• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(خاقان ساجد)

خاقان ساجد ناول نگار، افسانہ نویس، مترجّم، بارود و آہن کے پیشے سے منسلک، نقش گری و لفظی مصوّری کے بھی دھنی نکلے، آں جناب اپنی کہانیوں میں منٹو، ماہم، موپساں اور اوہنری کے مقلّد نظر آتے ہیں۔ کہانی میں ایک فضا، اِک ماحول پھونکتے ہیں، البتہ آخری پتّا، تُرپ کا پتّا اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں کہ عموماً کہانی کی جان اُس کے اختتام میں ہوتی ہے۔ گویا قاری کو کہانی سے باندھ کر رکھنے کے فن پر قدرت رکھتے ہیں۔

’’کباڑیا‘‘، ایک شخص کی بہت دل چسپ کہانی، جو کباڑ کا کاروبار کرتا تھا، اور پھر ایک مرتبہ اُس کے لیے ایک رشتہ آگیا۔

چھاؤنی کی حدود سے باہر مضافات کی طرف جانے والی سڑک کے اردگرد، جہاں کبھی سرسبز کھیت اور اینٹ، گارے سے بنے اِکّا دُکا مکانات ہوا کرتے تھے، اب بےہنگم رہائشی کالونیاں وجود میں آچُکی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب دُور تک ہرطرح کی دکانیں، گودام، سی این جی اسٹیشن، تعمیراتی سامان کے بڑے بڑے اسٹور اورماربل فیکٹریاں بن گئی تھیں۔ راجا مشکور کا ’’آرکو آکشن مارٹ‘‘ بھی یہیں واقع تھا۔ 

پندرہ سولہ مرلے کے پلاٹ کے ایک تہائی حصے پر چند بڑے بڑے کمروں اور برآمدے پر مشتمل سادہ سی عمارت ہرطرح کے فرنیچر، برقی آلات، انواع و اقسام کے آرائشی سامان اور الم غلم اشیاء سے بَھری پڑی تھی۔ برآمدے میں گتّے اور کاغذ کی ردّی کے ڈھیر لگے رہتے، جب کہ صحن لوہے اور پلاسٹک کی بے کارچیزوں، کانچ کی بوتلوں اور ٹین ڈبّوں سے اَٹ چُکا تھا۔ کباڑ کے انبار ہمالہ آثار کے ساتھ جستی چادروں سے بنے شیڈ کے نیچے، تلائی کے دوبڑے کانٹے اور باٹ رکھے تھے۔ 

اسی جگہ70 سی سی کی ایک پھٹیچر موٹر سائیکل چھوٹے اسٹینڈ پر ترچھی کھڑی ہوتی۔ قریب ہی تین تانگوں والی کرسی پر بیٹھ کرسرتاپا لنڈے میں ملبوس راجا مشکور گاہکوں کی راہ تکا کرتا۔ سرسری نگاہ سے دیکھنے پروہ خُود بھی اردگرد ڈھیر کاٹھ کباڑ کا حصّہ معلوم ہوتا تھا۔ کرسی کی چوتھی ٹانگ لگوانے کی اُس نے ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔ کئی برسوں سے اینٹیں جوڑ کر اُسے سہارا دے رکھا تھا۔ کوئی بےتکلف بیوپاری یا گاہک اس حوالے سے عاردلاتا تو ہنستے ہوئے جواب دیتا۔ ’’اوجی! کام ہی چلانا ہے ناں! پانچ سالوں سے بہترین کام چل رہا ہے۔ 

ورنہ صحیح سلامت نئی کرسیاں اندر ڈھیر پڑی ہیں۔‘‘ ’’کام ہی چلانا ہے ناں۔‘‘ موصوف کا تکیہ کلام تھا اور اس کی مخصوص ذہنی ساخت، سوچ اور اپروچ کا مظہر بھی۔ کام چلاؤجی، کام چلنا چاہیے، گزارہ کرو جی۔ اِس طرح کے جملے کثرت سے بولتا۔ ’’سودا‘‘ کا لفظ بھی گفتگو میں بہت زیادہ استعمال کرتا۔ سودا ڈن ہوگیا، سودا فِٹ ہوگیا، سودا خراب ہوگیا، سودا برابرآگیا۔ عُمر تیس برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ صحت اور صُورت شکل بھی اچھی تھی، مگر پھر بھی اپنے حلیے اور لباس پر بالکل توجّہ نہ دیتا۔ شیو اکثر بڑھی رہتی۔ کئی کئی دن نہائے بغیر گزرجاتے۔

