قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی متنازع خصوصی نشستوں کاسپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے نتیجے میں تحریک انصاف کے بجائے دیگر پارلیمانی جماعتوںکا حق قرار پانے کے بعد وفاق میں حکمراں اتحاد کے بعض عناصر کی یہ سوچ سامنے آئی کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے تبدیل کرکے اپوزیشن جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم کردی جائے کیونکہ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی اکثریت چند ووٹوں تک محدود ہوچکی ہے۔ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس بارے میں اپنی جماعت کا نقطہ نظر بھرپور انداز میں پیش کیا۔ پریس کانفرنس سے اپنے خطاب میں انہوں نے گنڈا پور حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کی تبدیلی کی ضرورت سے تو مکمل اتفاق کیا لیکن رائے دی کہ یہ تبدیلی پی ٹی آئی کے اندر سے آنی چاہیے کیونکہ صوبہ مزید سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔خیبرپختونخوا حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھتے دینے والی حکومت ہے، یہ مسلح لوگوں کو ماہانہ بھتے بھیجتی ہے، تب جا کر ہم ڈیرہ اسمٰعیل خان سمیت دیگر علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کے پی میں تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کو بھی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مولانا نے اس کی حکومت کو جعلی ٹھہرایا لیکن اس کے خاتمے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کومتحرک کیے جانے کی سوچ سے دوٹوک اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوٹوں کے حضور بیٹھ کر ایسی کسی کوشش میں شریک نہیں ہوں گے ۔سیاسی مفاہمت پر مبنی طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور اے این پی سے اختلافات ہیں لیکن دشمنی نہیں۔ امن وامان کے مسئلے پر انہوں نے صوبے میں کل جماعتی کانفرنس بلانے کا مطالبہ بھی کیا۔ کے پی میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کا یہ نقطہ نظر خود وفاق کے حکمراں اتحاد میں بھی پایا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں جب یہ معاملہ وفاقی حکومت کے زیر غور آیا کہ کے پی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک لاکر تبدیل کردیا جائے تو حکمراں اتحاد ہی میںاس رائے کا بھی بھرپور اظہار ہوا کہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کو اس طرح رخصت کرنے کا تجربہ بہت پریشان کن رہا ہے کیونکہ گرائی جانے والی حکومت کی تمام تر ناقص کارکردگی کا بوجھ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو اٹھانا پڑا جبکہ عوام کی ہمدردیاں بہت بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کو حاصل ہوگئیں حالانکہ اگر اس کی حکومت کو چلنے دیا جاتا تو ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کی بڑھتی ہوئی عدم مقبولیت خود ہی اس کے خاتمے کاسبب بن جاتی اور انتخابی معرکے میں اس کی شکست یقینی ہوتی۔ اس رائے کے درست ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے آخری دور میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس کے امیدوار بالعموم ملک بھر میں بھاری شکست سے دوچار ہورہے تھے جس سے یہ حقیقت نمایاں تھی کہ عوام نے جو توقعات اس جماعت سے وابستہ کی تھیں اور جو بلند بانگ دعوے اقتدار میں آنے سے پہلے اس نے کیے تھے، ان کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بڑی تیزی سے اس سے مایوس ہورہے تھے۔ اس بنیاد پر رائے دی گئی کہ خیبرپختون خوا میں بھی تحریک عدم اعتماد کے نتائج یہی کچھ ہوسکتے ہیں جبکہ اس حکومت کو چلنے دیا جائے تو بالآخر اس کی ناقص کارکردگی خود ہی اس کو لے ڈوبے گی۔ وزیر اعظم نے بھی منظر عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق اس رائے سے اتفاق کیا تھا ۔ تاہم یہ معاملہ ختم نہیں ہوا اور اس حوالے سے بظاہر کچھ نہ کچھ سوچ بچار جاری ہے۔ لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ سیاسی انتشار میں کوئی اضافہ کسی بھی طور ملک کے مفاد میں نہیں اور کے پی حکومت میں تبدیلی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی رائے نہایت صائب ہے لہٰذا یہ معاملہ پی ٹی آئی پر ہی چھوڑ دیا جانا چاہئے۔