• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(خالد فتح محمّد)

خالد فتح محمّد، ایک ہمہ جہت ادیب، افسانہ/ ناول نگار۔ قلعہ جے سنگھ، گوجراںوالا میں پیدا ہوئے، وہیں مستقل رہائش رہی۔ سپاہ گری سے منسلک تھے، 1993ء میں سُبک دوش ہوئے اور یک سوئی سے ادب ہی مشغلہ رہا۔ پاک وہند کے نمایاں ادبی رسائل و جرائد میں چَھپتے رہے۔ بارہ اُردو، ایک پنجابی ناول، افسانوں کے چھے مجموعے، فِکشن کے تراجم منظرِ عام پر آئے۔ انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں، عورت مرد کے تعلق کی متنوّع جہات،حالات کےجبراور عسرت سے منسلک معاملات کے حساس مبصّر ٹھہرے۔

’’انکشاف‘‘ ایک فکر افروز افسانہ، ایک شوہر، ایک بیٹے کا دل گیر قصّہ ہے، جسے ماں، بیوی کی چپقلش نے ذہنی خلجان میں مبتلا کردیا اور وہ ’’کمرا بند‘‘ ہوگیا۔ اور…جب کمرے سے باہر نکلا، تو اِک عجب ہی منظر اُس کا منتظر تھا۔ پڑھیے، عورت و مرد کی نفسیات میں امتیاز کرتی کہانی۔    

اُسے کمرے میں بند ہوئے آٹھ گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ وہ اُکتا گیا۔ وہ صُبح سوگیا تھا، کسی حد تک مطمئن کہ آج اس تنازعے کا حل نکل آئے گا۔ ابھی سولہ گھنٹے اور کشٹ کاٹنا تھا، تب جاکر کہیں کمرے سے باہر نکلنا ہو سکے گا۔ اُس کا خیال تھا کہ چوبیس گھنٹے وقت کی اکائی کا غیراہم ساحصّہ ہیں اور پلک جھپکتے گزر جائیں گے۔ جب وہ سو کر اُٹھا تو اُسے احساس ہوا کہ وقت تو بظاہر ایک ہی رفتار سے چلتا ہے، لیکن اس رفتار کے ساتھ قدم ملانے والا اُس کی رفتار سے یا تو گھبراجاتا ہے یا پھر اُکتا جاتا ہے۔ اُس نےجب اپنے پیچھے نگاہ کی تو اُسے اپنی زندگی بھی آٹھ گھنٹے ہی لگی، جواُس نے سوتے ہوئے گزاردی۔ 

اگلے سولہ گھنٹے کیا ہیں؟ ایک کشٹ یا کمرے سے باہر آنے کی اُمید؟ اگر اُسے بلی اور کتےکے خصائل کا پتا نہ چلتا تو وہ کبھی کمرے میں بند نہ ہوتا۔ اُسے پتا چلا کہ کتا اپنے مالک سے وفا کرتا ہے۔ کتے کو جگہ سے کوئی واسطہ نہیں، مالک جہاں بھی جائے، وہ دُم ہلاتا ہوا اس کا پیچھا کرے گا۔ بلی کو جگہ سے پیار ہوتا ہے اور وہی اُس کی مالک ہوتی ہے، مکین بےشک بدلتے رہیں۔ اُس نے سوچا کہ اتنا بڑا نکتہ وہ پہلے کیوں نہ سمجھ سکا؟ 

کیا یہ نکتہ واقعی اتنا بڑا ہے کہ اِسے سمجھنا ضروری تھا یا اتنا بڑا بھی نہیں۔ صرف اُس کے تخیّل نے اُسے مناسب حجم سے زیادہ حجم دے دیا تھا۔ بہرحال، جو بھی تھا، اُس نے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اُس کی ماں اور بیوی ہمیشہ آپس میں لڑتی رہتی تھیں اور وہ اُن کی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آچُکا تھا۔ 

وہ جب گھر آتا، تو دونوں اپنے اپنے معمولات میں مشغول نظر آتیں اور اُسے دیکھتے ہی کوئی ایسی بات ہوجاتی کہ بےضرر سے فقرے چل نکلتے، جو بتدریج پُرمعنی ہوتے جاتے۔ اُس کے چہرے پر پریشانی اور بےزاری کے تاثرات آجاتے اور وہ دونوں سے لاتعلق سا ہوجاتا۔ اُس کے جواب میں دونوں اُس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اُس کے اِردگرد چکر لگانا شروع کردیتیں۔ اب وہاں بلی اور کتے کا کھیل شروع ہوجاتا۔

