• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اقبال اس صدی میں بھی ہمیں امید کا پیغام دیتے ہیں۔ جہاں وہ آسودہ خاک ہیں وہاں بھی ایک سیاسی شعور اور اجتماعی بیداری اپنے عروج پر ہے ۔تاریخ گواہی دے گی کہ ادارے سیاسی طاقتیں خاندان سب اپنے اپنے مفادات اور خواہشات کی روشنی میں اپنی اپنی کوششیں کر رہے ہیں لیکن مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے ہیں۔ پاکستان اپنی ازادی کے 78ویں سال میں وہاں نہیں ہے جہاں بانی پاکستان قائد اعظم دیکھنا چاہتے تھے جہاں ہونے کی آرزو مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی تھی ۔وہ اپنی قبروں سے بھی ہمیں جگا رہے ہیں مگر اس وقت ہم سب تذبذب کا شکار ہیں۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے بہت تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ اصل منزل ہے کہ کسی بھی ریاست کے ہر شہری کی زندگی محفوظ ہو۔ علاج معالجے کی ،پرائمری سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیم تک کی سہولتیں ہوں، محفوظ اور ارام دہ ٹرانسپورٹ میسر ہو ۔آج کل کے دور میں جب جمہوری ادارے موجود ہوں عدالتی نظام ہو اس وقت قومی سیاسی پارٹیوں اور قانون دانوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔

جمہوری نظم و نسق مضبوط منظم سیاسی پارٹی چلاتی ہے ۔ عدالتوں سے انصاف مخلص اور سرگرم وکلا دلواتے ہیں ۔ملک میں تجربہ کار سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جن سے پاکستانیوں کی مختلف نسلیں وابستہ ہوتی آرہی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں ۔سیاسی کارکن اور رہنما اپنی عمریں توانائیاں ان پارٹیوں کی نذر کر رہے ہیں مگر سیاسی پارٹیوں کی موروثیت انہیں غیر سیاسی رویوں پر مجبور کر دیتی ہے یہیں سے غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کیلئے راستے ملنے لگتے ہیں ۔جمہوری نظام میں الیکشن اکثریت کو اپنی پسند کی جماعت کو مینڈیٹ دینے کا موقع دیتے ہیں ۔پارلیمانی نظام سیاست میں تو متبادل حکومت کی ہر لمحے ضرورت رہتی ہے تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں تو 60کی دہائی سے اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا آرہا ہوں کہ مجھے اپنے سماج کے رجحانات کا تجزیہ اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں کرتے رہنا چاہیے۔ بلندبانگ نعرے ہی ضروری نہیں ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کا ترجمان بننا بلکہ سیاسی پارٹیوں کو، ان کے لیڈروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے ہمارے پڑوس میں حکومتیں ہمیشہ ووٹ سے بدلی ہیں وہاں جمہوریت بتدریج مضبوط ہوئی ہے اپنے سارے مسائل وہ اگرچہ حل نہیں کر سکے ہیں ہر فرد کو جان و مال کی حفاظت نہیں دے سکے ہیں پھر بھی انہوں نے تعلیم ،علاج اور ٹرانسپورٹ میں پیش رفت کی ہے ۔ہم تاریخ کے طالب علموں نے پاکستان میں سارے حکومتی ریاستی سماجی سیاسی تجربے دیکھے ہیں خالص سیاسی حکومتیں، مکمل فوجی نظم و نسق 'سیاست دانوں اور فوج کی ملی جلی حکمرانی۔ اب 78 سال بعد بلوچستان کے دشت و صحرا سے بلند ہوتی فغاں صرف واہگہ سے گوادر تک ہی نہیں بلکہ واشنگٹن اور لندن میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ خیبر پختون خوا 1979ءسے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے زخم زخم ہے۔

