• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالی مقام مستنصر حسین تارڑ نے اُلوئوں سے ہمارا غلط رشتہ جوڑا تھا۔ اصل میں تو بندر پیارے اُلّو سے کہیں زیادہ ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں۔ حیاتیاتی سائنس کی رو سے بندر ہمارے سگے بھائی نہ سہی ہمارے کزن ضرور ہیں ہزاروں لاکھوں سال پہلے ہمارے پُرکھے ایک ہی تھے۔ ہم نے شہروں میں آکر محل بنا لیے ہمارے کزن ابھی تک جنگل میں ڈیرہ لگائے بیٹھے ہیں۔ حالات بدل گئے، نسلیں بدل گئیں، سائنس اور جدیدیت نے ان دونوں کزنوں کو ایک دوسرے سے بہت دور اور الگ الگ کر دیا مگر رشتہ تو نہیں ختم ہو سکتا ۔بھائی بندی سے تو انسان اور بندر دونوں جان نہیں چھڑا سکتے۔

ابھی کل ہی مری سے نتھیا گلی جاتے ہوئے بھائی بند، بندر سے اچانک ملاقات ہو گئی ویک اینڈ کی وجہ سے ہر کوئی اسی راستے پر رواں دواں تھا۔ اس قدر رش تھاکہ بار بار ٹریفک رک جاتی ،میلوں تک لائنیں تھیں ،نتھیا گلی تو کیا پہنچنا تھا پہاڑی جنگل میں بندروں کے ایک پورے غول سے واسطہ پڑ گیا اورہزاروں سال پرانا رشتہ یاد آگیا۔ انسان شہروں میں آباد ہوا تو کئی بندر بھی شہری ہوگئے، انسان کا ڈر اُن کے دل سے جاتا رہا ۔ غول کے بندر وہاں رُکے لوگوں سے خوراک چھین کر کھا رہے تھے ،کوئی بندر قلابازیاں لگا کر کرتب دکھا رہا تھا اور کوئی درخت کی شاخوں کو بدل بدل کر اپنا رنگ جما رہا تھا۔ ایک بوڑھا بندر سڑک کنارے برگد کے درخت کی طرح بازو پھیلائے اپنے بچوں کے ہمراہ فٹ پاتھ پر براجمان تھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے سلام کیا اور جاننا چاہا کہ بھائی بند کیا سوچ رہے ہیں؟ بہت غور کیا بوڑھے برگد جیسے بندر کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس کے آداب و نشست کا مشاہدہ کیا ،جاننا یہ تھا کہ اس کے اندر کیا چل رہا ہے، باوجود پرانی رشتہ داری کے کچھ نہ پتہ چلا۔کھوج یہ لگانا تھا کہ آپ تو ہمارے کزن ہیں مگر آپ اتنے نٹ کھٹ کیوں ہیں ؟ ہر وقت شرارتیں کرتے رہتے ہیں ؟ تخریب پر بھی آمادہ رہتے ہیں، معصوم انسانوں کو دھوکہ دیکر ان سے روٹی اور پھل چھین لیتے ہیں، نتھیا گلی اور خیرا گلی کے گھروں کی چھتوں پر زور زور سے کودتے کیوں ہیں، رات کو اس قدرشور کیوںمچاتے ہیں؟ اور یہ بھی کہ آپ کی شکل معصوم ہوتی ہے مگر دماغ کے اندر ہر وقت سب کچھ الٹنے کی تدبیر کیوںچل رہی ہوتی ہے؟۔ برگدجیسے بوڑھے بند ر نے دو تین بار دانت پیسے،بچوں کو سہلا یا مگر کسی بھی سوال کے جواب میں سرا تک نہ پکڑایا ۔ ایک نٹ کھٹ سا مونچھوں والابندر بہت متحرک تھا کبھی جنگل کے اندر گم ہو جاتا کبھی سڑک پر آ جاتا۔ کبھی زور زور سے ہاتھ ہلاتا۔ ایسا لگتا کہ وہ تقریر کر کے الٹی میٹم دے رہا ہے پھر وہ اچانک گھنے جنگل میں غائب ہو جاتا دیر تک اسکی آواز نہ آتی شاید جنگل کے پوشیدہ علاقے میں کسی بڑے سے مشورہ اور ملاقات کرتا۔ پھر باہر آتا۔ جذبات پڑھنے کی کوشش کی تو لگا کہ کچھ تو اس کا غصّہ ہے اور کچھ اس میں دوسروں سے نمایاں ہونے کا جذبہ۔ یہ بندر سب سے دلچسپ تھا، برگد بندر پُراسرار تھا وہ تو کوئی جادوئی کردار لگتا تھا جبکہ مقرر بندر جذباتی بھی ہے اور اس میں محلاتی ادب و آداب بھی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عہد حاضر کا یہ بندر اِدھر بھی اور اُدھر بھی یعنی دونوں طرف بنا کر رکھنا چاہتا ہے، وہ بھائی بندوں کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا مگر بھائی بندوں کے شاہی خاندان سے تنگ بھی بہت ہے ۔سائنس یہ بتاتی ہے کہ بندروں کے گروہ میں ایک الفا مذکّر بندر ہوتا ہے جو عملی طور پر گروہ کا سردار، بادشاہ یا حاکم ہوتا ہے یہ الفا بادشاہ اپنے گروہ کے دوست اور دشمن منتخب کرتا ہے ان سے اتحاد کرتا ہے یا پھر جنگ کرتا ہے، باقی سارا گروہ اپنے بادشاہ کو کھانے اور جنسی ملاپ میں ترجیحی حق دیتا ہے۔ خیراس وقت تو ذکر مقرر بھائی بند کا چل رہا ہے۔ نتھیا گلی کے جنگل کے باہر مقرر کی ٹپوسیاں دیکھنے کے قابل تھیں ۔اس جذباتی بندر کا دل چیرا جائے تو اس میں محبت، ہمدردی اور وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کوئی مانے نہ مانے اس نے بڑی سے بڑی محفل میں، مشکل سے مشکل وقت میں اور عہدے میں بڑے سے بڑے شخص کے سامنے وہ مقدمہ پیش کیا جو کوئی سننا بھی نہیں چاہتا، اس نے بار بار کہا کہ میرے بادشاہ کا کچھ کرو مگر کوئی سننے ہی کو تیار نہیں بلکہ ہر بار اسے ڈانٹ پڑتی ہے مگربادشاہ کو الٹا اسی پر شک ہے ، بادشاہ سوچتا ہے کہ نہ میری کوئی سفارش کرتا ہے، نہ کوئی میری بات کرتا ہے ،نہ کوئی دباؤ ڈالتا ہے، نہ کوئی باہر نکلتا ہے اور نہ ہی کوئی میرا وفادار ہے سب مجھے آؤٹ کرنے کی کوششوں میں ہیں ۔

