مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(آباد احمد خاں)
آباد احمد خاں… تحقیق و تفتیش سے آزاد منش و سیلانی کہانی گر، داستان ساز کا فقط ایک افسانہ سامنے آیا۔ صلاح الدین محمود نے’’سویرا‘‘ کے مدیرمحمّد سلیم الرحمان سے اُنھیں متعارف کروایا اور سلیم صاحب کے اصرار پر اُنھوں نے یہ افسانہ قلم بند کیا، جس نے’’سویرا‘‘ کے خاص افسانہ نمبر میں جگہ پائی۔ بعد ازاں، آباد احمد خاں کو اُن کے پاؤں سے بندھا بھنور نامعلوم کی اور لے گیا۔
اُس اساطیری رنگین پرندے کی مانند، جس پر اُس کی مختصر زندگی میں ایک بار جوبن آتا ہے اور وہ ایک سُریلا گیت گا کر مُلکِ عدم کُوچ کرجاتا ہے۔ ’’تماشا مِرے آگے‘‘ بظاہر ایک من چلے بہروپیے کی کہانی ہے، جسے دعویٰ تھا کہ اُس کی زندگی کے کئی برس چُرا لیے گئے ہیں، درحقیقت یہ افسانہ اُس آفاقی حقیقت کا عکّاس ہے کہ یہ زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں، اندھے کاخواب، دیوانے کا غوغائے بےربط ہے۔ دیکھیے، کس لطیف و سادہ انداز میں کہانی کار نے اس حقیقت کو فِکشن میں پرویا، سمویا ہے۔
باہرجانے سے پہلے مَیں نے آخری بار قدِّآدم آئینے میں اپناجائزہ لیا۔ سیر سے میرا جو مقصد تھا، اُس کے پیشِ نظر مَیں ہمیشہ ایسا لباس پہنتا تھا، جو صاف ستھرا ہو، مگر بہت امیرانہ یا فیشن ایبل نہ ہو۔ معمولی لباس پہنے آدمی کو کم لوگ غور سے دیکھتے ہیں۔ مَیں نے بٹوے کا جائزہ لیا۔ رقم کافی تھی۔ نوکرکو یہ بتانے کے بعد کہ دوپہر کے لیے کیا کھانا تیار کرنا ہے۔ مَیں باہر نکل آیا۔ موسم خوش گوار تھا۔ دھوپ برُی نہیں لگ رہی تھی۔
کبھی کبھار ہوا کا خنک ساجھونکاآجاتا توطبیعت بشاش ہوجاتی۔ گھومتے گھامتے جس آدمی کو مَیں نے سب سے پہلے تاکا، وہ سڑک سے ذرا ہٹ کر کھڑا گزرنے والوں سےکہہ رہا تھا۔ ’’ایک روٹی کا سوال ہے، میاں صاحب، حاجی صاحب!‘‘ لباس میلا کچیلا، شیو تھوڑی بڑھی ہوئی۔ مَیں نے لومبروسو کی کتاب کا بغور مطالعہ کیا تھا اور مَیں خراب اور بگڑے ہوئے آدمی کا چہرہ دیکھتے ہی اُس کے خبثِ باطن کا اندازہ لگا لیتا ہوں۔ اُس بھیک مانگنے والے کے خط وخال سے عیاں تھا کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہے۔
مَیں اُس کے پاس جا کھڑا ہوا اور کہا۔ ’’ہاں بھئی، کبھی سوچا ایک روٹی کا جواب کیا ہوتا ہے؟‘‘ یہ سُن کر وہ سٹپٹایا اورمیری طرف دیکھنےلگا۔’’کیا چاہیے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’میاں صاحب! دو دن کا فاقہ ہے۔ پانچ دس روپے،حضور! مل جائیں تو گزارہ ہو جائے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’ابے! اِس سے زیادہ تو تیری جیب میں موجود ہوں گے۔ جھوٹ موٹ فاقہ زدہ بنا ہوا ہے۔ شام تک ہزار دو ہزار پیٹ لےگا۔‘‘’’نہیں، حضور!‘‘ وہ مسکین سی آواز میں بولا۔ ’’غریبوں کو کون پوچھتا ہے۔ کبھی کوئی سخی مل جائےتو…‘‘مَیں نے اس کی بات کاٹتے ہوئےکہا۔’’مجھے فقرے نہ دے۔ یاد کر، ہم دونوں جیل میں ساتھ تھے کہ نہیں؟‘‘ تیر نشانے پر بیٹھا۔ اُس کے چہرے پر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔
اب تک اُس نے مجھ پر توجّہ نہیں دی تھی۔ جیل کا ذکر سُن کرغورسےمیری طرف دیکھنے لگا۔ مَیں نے کہا۔ ’’اب مجھے یاد نہیں تُوکس جُرم میں وہاں تھا۔ مَیں ڈکیتی کے الزام میں اندر تھا۔‘‘اُس کے انداز سے مسکینی، چہرے سے مصنوعی نقاہت، سب غائب ہوگئی۔ پریشان ہو کر مجھے دیکھنے لگا اور بولا۔ ’’مَیں نے تمھیں نہیں دیکھا۔ یاد نہیں آتا۔‘‘ ’’مجھے یاد ہے، اتنا کافی ہے۔ مجھے یہ بھی پتاہے، شام کو تُو گھرجائےگا۔ شیو کر کے، نہا دھو کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کے، چرغے یا کڑاہی گوشت پر ہاتھ صاف کرے گا۔ صحیح کہتا ہوں ناں؟‘‘’’چھوڑوجی۔ تمھیں کیا، مَیں کیا کرتا ہوں، کیا نہیں۔ اپنی راہ لو۔‘‘ ’’آج شام تک تیرے ساتھ رہوں گا۔
دیکھوں، کتنی کمائی ہوتی ہے۔ ڈکیتی سےیہ کام اچھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ’’چلو بھی۔ کہاں سے آکے چِپک گئے۔‘‘ ’’روپیا کہاں رکھتا ہے؟ بینک میں یا گھر میں؟‘‘ ’’جاؤ بھی۔ دفع ہو۔‘‘ ’’مَیں بھی تیرے ساتھ کھڑا ہوکے بھیک مانگتا ہوں، مقابلہ ہوجائے۔ دیکھیں، کون زیادہ کماتا ہے۔‘‘ وہ خوف زدہ ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔ اتنے میں ایک بزرگ، عُمدہ لباس پہنے، چھڑی ہلاتے، پاس سے گزرے۔ مَیں نے کہا۔ ’’حضور! بات سُنیے۔
یہ میرا بڑا بھائی ہے۔ گوانتانا موبے سے چُھوٹ کے آیا ہے۔ اِس کی مدد کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوجائے۔ آپ بھی کچھ ہاتھ ہٹائیں تو بھلا ہوگا۔‘‘ ویسے تو بڑے میاں کیا رُکتے لیکن گوانتاناموبے کا نام سُن کر اُن کے کان کھڑے ہوگئے اور لگے فقیر کو غور سے دیکھنے۔ ’’تمھیں امریکی اُٹھا کے لے گئے تھے؟ بڑا ٹارچر کیا ہوگا۔
ہاں، تمھاری حالت سے ظاہرہے۔ الزام کیا لگایا تھا؟‘‘ فقیر ہونّقوں کی طرح مجھے دیکھنے لگا۔ مَیں نے کہا۔’’حضور! اِس پربڑا ظلم ہوا ہے۔ دماغی حالت صحیح نہیں ہے۔ اُلٹی سیدھی باتیں کرتاہے۔ کہتاہے، امریکی چاند پر بھی لے گئے تھے۔‘‘ بڑے میاں کی دل چسپی بڑھ گئی۔’’اچھا! امریکی سالوں سے کچھ بعید نہیں۔ چاند کا حال اِسے کچھ یاد ہے؟‘‘’’حضور! اپنا پتا بتایئے، جیسے ہی اِس کی حالت درست ہوئی، مَیں آپ سے ملوانے لے آؤں گا۔