اس کی تمام تردل چسپیاں کاروبار تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ گھریلو سامان اورکباڑ کی فروخت یا خریداری کے لیے آنے والوں کا برابر گرم جوشی سے استقبال کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا۔ رہائش بھی کباڑ خانے کے ایک کمرے میں اختیار کررکھی تھی۔ گھر بسانے کا جھمیلا ہی نہیں پالا تھا۔ جونہی کوئی گاہک احاطے میں قدم رکھتا، اُسے دیکھ کر رٹا رٹایا خیر مقدمی کلمہ ادا کرتا۔ ’’بسم اللہ، آؤ جی۔‘‘

کوئی مجبور انسان ایک ہزار روپے کی چیز بیچنے آتا، تو اُسے سوروپے کی پیش کش کرتے ہوئےکہتا۔ ’’کام چلاؤجی۔‘‘ وہ احتجاج کرتا تو جواب دیتا۔ ’’اورکیا دوں؟ آخر مجھے بھی اپنا کام چلاناہے!‘‘خریدار کو چیز بیچتے ہوئے اُس کی گفتگو اِس قسم کی ہوتی۔ ’’یہ دیکھیں، بالکل نئی نکور ہے۔ شوروم سے ہزار بارہ سو سےکم میں نہیں ملے گی۔ مَیں نے نو سو روپے میں خریدی ہے۔ آپ مجھے منافع نہ دیں۔ اپنا کام چلائیں۔‘‘

قدرت بعض لوگوں کو کسی مخصوص کام کے لیے دنیا میں بھیجتی ہے۔ راجا اُنہی میں سے ایک تھا۔ وہ فطری کباڑیا تھا۔ا گرخمیر میں کوئی کمی رہ گئی تھی، تو وہ گھر کے عسرت زدہ ماحول نے پوری کردی تھی۔ ابھی ماں کے بطن ہی میں تھا کہ باپ نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ جوان بیوہ اور یتیم نومولود کے ساتھ رشتے داروں نے وہی سلوک روا رکھا، جو اس معاشرے کا عام چلن ہے۔

جب کسی نے سر پر ہاتھ نہیں رکھا تو نادار عورت نے اپنا اور اپنے بچّے کا پیٹ پالنے کے لیے چھاؤنی کی دوتین کوٹھیوں میں کام شروع کردیا۔ اکلوتے بچّے کو پال پوس کر جوان کرنا اُس کا واحد مقصدِ حیات تھا۔ ماں جو مشقّت کرتی تھی، اُس سے دووقت کی روٹی تو میسّر آجاتی، مگر دیگرضروریاتِ زندگی کے لیے اُترنوں پر انحصار کرنا پڑتا۔ 

کرائے کے چھوٹے سے گھرمیں ضرورت کی ہرشے رحم دل اور فیّاض بیگمات کی بخشی ہوئی تھی۔ راجا جب پانچ چھے سال کا ہوا تو ایک بیگم صاحبہ کے سمجھانے بجھانے اور ذاتی کوشش سے اُسے سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اُس کا اسکول یونی فارم، بستہ، کتابیں، عام کپڑے اور کھلونے بھی بیگمات کی عطا ہوتے۔ اِس طرح اس نے نو جماعتیں پاس کر لیں۔ اسکول آتے جاتے یا یونہی آوارہ پھرتے ہوئے اُسے جہاں کہیں کوئی گری پڑی چیز ملتی، اُسے اُٹھا لیا کرتا۔ 