اجنبی کی آواز میں غراہٹ نمایاں تھی، گہری اور پُرسوز غراہٹ، جس میں غصّہ اور دُکھ یوں رلے مِلے ہوتے ہیں کہ علیحدہ علیحدہ شناخت نہ ہو سکیں۔ اجنبی کی گفت گو نے اُس کے پیٹ میں جلتے بھوک کے الاؤ پر جیسے ایندھن کا کام کیا اور شعلہ بلند ہونے لگا۔ اُس کے پاس دو مشکیزوں میں پانی تھا اور ایک پوٹلی میں چاول، گندم اور کچھ پھل۔ اُس کے اندازے کے مطابق اگلے چار دن اگر اُسے کہیں سے خوراک نہ ملے تو وہ اس ذخیرے پر گزارہ کرسکتا تھا، لیکن اگر وہ اس میں اجنبی کو شریک کرے، جس کے چہرے اور حرکات وسکنات سے نقاہت اور لاغر پن بہت نمایاں تھا اور مسلسل بڑھ رہا تھا، تو پھر یہ ذخیرہ دو دن بھی نہ چل سکے گا۔ 

اُس نے کل دوپہر سے کچھ نہ کھایا تھا۔ عظیم جنگوں کے بعد سے دنیا بھر میں بچ رہنے والے بھوک سے مر رہے تھے۔ وہ بھوک کو برداشت کرنے کی پہلے سے زیادہ قوت حاصل کرچُکا تھا، لیکن کیا وہ مسلسل بھوکا رہ سکتا تھا۔ نقاہت خُود اُس کی سانسوں میں زہرکی طرح گھل رہی تھی اور اب وہ سمجھ سکتا تھا کہ اُس کے دماغ میں بھرا خمار نیند کا نہیں بلکہ موت کا تھا اور وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ 

کیا اُسے مزید انتظار کرنا چاہیے۔ اُس نے الاؤ کے بلند ہوتے شعلے میں سوکھی ٹہنیوں سے اُٹھتی چنگاریوں کو ناچتے اور اچھلتے، کُودتے دیکھا۔ اس گرمائش نے اُسے بالکل نڈھال کردیا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اگر وہ بولنا چاہے تو کیا واقعی وہ ایسا کرپائے گا اور کیا واقعی اُسے اب بھی خوراک کی طلب تھی۔ اجنبی نے ویسے ہی سر جُھکائے، جیسے خُود کلامی کرتے ہوئے کہا۔ ’’موت کا خوف ہی بھیڑیوں کوخوں خواربنا دیتا ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں ہمیشہ کے لیے، جو ممکن نہیں، لیکن وہ اِسی خواہش کی آگ میں جلتے ہیں اور اس سے دوسروں کو بھی جلاڈالتے ہیں۔ اُس میں اُن کا کیا قصور؟

اُس نے غنودگی کی لہر اپنے دماغ میں ہولے ہولے چلتی محسوس کی۔ اونگھ جیسے اُس کے کندھوں پر سوار ہوئی اور وہ آگے کو جھک گیا، لیکن فوراً ہی اُس نے خُود کو سیدھا کیا اور سرجُھکائے بیٹھے اجنبی کو دیکھا۔ غنودگی گہرے ہوتے سائے کی طرح اس کے حواس کو اندھا کررہی تھی۔ اجنبی بولتا رہا۔ ’’جنگلوں میں دھتکارے ہوئے، انسانی بستیوں سے دُور، اِن بھیڑیوں کو زندہ رہنے کے لیے خوراک چاہیے۔ 

وہ بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اجنبی نے ماتھے کو اپنے دائیں ہاتھ کے لمبے ناخنوں سے کُھجایا، جہاں گہرے بھورے بال ہولے ہولے اُبھر رہے تھے اور چور نظروں سے غنودگی سے لڑنے کی ناکام کوشش میں مصروف مسافر کو دیکھا۔ بھیڑیوں کی ہوکیں گڑھےکےاتنےقریب سے آرہی تھیں، جیسے وہ یہیں کہیں ہوں، گڑھے کے کناروں پر دائرے میں بیٹھے ہوئے۔

