نظریاتی اختلافات تیسری دنیا کے ممالک کا خاصہ رہے ہیں۔ عمومی طور پر یہ جھگڑا مذہبی رجحانات کی بنیاد پر جنم لیتا ہے۔ ایک جانب مذہبی شدت پسند رجحان رکھنے والے اور دوسری جانب لبرل اور سیکولر سوچ کے حامل افراد پائے جاتے ہیں۔ اس تفریق کا فائدہ عالمی استعمار نے بھرپور طریقے سے اٹھایا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں دنیا سے لی جاسکتی ہیں لیکن سب سے پہلی مثال پاکستان بنتا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ملک میں سوویت یونین اور امریکی مفادات کی جنگ چھڑی۔ کامیابی کسے ملی اس بحث سے قطع نظر اصل بحث شروع ہوتی ہے 70ء کی دہائی سے جب افغانستان میں روسی افواج نے 1979ء میں مداخلت کی لیکن پاکستان میں اس سے قبل ہی اس جنگ کی تیاری عالمی استعمار کے ایماء پر شروع کردی گئی تھی۔ 1977ء میں لبرل جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے آمریت قائم کی گئی۔ وہ بھی اس طرح جس میں مذہبی رجحانات استعمال کرنا شروع کئے گئے۔ اس کے بعد 1979ء میں افغانستان میں یہ آمرانہ حکومت استعمال ہوئی۔ جب اس کی ضرورت نہ رہی تو 1988ء میں اس کا خاتمہ ہوا اور پھر اس ملک کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ 1988ء سے لے کر 1999ء تک یہ اتھل پتھل جاری رہی۔ کبھی امداد ختم کردی گئی تو کبھی مختلف ترامیم کے ذریعے پابندیاں عائد کردی گئیں لیکن ایک بار پھر عالمی استعمار کو لبرل اور سیکولر سوچ کے حامل افراد کی ضرورت پڑی ۔ 1999ء میں ایک اور تبدیلی برپا کرکے نسبتاً لبرل اور سیکولر قوتوں کو پاکستان میں برسر اقتدار کیا اور پھر دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ یہ لبرل قوتیں نائن الیون کے بعد انہی جنگجوئوں کے خلاف استعمال کی گئیں جو پاکستان کے سابقہ آمرانہ حکومت میں پیدا کی گئی تھیں۔
بالکل اسی طرح جب یہ حکومت ختم ہوئی تو ایک بار پھر دائیں بازو کی حامل قوتوں کو شہ ملنے لگی اور پاکستان کی لبرل اور سیکولر سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا گیا جس طرح 1977ء میں ایم آرڈی کی شکل میں جمہوری قوتوں کو پابند سلاسل رکھا گیا اور وہ مسلسل زیر عتاب رہیں۔ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں رخنہ ڈالا گیا اور دو کا خاتمہ انتخاب کے دوران کردیا گیا جبکہ تیسری سیاسی جماعت اپنی عوامی طاقت سے اپنے مینڈیٹ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ اب اس کے بعد اس کی قیادت پر تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان گوانتاناموبے سے رہائی پا رہے ہیں۔ کل تک جنہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جارہا تھا، آج ان سے مذاکرات کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آنے والے دور میں ایک بار پھر پاکستان میں موجود مذہبی جنونیت کو عالمی استعمار کہیں استعمال کرنے جار ہا ہے۔ اس کا نشانہ مشرق وسطیٰ اور شام بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسے ایشیائی ممالک جہاں کمیونزم موجود ہے، وہاں انہیں کسی مہم جوئی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس استعمال کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی جمہوری سیاسی قوتوں کو زیر عتاب رکھا جائے۔ اس موضوع کو آج زیر بحث لانے کا مقصد یہ تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اس وقت لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں زیر حراست تھے اور ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ گو کہ ان کی صحت اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے باوجود برطانوی تحقیقاتی اداروں نے اپنی روایت کے برعکس تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں گرفتار کیا تھا۔ سردست وہ علالت کے باعث بیان دینے کے قابل بھی نہیں تھے اور اسپتال میں زیرعلاج تھے تاہم اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا جس کے بعد ضمانت ممکن ہو سکی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان سے ہی کئی سیاسی خانوادے ایسے ہیں جن پر لاکھوں نہیں کروڑوں پائونڈ اسٹرلنگز کی منی لانڈرنگ کا الزام عائد ہے اور برطانیہ میں ان کی جائیدادیں اور کاروبار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی علاوہ ازیں پوری دنیا حکمران بادشاہ جلا وطن ہوکر اپنی دولت کے ہمراہ لندن میں مقیم رہے ان کے ساتھ برطانوی اداروں کا رویہ ایسا نہ تھا جبکہ چند لاکھ پائونڈز کے عوض یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے جس کا پورا حساب بھی دیا جاچکا تھا۔ برطانوی تحقیقاتی اداروں کا یہ رویہ اس شک کو تقویت دے رہا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان میں ان قوتوں کو زیر عتاب رکھا جائے جو خوشحالی، ترقی اور روشن خیالی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں کئی دن سے شہر کراچی اور سندھ کے دیگر شہر متاثر ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر بعض قلمکار اور ٹیلی ویژن اینکرز اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن وہ کوئی ایک ایسا بیان سامنے نہیں لاسکتے جس کے ذریعے ایم کیو ایم کی قیادت نے اس قسم کے عمل کرنے کی اپیل کی ہو۔ ہاں البتہ انہوں نے نمائش چورنگی پر ایک مؤثر دھرنا دے رکھا تھا جس کا مقصد پاکستانی حکومت پر کسی قسم کا دبائو ڈالنا نہیں بلکہ اس کے ذریعے ایک پیغام دینا ہے کہ الطاف حسین کے ساتھ ایک نہیں، دو نہیں لاکھوں دل دھڑکتے ہیں اور اس دھرنے کے ذریعے ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے کارکنان کو بھی نظم و ضبط کے ساتھ مجتمع رکھا ہے تاکہ وہ جذباتی ہو کر قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ ذرائع ابلاغ کے وہ حوصلہ مند صحافی جو ایم کیو ایم کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں، انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ عوام کرتے ہیں، ذرائع ابلاغ کے نمائندے نہیں۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ قائد ایک ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ قائداعظم کے بعد مسلم لیگ کا کوئی قائد نہ رہا اگر کوئی دوسرا قائد تھا تو اسے قائد ملت قرار دیا گیا۔ بالکل اسی طرح پیپلز پارٹی کا قائد آج بھی ذوالفقار علی بھٹو ہے لہٰذا قائد کا فیصلہ عوام کرتے ہیں اور یہ منصب ہمیشہ رہتا ہے۔ اس کا تعلق کسی نظرئیے یا کسی مقصد سے منسلک ہوتا ہے۔ اسے سیاسی تناظر میں نہ لیا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی رہنما جیل میں گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو راولپنڈی جیل میں تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے جبکہ نواز شریف گرفتار ہوئے، رہا نہ ہوسکے البتہ جلا وطن ہو گئے۔ بالکل اسی طرح جاوید ہاشمی، یوسف رضاگیلانی سمیت ان گنت سیاسی رہنما ہیں جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے اور باہر نہ آسکے یا تو ان کو ڈیل کرنا پڑی یا پھر طویل جیل کاٹنے کے بعد عدالتوں سے انہیں ریلیف ملا۔ اس کے برعکس الطاف حسین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب انہیں جھوٹے مقدمات میں قید کیا تو کراچی کے عوام نے انہیں جیل توڑ کر رہا کرایا۔ الطاف حسین نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف، طاہرالقادری، چوہدری شجاعت سمیت تمام قومی رہنمائوں تاجر برادری زندگی کے تمام طبقوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کا ساتھ دیااس کے علاوہ اپنے کارکنان کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں عالمی استعمار اپنے مفادات کے لئے بڑی مؤثر لابنگ رکھتا ہے اور اس کو جس وقت چاہے متحرک کرلیتا ہے۔ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سردست پاکستان سے سیکولر اور لبرل سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگایاجارہا ہے تاکہ پھر کسی نئی مہم جوئی کے لیے ان کو کرائے کے فوجی مل سکیں جو کسی مذہبی نظرئیے کے حامل ہوں۔