یوں اُس کے ذاتی اثاثے میں پرفیوم کی خالی خوش نما شیشیاں، ہربرانڈ کے سگریٹ کی ڈبیاں، رنگین تصویروں والی ماچسیں، کاسمیٹکس کی خُوب صُورت پیکنگز، چینی کے دیدہ زیب ٹوٹے ہوئے گل دان، استعمال شدہ مارکر اور بال پین، لوہے کے چھوٹے چھوٹے بےکار پُرزے اور ایک دو مقناطیس بھی شامل ہوگئے تھے۔ بچپن میں اُس نے ایک فوجی افسر کے بچّے کی استعمال شدہ ٹرائیسکل چلائی تھی۔ جب دسویں میں پہنچا، تو کہیں سے ایک پرانی بائیسکل بھی مل گئی۔ اُس وقت تک اُسے ردّی اخبار، کاپیاں، کتابیں، گتّے اور خالی بوتلیں بیچنے کا خاصا تجربہ ہوچُکا تھا۔

جب کوٹھیوں سے لائی ہوئی انواع و اقسام کی بے کارچیزیں ذرا زیادہ جمع ہوجاتیں تو ماں، بیٹا محلے کے کباڑیے کے ہاتھ بیچ آتے۔ کبھی اپنا پسندیدہ مشروب فانٹا پینے کو جی چاہتا تو وہ خُود بھی اسٹاک میں سے کوئی چیز اُٹھا کر کباڑخانے جا پہنچتا۔ دسویں جماعت میں ترقی پانے تک خان کباڑیے سے اُس کی اچھی خاصی بےتکلفی ہوگئی تھی۔ 

اُس کے مشورے پر وہ فارغ اوقات میں نزدیکی گنجان آباد بستیوں کا سائیکل پر چکر لگانے لگا۔ ابتدا میں جھجک اور شرم مانع ہوئی، مگر جلد ہی گلی خالی پا کر صدا لگانے لگا۔ ’’چھان بورا بیچ، سوکھی روٹی بیچ، ردّی اخبار بیچ، ٹین ڈبّا، لوہاپرانا، نائیلون کی جوتیاں بیچ…‘‘ جب خان کی دی ہوئی نقدی ختم ہوجاتی اور سائیکل کے کیرئیر پر لٹکائے ہوئے دونوں بورے بَھرجاتے تو وہ واپسی کی راہ لیتا اور کمیشن وصول کر کے شاداں و فرحاں گھرلوٹ جاتا۔

جلد ہی پیسوں کی کشش نے اُسے اسکول کا راستہ بُھلا دیا۔ اُس نے کباڑخانہ چلانے کے لیے کاروباری رموز اتنی جلدی سیکھ لیے کہ ذاتی کاروبار کے خواب دیکھنے لگا۔ یہ سوچ کر اکثر حیرت میں ڈوب جاتا کہ کوڑیوں کے مول خریدی ہوئی اشیاء فوراً دگنے پیسوں میں کیسے بک جاتی ہیں۔ بڑے بڑے بیوپاریوں کے کارندے خُود ہی مال اُٹھانے کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ نقد و نقدی ادائیاں ہوتی ہیں اور فٹافٹ مال ٹھکانے لگ جاتا ہے۔

تیس برس کی عُمر کو پہنچنے تک راجا اپنا ذاتی کباڑخانہ کام یابی سے چلانے لگا تھا۔ اگلے دوسالوں میں اُس نے ’’آرکو آکشن مارٹ‘‘ کی بنیاد ڈالی، تو اس کا بینک بیلنس اتنی تیزی سے بڑھا کہ وہ خُود بھی حیران رہ گیا۔ ماں نے گزشتہ پانچ چھے سالوں سے کوٹھیوں میں کام چھوڑ کرمصلا بچھا لیا تھا۔ مگر خوش حالی آنے کے باوصف طبعاً شُکرگزار عورت اپنی محسن اور مہربان بیگمات کو نہیں بھولی تھی۔ وہ اُن سے ملنے اکثر بنگلوں پرجایا کرتی۔ 

بیگموں کو بتاتی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے لیے بےحد بےقرار ہے۔ خُود راجا کا بھی اپنی زندگی میں کسی عورت کو شامل کرنے کا خواہش مند تھا، مگر کاروباری مصروفیات اور روزافزوں ترقی نے اُسے اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ اِس لازمے پر سوچنے کی اُسے فرصت ہی نہ ملتی۔ ماں کبھی یہ قصّہ چھیڑ بیٹھتی، تو شادی کے لیے ضروری بَری کے جوڑوں، طلائی زیورات اور ولیمے پراٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے حوصلہ ہار جاتا۔