مگر یہ مقرر بندر ان سب سے الگ ہے وہ تقریر کے فن سے آشنا ہے، اداکاری میں اس کا کوئی ثانی نہیں وہ انسان تو کیا گھوڑے کی سواری بھی کر لیتا ہے،رونے کا موقع آئے تو اس سے بہتر کوئی رو نہیں سکتا، تفریح کا موقع آجائے تو کوئی اس سے زیادہ اچھا رقص نہیں کر سکتا۔ وہ بھی شہد کا شوقین ہے۔ بادشاہ کو ایسا وزیر مل ہی نہیں سکتا۔ باتدبیر، باصلاحیت اور باکمال، مقرر بھائی بند ان دِنوں حاسدین سے بہت تنگ ہے، اس کی ہر جگہ ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں ،شکایتیں کی جاتی ہیں، کبھی اسے کہیں جھونکا جاتا ہے اور کبھی کہیں۔وہ بھی ہر جگہ فٹ آجاتا ہے۔

نتھیا گلی جانے والی سڑک مکمل بند تھی مگر جنگل کے راستے کھلے تھے ایسا لگتا تھا کہ کھلبلی مچی ہے، باہر سے کوئی شاہی مہمان آنے والا تھا یا جنگل کے باسی بندر جنگل سے گھبرا کر سڑکوں اور میدانوں کا رخ کرنے والے تھے کچھ تو تھا کہ برگد بندر سے لیکر نٹ کھٹ بندر تک سب بھائی بند پھدک رہے تھے ۔ آنے والے دنوں میں کچھ سامنے آئے گا تو پتہ چلے گا کہ اصل کہانی کیا تھی ؟

انسان اور بندر، سائنسی اعتبار سے وہ Primate نسل ہیں جن کا دماغ ان کے جسم کے تناسب سے بڑا ہے گو انسان اوربندر کے دماغ میں ایک اور تین گنا کا فرق ہے لیکن بندر بھی اسکیمیں بناتا ہے، شرارتیں کرتا ہے ،لڑتا جھگڑتا ہے، گروہ بناتا ہے، تخریب کاری کرتا ہے، بھارت میں کئی بار بندروں نے شہروں پر حملے بھی کئے ہیں مگر لاحاصل ۔کیونکہ جذبات کی شدّت اورغصّے سے نہیں صرف اور صرف عقل کی ٹھنڈک سے ہی انسانوں جیسا عروج اور فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین