• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ فروٹ مارکیٹ میں مزدوری کرتا تھا۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے پھلوں کے بھرے ہوئے ٹرک آتے اور وہ یہ ٹرک اَن لوڈ کرتا وہ دن میں دس بارہ گھنٹے کام کرتا تھا ۔وہ بوڑھا تو نہیں تھا لیکن اب اتنا جوان بھی نہیں تھا۔ اسکی عمر 45 کے لگ بھگ تھی لیکن شاید محنت کی وجہ سے اسکے کاندھے اور کمر درد کرنے لگے تھے، اس کے گال پچک گئے تھے اور چہرے پر ہڈیاں نمایاں ہو گئی تھیں۔ وہ اپنی عمر سے دس پندرہ سال زیادہ لگنے لگا تھا۔ اسکی ماہوار آمدنی اوپر نیچے ہوتی رہتی تھی پیک سیزن میں وہ ڈیڑھ سے دو ہزار روپے یومیہ تک کمانے میں کامیاب ہو جاتا تھا اور یوں مہینے بعد ایک خاص رقم اس کے پاس ہوتی۔ البتہ آف سیزن میں اس کیلئے ایک سو روپیہ یومیہ کمانا بھی ممکن نہ تھا تاہم دوسرے مزدوروں کی طرح وہ یہ سیزن بھی منڈی میں گزارتا ،۔اسکی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، بیٹا 22 سال کا تھا وہ گڑھی شاہو میں ایک جوس کی دکان پر ویٹر تھا ۔وہاںجب کوئی گاڑی آکر کھڑی ہوتی تو دوسرے ویٹروں کی طرح وہ بھی جوس کا مینیو ہاتھ میں پکڑے اس کی طرف بھاگتا اور اکثر گاہک کو گھیرنےمیں کامیاب رہتا۔ اس کا زیادہ تر گزارا گاہکوں کی ٹپ سے ہوتا تھا۔ اسکے باپ کی دو خواہشیں تھیں۔ ایک اسکے بچے پڑھ لکھ جائیں اور دوسری انکے سروں پر اپنی چھت ہو تمام تر مار پٹائی کے باوجود بیٹا ہر بار اسکول سے بھاگ جاتا تھا۔ اس کا رحجان تعلیم کی طرف تھا ہی نہیں۔ماں اس کی مر چکی تھی ۔ بہنیں چھوٹی تھیں نہ پڑھنے کی ایک وجہ اسکی یہ خواہش بھی تھی کہ محنت مزدوری کر کے اپنے باپ کا ہاتھ بٹائے اور اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرے۔ وہ اگر چہ خود پڑھ لکھ نہ سکا لیکن اسکے دل میں اپنے باپ کی طرح یہ خواہش موجود تھی کہ اس کی بہنیں باقاعدگی سے اسکول جائیں اور وہ انہیں اپنی زندگی میں کسی تعلیمی ادارے میں کام کرتا دیکھے ! اسکے باپ کی کم از کم بیٹیوں کو پڑھانے کی خواہش تو پوری ہو رہی تھی لیکن یہ خاندان اوسطاً ماہوار پینتیس چالیس ہزار روپے کمانےکے باوجود سخت تنگ دستی کی زندگی گزار رہا تھا۔ انہوں نے پندرہ ہزار روپے ماہوار پر ایک کچی آبادی نما بستی میں ایک مکان کرائے پر لیا ہوا تھا۔ جس میں صرف تین کمرے اور ایک چھوٹا سا دالان تھا اتنے ہی پیسے باپ بیٹے کے ڈیوٹی پر آنے جانے، بچوں کے اسکول اور گھریلو اخراجات پر صرف ہو جاتے تھے۔ بیٹیوں کے چہرے پیلے پڑ چکے تھے محض غربت کی وجہ سے نہیں بلکہ غربت کا احساس انہیں اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے جا رہا تھا کہ وہ اپنی کلاس فیلوز کے مقابلے میں خود کو بہت حقیر سمجھتی تھیں وہ ہفتے میں کپڑوں کے صرف دو جوڑےروزانہ دھو کر اور استری کر کے پہنتی تھیں۔ اس وجہ سے انکے چہرے پر ہر وقت اداسی پھیلی رہتی تھی ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ جیسے بھی ہو ایک چھوٹا سا گھر بنائے تاکہ اسکی بیٹیوں کیلئے بھی کوئی اچھا برمل جائے اور اس کا پندرہ ہزار روپے ماہوار کرایہ بھی بچ جائے اور یوں وہ مہنگائی کا مقابلہ نسبتاً آسانی سے کر سکے۔ اس نے دو ہزار روپے ماہوار کی کمیٹی ڈالی جو پانچ سال کے لیے تھی۔ اب اسے پہلے سے زیادہ کام کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے گالوں کی ہڈیاں مزید پچک گئی تھیں۔ کاندھوں اور کمر کا درد بھی پہلے سے بڑھ گیا تھا مگر اپنے اور بچوںکیلئے ایک چھت بنانے کا جنون اسکے سر پر سوار تھا۔ چنانچہ وہ ایک مشین کی طرح اپنے کام میں جتا ہوا تھا۔ کام کے دوران وہ اپنے درد بھول جاتا لیکن رات کو بستر پر لیٹتے وقت اس کے جسم کا جوڑ جوڑ درد کرتا اور اس کے کراہنے کی آواز ڈھیلی چارپائی کے کراہنے سے کہیںزیادہ ہوتی۔ بالآخر ایک روز اس کی کمیٹی نکل آئی، اسے یوں لگا اس کا خواب پورا ہونے والا ہے ، اس نے دولاکھ روپے پوری زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ اس نے بینک میں اکاؤنٹ کھولا اور یہ اکاؤنٹ کھولنا بھی ایک مشکل ترین مرحلہ تھا، جس سے بالآخر وہ گزر گیا ۔ اب وہ ہر نئی آبادی کے اشتہارات دوستوں سے پڑھواتا لیکن پلاٹوں کی قیمت سن کر اس کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی۔ ایک روز رات گئے جب وہ گھر آیا تو اس نے اپنی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر لیٹے خواب دیکھا کہ وہ ایک خوبصورت گھر کے باہر کھڑا ہے جس کے باہر اس کی نیم پلیٹ لگی ہوئی ہے، وہ گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دونوں بیٹیاں گھر کے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھی ایل سی ڈی پر کوئی پروگرام دیکھ رہی ہیں، خواب کے دوران اسے بار بار یہ سوچ آتی رہی کہ وہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا مگر وہ واقعی خواب تھا۔ تاہم وہ جب جاگا تو اس نے سوچا کہ کون کہتا ہے انسان کو وہ خواب نہیں دیکھنا چاہیے جو حقیقت سے دور ہو، کیونکہ وہ کئی روز تک اس خواب کے نشے میں مگن رہا۔ بالآخر ایک روز وہ ایک ہاؤسنگ اسکیم میں دو مرلے کا پلاٹ خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ کام سے فارغ ہو کر سیدھا گھر نہ جاتا بلکہ راہ میں نظر آنے والے چھوٹے گھروں کے نقشوں پر غور کرتا رہتا تاکہ اسے جو نقشہ پسند آئے اسکے مطابق وہ گھر کی تعمیر شروع کر دے۔ اسی دوران وہ 5 5 سال کا ہو گیا تھا اور 70 سال کا لگتا تھا۔ ایک دن اسے دو مرلے کا ایک گھر پسند آیا، جس کی تین منزلیں تھیں وہ اس کے مالک سے ملا مالک اچھا آدمی تھا۔ اس نے کہا تم اس کی ڈرائنگ کسی سے بنوا لینا ایل ڈی اے سے نقشہ میں منظور کروا دوں گا ۔ اس نے مالک سے پوچھا اس گھر پر تمہاری کتنی لاگت آئی تھی۔ مالک نے کہا یہی کوئی پچاس لاکھ روپے ۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں کے آگےاندھیرا چھا گیا، اس نے دیوار کا سہارا لیا تا کہ خود کو گرنے سے بچا سکے اس روز وہ گھر آیا تو چپ سادھے بیٹھا رہا، نہ اس کے کراہنے کی آواز آئی اور نہ اس کی ڈھیلی چارپائی نے فریاد کی۔ صبح اٹھا تو اس پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا۔ اسکے بیٹے نے جوس کی دکان سے چھٹی لی اور اسے سرکاری ہسپتال لے گیا جہاں اس کے علاج معالجے کی طرف اتنی ہی توجہ دی گئی جتنی سرکاری ہسپتال میں دی جاسکتی ہے۔ وہ کوما میں چلا گیا تھا، کوما میں جانے سے پہلے اس نےاپنے بیٹے کو ہکلاتی زبان میں دو نصیحتیں کیں اور پھر تین دن بعد وہ مر گیاچنانچہ اسے اس کی پہلی وصیت کے مطابق اس کو دو مرلے کے پلاٹ میں دفن کر دیا گیا اور اس کی دوسری وصیت کے مطابق وہاں یہ تختی لگادی گئی۔ اس پلاٹ میں مالک مکان رہتا ہے۔

تازہ ترین