بیوی کو دووقت کھانا کھلانے پر اُسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر شادی کے جملہ مصارف کا سوچ کر جان نکلنے لگتی تھی۔ راجا دھیلا بھی خرچ کرنے لگتا، تو پہلے دس مرتبہ سوچتا۔ اُس کا قول تھا کہ چیزاولاً ضرورت کے تحت خریدنی چاہیے، قصداً یامحض شوقیہ ہرگز نہیں۔ دوم، جس شے کی ضرورت ہو، اگر وہ اچھی حالت میں سیکنڈ ہینڈ مل جائے، تو نئی پر پیسا برباد کرنا نری حماقت ہے۔ کسی دوست کو کوئی نئی شے خریدتے دیکھتا، تو ناصحانہ انداز میں کہتا۔ ’’سیکنڈ ہینڈ سے کام چلاؤ جی… نئی کیا کرنی ہے۔

خواہ مخواہ کا خرچہ۔‘‘اُس کے اپنے استعمال میں جتنی چیزیں تھیں، سب سیکنڈ ہینڈ تھیں۔ موبائل فون، کلائی گھڑی، بٹوا، موٹر سائیکل، پلنگ، ٹی وی ٹرالی، ٹی وی، الماری، قالین، پردے اور برتن سب پرانے تھے، حتیٰ کہ تن کے کپڑے بھی ہاتھی چوک کے قریب واقع ’’کراؤن امپورٹڈ کلودنگ سینٹر‘‘ سے خریدا کرتا۔ اپنی مستحکم مالی حیثیت کا بھید اُس نے اپنی ماں کو بھی نہیں دیا تھا۔ سو، اُس نے باور کر لیا تھا کہ بیٹے کا کاروبار بظاہر پھیلا ہوا لگتا ہے، لیکن آمدن اتنی نہیں ہے۔

ایک روز مارٹ کے قریب ہی وہ بدنصیب عورت سڑک کے حادثے میں شدید زخمی ہوئی اور اگلے ہی روزبیٹے کا گھر بسانے کی حسرت دل میں لیے اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی۔ تعزیت کے لیے قریبی رشتے دار اور برادری کے لوگ آئے تو راجا نے ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اپنایا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ غربت کے دِنوں میں جب اِن لوگوں کی مدد کی ضرورت تھی، تو کسی نے جھوٹے منہ نہیں پوچھا تھا۔

اب وہ آسودہ حال ہے، تو سب خواہ مخواہ بڑھ چڑھ کر اپنائیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ قریبی تعلقات استوار کرنے کی آڑ میں مال ہتھیانے کی منصوبہ بندی کررہے ہوں۔ صرف حلیمہ نامی ایک عورت اُسے پُر خلوص لگتی، جو اُس کے رشتے کی خالہ تھی۔ وہ مرنجاں مرنج عورت اس کے کباڑخانے کے قریب کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔

سڑک سے گزرتے ہوئے اکثر احوال پوچھنے آجاتی۔ اُسے دیکھ کر راجا کواپنی مرحومہ ماں یاد آنے لگتی۔ ماسی حلیمہ بھی امیروں کی کوٹھیوں میں کام کرکے گزر اوقات کرتی تھی۔ راجا فارغ ہوتا، تو اُس کے سامنے پلاسٹک کی کرسیوں میں سے ایک گھسیٹ کر بیٹھ جاتی۔ چند منٹ اِدھراُدھر کی باتیں کرتی اورپھردُعائیں دے کر رخصت ہوجاتی۔