مَیں تو اس کی باتیں سُن کر حیران ہوں۔ اتنا ظلم، توبہ توبہ!‘‘ بڑے میاں نےجیب سےاپنا کارڈ نکال کر دیا اور بٹوے سے سو روپے کا نوٹ مجھے تھمایا اور کہنے لگے۔ ’’انتظار رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تو چل دیے۔ مَیں نے سوکا نوٹ جیب میں ڈالا اور دس کا نوٹ نکال کرجعلی بھکاری کودیا، جو حواس باختہ نظر آرہا تھا۔ مَیں نے کہا۔ ’’سوچ لے، ساتھ مل کر کام کرنا ہے یا نہیں؟ کل صُبح یہیں آکے ملوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں آگے بڑھ گیا۔ بیس قدم جا کر مَیں نے مڑکر دیکھا۔ وہ، حسبِ توقع، میری طرف دیکھ رہا تھا۔ مَیں مُسکرادیا۔ وہ میرا پہلا شکار تھا۔
چند منٹ گھومنے پِھرنے کے بعد مجھے ایک صاحب نظر آئے۔ قریباً میرے ہم عُمر۔ ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ بظاہر متموّل یا کسی اچھے عُہدے پر فائز معلوم ہوتے تھے، کیوں کہ ہاتھ میں ایک خاصا منہگا سیل فون تھا۔ مَیں نے قریب جاکر کہا۔ ’’ارے صاحب! کمال ہوگیا۔ اتنی مدت بعد ملاقات ہوئی۔ وہ بھی اتفاق سے۔‘‘ وہ صاحب ٹھنک گئے اور مجھ پر نظر ڈالنے کے بعد بولے۔ ’’آپ کون؟ معاف کیجیے، مَیں نے پہچانا نہیں۔‘‘ ’’ارے یار! کیا زمانہ آگیا۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’اسکول کے پرانے ساتھی کو بھول گئے۔
یاد نہیں، جب چند سینئر لڑکے، مچھلی کے شکار کے بہانے ہمیں دریا پہ لے گئے تھے اور تمھیں لوٹنے کا ارادہ رکھتے تھے، تو مَیں نے ہی شور مچا کر تمھیں بچایا تھا۔‘‘ اُن صاحب نے چیں بہ جبیں ہو کر کہا۔ ’’کیا کہے جارہے ہو؟
مَیں تمھیں جانتا تک نہیں۔‘‘’’تو کیا آپ ساجد معین نہیں؟‘‘مَیں نے مصنوعی بھول پن سے پوچھا۔ ’’بالکل نہیں۔‘‘ ’’ہُوبہُو کاپی ہیں، صاحب، آپ ساجد معین کی۔ حیران ہوں، دنیا میں اتنی مشابہت بھی پائی جا سکتی ہے۔ آپ کے کوئی عزیز تو نہیں ہیں ساجد معین؟ خیر، بھٹّا کھایے گا؟
سامنے ریڑھی والا اچھےبھٹّے بیچ رہا ہے۔‘‘ اُن صاحب نے غصّے سےمیری طرف دیکھا اور آگے بڑھنے کو تھے کہ مَیں نے کہا۔ ’’مَیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا، آپ کے ایک کولیگ، جنھیں آپ سے دوستی کا بڑا دعویٰ ہے، آپ کی بیوی پر ڈورے ڈال رہے ہیں۔ میرا کام خبردار کرنا تھا، سو کردیا۔ اب آپ جانیں۔‘‘ اُن کے چہرے کی متغیّر ہوتی حالت سے اندازہ ہوا کہ میری بات چُبھی ضرور ہے۔ ایسا لگا، وہ مجھ سے کچھ پوچھیں گے، لیکن ذرا سےتامل کے بعد تیزی سے آگے بڑھ گئے، ایک رکشے کو ہاتھ دے کر روکا اور سوار ہوتے ہوئے پلٹ کر غور سےمیری طرف دیکھا، جیسے میرا چہرہ یاد رکھنا چاہتے ہوں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے، مَیں یہ کیا کرتا پِھر رہا ہوں؟ بات یہ ہے، بیش تر لوگوں کی زندگیاں بےرس اور بےرنگ ہوتی ہیں۔ وہی روزانہ کے اُکتا دینے والے معمولات۔ مَیں اُن کے معمول میں خلل ڈالنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے، میری بےتکی حرکتیں اور باتیں لوگوں کو چند دن حیران اور پریشان رکھتی ہوں گی۔ زندگی میں مہملیت کا دخل ضرور ہونا چاہیے۔ یہ سڑکیں میرے لیےاسٹیج ہیں۔ مَیں ڈرامے کرتا ہوں اور جن لوگوں کو چھیڑتا ہوں، وہ جانے بوجھے بغیر میرے ڈراموں کے کردار بن جاتے ہیں۔
مَیں روز اِس مہم پر نہیں نکلتا۔ مہینے میں بس ایک دوبار اور ہر مرتبہ بالکل مختلف علاقے میں جاتا ہوں۔ شہر اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ مجھے نئی جگہ ڈھونڈنے میں دِقّت نہیں ہوتی۔ حلیہ اور لباس بھی بدلتا رہتا ہوں۔ کبھی پینٹ شرٹ، کبھی شلوار قمیص، کبھی شیروانی اورجناح کیپ، کبھی مصنوعی داڑھی، کبھی ہٹلری مونچھیں، کبھی گنجا، کبھی ہکلا، کبھی بہرا۔ کالی عینک لگانا بھی مفید ہوتا ہے کہ دوسرا آدمی آپ کی آنکھوں کا تاثر جانچنے کے قابل نہیں رہتا۔
جب وہ صاحب، جنھیں مَیں نے ساجد معین قرار دیا تھا، رخصت ہوئے، تو مَیں ایک بس پر سوار ہو کرمیوزیم کے پاس جا اُترا اور آہستہ آہستہ بڑے ڈاک خانے کی طرف چلنے لگا۔ آخر ایک صاحب کو مَیں نے تاکا، جو پروفیسر یا لیکچرار نہیں تو ادیب شاعر ضرور ہوں گے۔ ادھیڑ عُمر تھے۔ بغل میں دوکتابیں دابے، بظاہر کچھ گنگناتے چلے جارہے تھے۔ مَیں نے اُنھیں جا لیا اور کہا۔ ’’بات تو عجیب ہے، لیکن مجبوری کا عالم ہے۔ سوال کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
اُنھوں نے مجھ پر اُچٹتی نظر ڈالی اور بولے۔ ’’میرے پاس دینے کو کچھ نہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔’’جناب! بندہ سائل نہیں۔ صرف اتنا بتا دیجیے کہ مَیں کہاں ہوں؟یہ کون سا شہر ہے؟‘‘جیسا کہ مجھے توقع تھی، وہ رُک گئے اور لگے مجھے دیکھنے۔ شاید سمجھے ہوں کس پاگل سے واسطہ پڑگیا۔ پھر بولے۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ ’’یہی کہ یہ جگہ میرے لیے بالکل اجنبی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، یہاں کیسے پہنچ گیا۔‘‘ ’’کیسے پہنچ گئے؟ بھئی، بس یا ٹرین سے آئے ہوں گے۔ آئے کہاں سے؟‘‘’’میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
اتنی عجیب عجیب موٹریں اور ڈھیروں پھٹ پھٹیاں۔ لوگوں کی وضع قطع بھی اوپری ہے۔‘‘ وہ کچھ پریشان نظرآئے، کہنے لگے ۔ ’’یہاں آنے سے پہلے آپ کہاں تھے؟ اِس وقت آپ لاہور میں موجود ہیں۔‘‘ ’’لاہور! مَیں کیا عرض کروں۔ مَیں دہلی میں ’’رتن‘‘ فلم کا آخری شو دیکھ کر نکلا تھا۔ دیر ہوگئی تھی۔ گھر کے قریب پہنچا کہ چند لحیم شحیم آدمیوں نے مجھے دبوچ لیا۔ پتا نہیں، اُس کے بعد کیا ہوا۔
تھوڑی دیر پہلے مَیں نے خُود کو اُدھر، وہ جو توپ رکھی ہے، اُس کے پاس کھڑا پایا۔‘‘ ’’دہلی میں ’’رتن‘‘ فلم؟‘‘ ’’اچھی فلم ہے۔ گیت بہت جان دار ہیں۔ ضرور دیکھیے۔‘‘ ’’پرانی فلم ہے۔ آپ نے اب کیسے دیکھ لی اور وہ بھی سینما میں؟‘‘ ’’پرانی! ارے صاحب، ابھی ۱۹۴۴ء میں تو ریلیز ہوئی ہے۔‘‘
’’آپ کو معلوم ہے، یہ کون سا سال ہے؟‘‘’’نہیں۔‘‘ مَیں نے بھولا بن کر کہا۔ ’’یہ بیس سوسولہ ہے۔ اکیسویں صدی۔ آپ بہتّرسال کہاں غائب رہے؟‘‘ ’’بیس سو سولہ!‘‘ یہ کہہ کرمَیں وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور قریباً رونے لگا۔ ’’ہائے میری بیوی، میرے بچّے۔ وہ کہاں گئے؟ یہ کیا ہوا؟‘‘ اُن صاحب کو میرے بارے میں واقعی تشویش پیدا ہوگئی۔ اُنھیں خیال آیا ہوگا کہ شاید میں پاگل ہوں۔ اگر پاگل نہیں ہوں تو جو کچھ بتا رہا ہوں، وہ دیکھنے، سُننے میں کبھی نہیں آیا۔
تسلی دینےکےاندازمیں بولے۔’’آپ پاکستان میں ہیں اور اگر یہی باتیں آپ نے کسی اور سےکیں تو ممکن ہے، آپ کو بغیر پاسپورٹ اور ویزا یہاں آنے پر گرفتار کرلیا جائے۔ اس لیے…‘‘ اتنے میں اُن کی جیب میں موبائل کی گھنٹی بجی۔ اُنھوں نے جیب سے موبائل نکالا تو مَیں نے مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘ ’’یہ فون ہے۔ آپ کے زمانے میں نہیں تھا۔‘‘’’فون، جیب میں؟‘‘’’دنیا بہت بدل چُکی ہے۔ آپ کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔ دہلی میں کہاں رہتے تھے؟‘‘ ’’قرول باغ میں۔‘‘ ’’مَیں سوچ رہا ہوں، کیا کِیا جائے۔ مَیں ہاسٹل میں رہتا ہوں۔
آپ کو وہاں ٹھیرا نہیں سکتا۔‘‘’’اچھا، صاحب، چائے تو پلا دیجیے۔ اگر اب سچ مُچ بیس سوسولہ ہےتو مَیں نے بہتّرسال سے چائے نہیں پی۔‘‘ یہ سُن کر اُن کے چہرے پر کچھ بشاشت آئی، بولے۔’’یہ ریستوران سامنے ہے۔ آیئے، خالی چائے پی کر کیا کریں گے؟ کوئی اور چیز بھی آرڈر کردوں؟ شامی کباب، فرینچ توس یا کٹلس؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’پہلے چائے پلا دیں۔ کچھ ہوش آجائے۔‘‘
ہم دونوں چائے خانے میں جابیٹھے۔ چائے آگئی۔ وہ مجھ سے سوال جواب کرتے رہے، لیکن اُن کی بالکل سمجھ میں نہ آیا کہ میری کیا مدد کریں اور کیسے۔ مجھے بھی یہ فکرلاحق ہوچلی تھی کہ اُن سے چھٹکارا کیسےحاصل کیا جائے۔ خوش قسمتی سے وہ اُٹھ کر واش روم گئے۔ مَیں فوراً وہاں سے کھسک لیا اور رکشا پکڑ کے گھر آگیا۔ مجھے غائب پاکر اُن پرکیا گزری، یہ بتانا ناممکن ہے۔ یا تو مجھے پاکھنڈی سمجھے ہوں گے یا سوچا ہو کہ مَیں شاید دوبارہ کسی اور زمانے میں جا پہنچا۔