دو شوبز خواتین کی حالیہ افسوس ناک موت نے ہمیں اجتماعی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف دل دہلا دینے والے ہیں بلکہ معاشرے کے کئی تلخ حقائق کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ ایک طرف خاندانی نظام کو کمزور کرنے کے نتائج تو دوسری طرف شوبز کی چمکتی دمکتی دنیا کے پیچھے چھپا دھوکہ، تنہائی اور مصنوعی تعلقات کی تلخ سچائی سامنے آئی۔ پہلا واقعہ ایک سینئر اور پرانی اداکارہ عائشہ خان کے حوالے سے ہے، جنہیں ان کے فلیٹ سے ایک ہفتہ پرانی لاش کی حالت میں مردہ پایا گیا۔ یہ حقیقت ہی ہمارے سماجی رویوں پر سوالیہ نشان ہے کہ وہ ایک ہفتے تک وہ گھر میں مردہ پڑی رہیں لیکن نہ ان کے بیٹوں کو خبر ہوئی، نہ رشتہ داروں کو اور نہ ہی شوبز کے کسی دوست یا مداح نے ان کی کوئی خبر لی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں ملک کے مشہور چہروں میں سے تھیں، جنہیں لاکھوں افراد جانتے اور پسند کرتے تھے مگر موت کے بعد ان کی تنہائی کا عالم یہ تھا کہ اُن کے وجود کی خبر پڑوسیوں کو وہاں پھیلی بدبو کی شکایت پر ملی۔ دوسرا واقعہ تو اور بھی زیادہ دل دہلا دینے والا ہے۔ نوجوان اداکارہ حمیرا اصغر، جنکی لاش ان کے کرائے کے فلیٹ سےان کی موت کے 8 سے 10 ماہ بعد برآمد ہوئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش بڑی حد تک گل سڑ چکی تھی۔ نہ کوئی ہڈی ٹوٹی، نہ کوئی تشدد کے نشانات، گویا وہ خاموشی سے مر گئیں اور دنیا کو خبر تک نہ ہوئی۔ افسوس کہ نہ گھر والوں نے تلاش کیا، نہ کسی دوستوں نے پوچھا۔ یہاں تک کہ جب لاش ملی تو پہلے والد نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حمیرا کی فیملی اُنکے شوبز میں آنے سے خوش نہ تھی اور اسی لیے ایک عرصہ سے آپس میں رابطہ بھی نہ تھا۔ کئی دن میڈیا کی خبروں کے بعد بھائی لاہور سے میت وصول کرنے کراچی پہنچا اور واپسی پرگھر کی بجائے سیدھا قبرستان لے جا کر آخری رسومات ادا کیں۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ شوبز کی دنیا کتنی کھوکھلی اورجعلی ہے۔ جس شوبز کی چکاچوند دنیا میں یہ خواتین داخل ہوئیں، وہ ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو سکی۔ جن لاکھوں مداحوں کی تالیوں کی گونج میں انہوں نے شہرت حاصل کی، ان میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ جان سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مر چکی ہیں۔ جس صنعت نے انہیں وقتی شہرت دی، اسی نے انہیں تنہا مرنے کیلئے بھی چھوڑ دیا۔ اس تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ ہمارا کمزور ہوتا خاندانی نظام ہے۔ جو بچے ماں باپ سے الگ ہو جاتے ہیں، جو والدین بچوں کو’’اپنے فیصلے خود کرنے‘‘ کی چھوٹ دے دیتے ہیں، وہ کبھی کبھار ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں نہ خون کے رشتے کام آتے ہیں، نہ دوستی کے دعوے دار۔ شوبز کی چمک دمک میں چھپے فریب کو ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اس دنیا میں سب کچھ دکھاوا ہے، حقیقت کچھ اور ہے۔ میڈیا جب کسی اداکارہ یا اداکارکو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، تو ہمارے نوجوان متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ شوبز کا راستہ کامیابی، دولت اور عزت کا واحد راستہ ہے۔ اس خواب کو حقیقت سمجھ کر کتنے ہی نوجوان اپنے گھر والوں سے، اپنے خاندان سے، اور اپنے اصل سے دور ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان خوابوں کی چمک ختم ہوتی ہے یا شوبز کا جھوٹ اور فریب اُن کے سامنے آ شکار ہوتاہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آئے دن میڈیا کے ذریعے اپنے وقت کے نامور اداکاروں کی قابل ترس زندگی کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان واقعات سے سبق سیکھیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے خاندان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کریں، اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ شہرت سے بڑھ کر زندگی کی اصل قدر محبت، عزت اور رشتوں کی ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ شوبز کی چمک دمک دکھانے سے پہلے اس کے سائے میں چھپے اندھیروں کو بھی سامنے لائے تاکہ ہمارے نوجوان حقیقت کو جان سکیں ہمیں ان دونوں مرحومہ خواتین کی مغفر ت کیلئے دعا کرنی چاہیے اور خود سے یہ عہد بھی کہ اس معاشرتی بے حسی اور شوبز کے فریب کو پہچانیں گے اور اس سے خود کو، اپنے خاندان کو اور اپنے معاشرے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