راجا نے بارہا محسوس کیا تھا کہ ماسی جب بھی اُس کے سامنے آکر بیٹھتی ہے، اُس کی کرسی کے نیچے جڑی ہوئی اینٹوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہے۔ بالآخر ایک روز دل کی بات اُس کی زبان پر آہی گئی۔ ’’مشکور پُتر! اب تم اتنے بڑے سیٹھ بن گئے ہو۔ اپنے بیٹھنے کے لیے نئی کرسی ہی خرید لو۔‘‘ راجا مُسکرایا۔ ’’ماسی! پہلی بات تو یہ ہے کہ مَیں سیٹھ ویٹھ بالکل نہیں ہوں۔ بس سمجھو، کام چل رہا ہے۔

دوسری بات یہ کہ بہت سی نئی کرسیاں اندرپڑی ہیں۔ فرنیچر کی مرمت اور پالش کرنے والے کاری گر بھی شوروم کے پچھلے حصّے میں کام کر رہے ہیں، لیکن اِس کرسی میں کوئی خرابی نہیں۔ اِس کی سیٹ اور بیک میں بہترین فوم اور لیدر استعمال ہوا ہے۔ پانچ چھے سال سے فسٹ کلاس کام چل رہا ہے۔ جب یہ بےچاری مجھے کچھ نہیں کہتی، تو مَیں اِسے کیوں رد کروں؟‘ ماسی حلیمہ مُسکرائی اور کسی گہرے خیال میں گم ہوگئی۔ قدرے توقف کے بعد بولی۔ ’’اچھا، مَیں چلتی ہوں۔ تمہاری یہ جگہ بڑی ہی ٹھنڈی ہے۔ مجھے تو کمنی لگ گئی ہے!‘‘

اگلی صبح ابھی راجا بسترمیں نیم درازچائے پینے میں مشغول تھا کہ ماسی دوبارہ آ ٹپکی۔ راجا اُس کی بےوقت اور غیرمتوقع آمد پر حیران ہوا۔ اُس کے چہرے پر فکر اور گومگو کی کیفیت دیکھ کر پوچھنے لگا۔ ’’ماسی! خیر ہے ناں؟‘‘ ’’میرے پاس کچھ گھریلو سامان ہے، جسے بیچ کر نئی نِٹنگ مشین خریدنا چاہتی ہوں۔ اگرتم خریدنا چاہتے ہو تو چل کر دیکھ لو۔‘‘ ماسی نے سادگی سے کہا۔ 

راجا ہنسنے لگا۔ ’’بس ماسی! مَیں تو گھبرا ہی گیا تھا تمہیں پریشان دیکھ کر۔ لو، چائے پیو۔‘‘ پھرکہنےلگا۔ ’’ماسی! میں کباڑیا ہوں۔ میرا تو کام ہی سیکنڈ ہینڈمال ٹھکانے لگانا ہے۔ اِس پیشے میں سوئی سے لے کر بحری جہاز تک ہرچیز خریدی اور بیچی جاتی ہے۔ بس جیب میں پیسا ہونا چاہیے۔ اِدھرسودا برابر آتا ہے، اُدھر ڈن ہو جاتا ہے۔‘‘

ماسی کی آنکھوں میں اُمید کی کرن نے چمک ماری۔ مگر اگلے ہی لمحے اُس کی جگہ نااُمیدی کی دھند نے لے لی۔ چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتار کر بولی۔ ’’مشکور پُتر! تم بڑی ہمّت والے ہو۔ اللہ تجھے بحری جہاز خریدنے کی توفیق بھی ضرور دے گا۔ میرا مسئلہ حل کردو، تو تجھے دُعا دوں گی۔ صُبح صُبح تکلیف دی ہے۔‘‘ راجا اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ’’کوئی بات نہیں ماسی۔ مَیں ٹرایڈنٹ کو کِک مارتا ہوں۔ ابھی چلتے ہیں۔ اللہ کرے تیرا کام بن جائے اور میرا بھی۔ بالکل نئی نِٹنگ مشین اندر رکھی ہوئی ہے۔

