ٹن سونا بینک آف انگلینڈ اور بینک آف جاپان کے پاس گروی رکھنا پڑا۔بھارت میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو معاشرے کے کچھ طبقات کی جانب سے توہین آمیز بھی قرار دیا گیا لیکن حکومت اپنے موقف پر ڈٹی رہی کہ بھارت کو وقتی ریلیف دلانے کیلئے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیںتھا۔ آئی ایم ایف کے ایما ء پر معاشی اصلاحات اور سخت اقدامات کی بدولت بھارت کا بجٹ خسارہ کم ہوتا چلا گیا، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے لگے، بھارت سرکار نے آئی ایم ایف کو 1993 سے قرض کی ادائیگی کا آغاز کیا اور نئی صدی کے آغاز پر2000ء تک تمام قرض مکمل واپس کر دیا گیا، آج پچیس سال بعد بھارت بطور چوتھی عالمی اقتصادی طاقت آئی ایم ایف کو فنڈز دینے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اسی طرح پرتگال، برازیل، ترکیہ، یونان، آئس لینڈ سمیت متعدد ممالک نے بحالت مجبوری آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو تسلیم کیا لیکن آخرکار آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر آئی ایم ایف نہ ہوتا تو پاکستان سمیت کئی ممالک کئی بار دیوالیہ ہو چکے ہوتے۔ میری نظر میں جن عالمی ممالک نے آئی ایم ایف کے قرضے کامیابی سے واپس کیے، ان میں چند نمایاں قدر ِ مشترک مالیاتی اصلاحات پر مکمل حکومتی کنٹرول،پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت، گُڈ گورنس، مشکل فیصلوں کیلئے سیاسی اتفاق رائے اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کو مشکل حالات سے نکال کر اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کاآہنی عزم تھا۔ آج ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات استوار ہونے کے پچھتر سال مکمل ہونے پر کسی دوسرے کو ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ آخر ہم بیرونی قرضوں کے شکنجے سے نکلنا کیوں نہیں چاہتے ؟