سندھ نے جمہوریت کی بحالی کیلئے اعلیٰ ترین جانوں کی قربانی دی ہے۔پنجاب میں حالیہ بیداری اور مزاحمت لائق غور ہے۔ اقتصادی طور پر پاکستان وہاں نہیں ہے جہاں 78سال بعد ہونا چاہیے اور سب سے تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہماری 60فیصد 18سے 35 سال تک کی آبادی بھی مطمئن نہیں ہے ۔ایسے میں سیاسی پارٹیوں سے تاریخ جغرافیہ اور دنیا کی توقعات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ پی پی پی مسلم لیگ نون تو اس وقت حکومت میں ہیں اسلئے وہ بظاہر مطمئن ہیں ان سے زیادہ سیاسی سرگرمی کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف اگرچہ خیبر پختون خوا میں تین انتخابی میعادوں سے برسر اقتدار ہے مگر اپنے بانی چیئرمین کی قید اور مزاحمت کے باعث عوام میں اب تک مقبول ہے اس سے لوگوں کو بہت سی توقعات بھی وابستہ ہیں ۔تاریخ اور ضمیر کی عدالت میں سب سے زیادہ سوالات بھی پی ٹی آئی سے ہی کیے جا رہے ہیں ساری پابندیوں کے باوجود عام میڈیا، 'سوشل میڈیا ٫ عام گھروں،کچی بستیوں میں پوش علاقوں میں بڑے ڈرائنگ روموں میں اس کا ہی منفی اور مثبت ذکر ہوتا ہے۔

اپنی ساری مقبولیت ،ایک بار وفاق میں تین بار کے پی کے میں حکمرانی کے باوجود پی ٹی آئی کا سیاسی کردار بہت زیادہ اصولی خود مختارانہ اور معروضی نظر نہیں آتا ہے یہاں اگرچہ موروثی طرز قیادت نہیں ہے لیکن پارٹی پر ایک شخصیت کا غلبہ ہے ملک میں حالات نے ،ماورائے عدالت فیصلوں نے، غیر جمہوری پارلیمانی قراردادوں نے ،اس شخصیت کی غیر متوقع مدافعت نے اسے اور زیادہ عوامی مقبولیت دے دی ہےمیں اپنی تاریخی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی استحکام کیلئے پی ٹی آئی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے اس کی سرگرمیاں ہی ملک کا سیاسی مستقبل ڈیزائن کر رہی ہیں عالمی سطح پر اور اندرون ملک پی ٹی آئی سوشل میڈیا تو بہت زیادہ استعمال کر رہی ہے مگر کوئی نظریاتی حکمت عملی سیاسی تدبر قومی ادراک اور اجتماعی قیادت نظر نہیں آرہی ہے تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے پی ٹی آئی کو ہی سیاسی برتری حاصل ہے کاش ان کے بانی چیئرمین عمران خان ان کے موجودہ چیئرمین اور قیادتیں خاص طور پر مزاحمت کرنے والی خواتین اقبال کی نظم’’خضر راہ‘‘پڑھ سکیں اس نظم کی مختلف جہات اور اصطلاحات پر غور کر سکیں۔

چشم جہاں بیں، دولت کی پیرایہ پوشی، فطرت اسکندری، ضمیر کن فکاں، فطرت آزاد، جمہوری قبا ،جنگ زرگری، کرمک ناداں۔ مومیا کی گدائی ۔جہان پیر ۔اس وقت صرف پاکستان ہی نہیں دنیا نظریات سے عاری اور حقیقی سیاسی سماجی قیادت سے محروم ہے ۔ اس لیے ہماری گزارش ہے کہ پی ٹی آئی اپنے سیاسی کارکنوں میں ایک سنجیدہ رویہ منظم کرنے کیلئے ضلعی کنونشن منعقد کرے اپنی سیاسی پالیسیوں پر کارکنوں کی کھلی باتیں ،تنقید سنے۔ پھر صوبائی کنونشن اور آخر میں قومی کنونشن۔ اس سے از خود ایک اجتماعی پالیسی سامنے آسکے گی۔ اب روایتی احتجاجی تدابیر نہیں چل سکتیں ۔ادارے موجود ہیں لیکن وہ اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ۔اس لیے ان سے کسی مثبت بریک تھرو کی توقع نہیں ہے پی ٹی آئی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو آئندہ 10/ 15 برس کا روڈ میپ دے مرحلہ وار پاکستان مکمل جمہوریت کی طرف کیسے جائے گا معیشت کیسے بحال ہوگی کھربوں روپے کے قرضوں کا بوجھ کیسے اترے گا ان کنونشنوں سے یہ بھی اندازہ ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی یہ سب کچھ کر سکے گی۔ اس طرح 14 اگست 2025 تک پی ٹی آئی ایک مبسوط پالیسی پیپر قوم کے سامنے لا کر یہ ثابت کرے کہ وہ ایک مستحکم سیاسی پارٹی ہے اور اس کے پاس مسائل کا حل بھی ہے۔

تازہ ترین