فکرنہ کرو، صرف سودا ڈن ہونے کی دیری ہے۔‘‘ فرنیچر بہت معمولی قسم کا تھا۔ ویسے نیا مگر رگڑیں لگی ہوئیں۔ ایک ڈبل بیڈ، ایک صوفہ، ایک سنگھار میز اور برتنوں کے لیے چھوٹا سا شوکیس۔ سینٹرل ٹیبل زیرِاستعمال تھی۔ سارا سامان بارہ مربع فٹ کے کمرے میں ٹھنسا ہوا تھا۔ راجا نے گہری کاروباری آنکھوں سے اندازہ لگا لیا کہ سارا فرنیچر چالیس پچاس ہزار روپے دے سکتا ہے۔ ماسی کو دیکھ کرچوں کہ ماں یاد آجاتی ہے، اس لیے پچیس فی صد یعنی دس بارہ ہزارکی رقم پیش کرنے سے خیر سگالی کا جذبہ خوب فروغ پائے گا۔

وہ ماسی کے ساتھ دروازے کی طرف پیٹھ کیے فرنیچر دیکھنے میں منہمک تھا کہ سینٹر ٹیبل پر برتن رکھنے کی آواز نے چونکا دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو اُسے یوں لگا، جیسے کمرے میں چودھویں کا چاند طلوع ہوگیا ہو۔ ایک خُوب صُورت، پُرشباب لڑکی ڈریسنگ اسٹول پر بیٹھی دو پیالیوں میں چائے انڈیل رہی تھی۔ لڑکی نے ایک بار بھی پلکوں کی چلمن اُٹھا کر اُس کی جانب نہیں دیکھا تھا۔ ’’یہ میری بیٹی کلثوم ہے۔‘‘ ماسی نے دھیرے سے کہا۔ راجا کو متوجّہ پاکر لڑکی لجا گئی اور چائے انڈیل کر دروازے کی طرف لپکی۔

سروقد لڑکی انتہائی پُرکشش تھی، مگر یہ دیکھ کر راجا کو شدید ذہنی جھٹکا لگا کہ لڑکی ایک ٹانگ سے لنگڑا رہی تھی۔ اُس نے حیرت سے ماسی کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ بےکس عورت کی رنگت زرد پڑ چُکی ہے اور وہ نچلا ہونٹ دانتوں تلے چبا رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے تاجر حضرات دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ کائیاں اور معاملہ رس ہوتے ہیں۔ راجا کباڑیا، جو عام تاجروں کا بھی باپ تھا، فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ ماسی حلیمہ ہلدی چہرے اور پُھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ ’’بدنصیب کو بچپن میں پولیو ہوگیا تھا، ورنہ میری بچّی کو اللہ نے ہزار صفتیں دی ہیں۔ 

اتنی سگھڑبیٹی کوئی کوئی ہوگی۔ مَیں نے پائی پائی جوڑ کراِس کی شادی کی تھی۔ بدبخت، جی پی او میں ڈاکیا ہے۔ چھے مہینے بعد ہی ماں کی باتوں میں آکر اُس نے شُہدی کو طلاق دے دی۔‘‘ ماسی کے حلق سے چیخ سی نکلی۔ وہ رو رہی تھی۔ راجا کو ماسی پہ ترس بھی آیا اور پیار بھی۔ اُس کے کاندھے کے گرد بازو ڈال کر ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔ ’’ماسی! تم میری ماں بجا ہو۔ مت روؤ۔ بس ڈن ہی سمجھو!‘‘ ماسی کی بلا جانے کہ ڈن کیا ہوتا ہے۔ وہ سمجھی کہ یونہی سعادت مندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

تاہم، ہم دردانہ لب و لہجہ محسوس کر کے اُس کی ڈھارس بندھی اور وہ دوپٹّے کے پلّو سے آنسو پونچھنے لگی۔ اور… راجا آہستہ آہستہ اُس کے کندھے دباتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ سیکنڈ ہینڈ ہے تو کیا ہوا، بالکل نئی جیسی ہے۔ میرے پاس کہاں اتنا وقت ہوا کرے گا کہ فوجی افسروں کی طرح بیگم کو ساتھ لے کر شام کو واک کے لیے نکلوں۔ میرے لیے تو ایسی بیوی بہت بڑی نعمت ثابت ہوگی، جو کہیں آنے جانے سے گھبرائے اور گھر بیٹھنا پسند کرے۔ اب یہ ہے کہ ماسی بات وارے کی کرے تو سودا ڈن کروں۔‘‘

راجائی سوچوں کا سلسلہ تب منقطع ہوا، جب ماسی نے دوبارہ لب کشائی کی۔ ’’جب سے اللہ بخشے سکینہ فوت ہوئی ہے، مجھے بھی وہم ہونے لگا ہے کہ مَیں جلد مرجاؤں گی۔ بیٹی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ بیٹے کو تو پروا ہی نہیں۔ جب کا نائیک بنا ہے، چُھٹی کم کم ہی آتا ہے۔ سوات میں ڈیوٹی ہے۔ چار چھے مہینے بعد چند روز کے لیے آئے بھی تو میری بہو، پنج پُھلاں رانی، اُسے ساتھ لے کر ماں کے پاس کہوٹہ چلی جاتی ہے۔ آج کل بھی دونوں وہیں گئے ہوئے ہیں۔ میری اپنی کمائی اتنی ہے کہ ہم ماں، بیٹی کا خرچہ پورا ہو جاتا ہے۔ بیٹے سے مَیں کچھ نہیں لیتی۔ لیکن میری بہو کو نند سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ 

ظالم، بدبخت بات کرتے ہوئے ذرا نہیں سوچتی۔ کہتی ہے، وہ ساری زندگی لنگڑی کو کہاں سنبھالتی پھرے گی۔ حالاں کہ میری بچی نے دست کاری اسکول سے کام سیکھا ہوا ہے۔ ٹنچ بھاٹہ میں ریڈی میڈ کپڑوں کی بڑی دکانیں ہیں۔ مَیں نے دوچار دکان داروں سے بات کی ہوئی ہے۔ سوچتی ہوں، مَیں مرگئی تو وہ اپنے ہنر سے گھر بیٹھی روزی کما لیا کرے گی۔‘‘ ماسی حلیمہ دل کی بات زبان پرلانے کی بجائے اِدھر اُدھر کی ہانک رہی تھی۔ زخم خوردہ ماں کے لیے اپنے منہ سے بیٹی کے رشتے کی بات کرنا اتنا سہل نہیں تھا۔ 

بات کرنے کی ہمّت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب کلثوم کنواری تھی، تو درجنوں رشتے آتے تھے، مگر اکثر لوگ واپس مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔ آخر منّتوں، مُرادوں کے بعد رشتہ ہوا بھی تو ایسا کہ کاش کبھی نہ ہوا ہوتا۔ اب تو طلاق کا داغ بھی لگ چُکا ہے۔ اس معاشرے میں اچھی بھلی لڑکیوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کیا خبر، کیا جواب سُننے کو ملے؟ اُدھر راجا کو بےچینی لگی ہوئی تھی کہ ماسی سیدھی سیدھی بات کیوں نہیں کر رہی۔

چالاک ذہن خُود اسے پہل کاری سے روک رہا تھا۔ تاجرانہ ذہنیت اس پہلو پرغور ہی نہیں کر رہی تھی کہ ماں کا دل انکار سُننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ جب صبر کا یارا نہ رہا تو وہ بول اُٹھا۔ ’’ماسی! ہم دونوں خواہ مخواہ فضول باتیں کر رہے ہیں۔ تمہارا اور میرا دونوں کا کام چل سکتا ہے۔ ہم دونوں کے لیے یہ سودا وارے کا ہے۔ اس لیے ڈن کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ جن کپڑوں میں تمہاری بیٹی بیٹھی ہے، مولوی کو بلا کر اُنہی کپڑوں میں میرے ساتھ کلمے پڑھواؤ۔ 

یہ سامان جہیز بھی اُدھر ہی جائے گا، جہاں مشین پڑی ہے۔ نِٹنگ کی ضرورت ہی کیاہے؟ بھلا مَیں اِسے دووقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکتا؟ تم اپنی بیٹی کو ظالم بہو سے بچاؤ۔‘‘ ماسی حلیمہ نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے راجا کا سر دونوں ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیا اور بولی۔ ’’اللہ تجھے بڑے بخت لگائے گا۔ اِن شاء اللہ ایک دن تو بحری جہازبھی ضرور خریدے گا!‘‘