وہ عورتیں اُس کی زندگی کا سب سے اہم حصّہ تھیں۔ ایک نےاُسےپال کربڑا کیا اور اُسے زندگی گزارنا سکھایا، جب کہ دوسری نے اُسے اپنے پیار سے بھر دیا۔ یہ پیار اُسے زندگی گزارنے میں ہر قدم پر کام آیا۔ وہ دونوں کا شُکرگزار تھا کہ انھوں نے اُسے زندگی کے دو رُخ دکھائے۔ ماں نے اپنی ممتا سے اُس کے اندر ایسا احساس بےدار کیا، جس کی بدولت وہ ہمیشہ اپنی ٹھوڑی اوپر کرکے چلا۔ وہ جانتا تھا کہ ماں نے اُس کے اندر ایک ایسا انسان آباد کردیا ہے، جو دوسروں کی مشکلات اور اُن کے احساسات کی زبان سے شناسا ہوگیا ہے۔ وہ اکثر سوچتا کہ ماں اُسے اگر دوسروں کے احساسات کا پاس رکھنا نہ سکھاتی تو وہ کبھی ایک کام یاب ناظم نہ ہوتا۔ 

اِسی صفت کی بنا پر اُس کے ماتحت ہمیشہ اُسے ایک مثالی اعلیٰ افسر سمجھتے۔ وہ اُس کے ہر حکم اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سر دھڑکی بازی لگادیتے۔ بیوی کے پیار نے اُسے دوسروں کو ایک ایسے زاویے سے دیکھنا سکھایا، جس سے وہ آشنا نہیں تھا۔ اُسے دوسرے انسانوں میں ہمیشہ اچھائی نظر آتی اور یہی اچھائی وہ ان کو بھی دکھاتا۔ ایک عام، زندگی کے مسائل میں جُتے ہوئے، آدمی کو وہ اس طرح ملتا کہ اس ملاقات میں وہ مسائل کے بار کو اُتار کر کسی خوابیدہ دنیا میں کھوجاتا اور ہمیشہ کا دَم بھرتا۔

دونوں عورتیں اس کی سوچ کو دو مختلف راستوں سے ایک ہی طرف لے جارہی تھیں۔ دونوں چاہتی تھیں کہ وہ ایک کام یاب آدمی بنے۔ اس کام یابی میں مادی وسائل میں اضافے کی بجائے دوسروں کے ساتھ تعلق میں توازن اور تعاون کو فروغ دینا تھا۔ وہ حیران ہوتا کہ مادہ پرستی کے اس ماحول میں وہ اتنا بےغرض کیوں ہے؟ وہ اپنے آپ کو مکمل سمجھتا۔ وہ جب اپنے اردگرد لوگوں کو ایک ہی درخت کے گرد چکر کاٹتے ہوئے خُود کو پکڑنے کی کوشش کرتے دیکھتا تو اُسے اُن کی رفتار پر حیرت ہوتی۔ 

وہ سوچتا کہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو پکڑنے کے بعد کیا کسی اور کو بھی پکڑنا ہے؟وہ سوچتا کہ یہ عورتیں اگر اس کی زندگی میں نہ آتیں تو وہ کس طرح کا انسان ہوتا؟ اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچتا کہ اُس نے ایک بےحس اور لاپروا شخص ہونا تھا۔ وہ دونوں کا شُکر گزار تھا کہ اُنھوں نے اُسے اوروں سے جداگانہ طریقے سے جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ اُسے کئی مرتبہ خیال آتا کہ اگر اُس کے اندر اتنا احساسِ ذمّےداری نہ ہوتا تو کیا وہ زندگی سے اتنا ہی لُطف اٹھاتا؟ وہ خُود ہی جواب دیتا کہ اِس احساس سے عاری آدمی زندگی سے کیسے لطف کشید کرسکتا ہے؟

وہ اپنی اِس سوچ کے باوجود اُن سے خوش نہیں تھا۔ وہ دونوں اُسے فتح کرنا چاہتی تھیں، اِس فتح میں اُسے شکست دینا مقصود نہیں تھا، وہ ایک دوسرے کو زیر کرنا چاہتی تھیں۔ اُس کے لیے وہ لمحے بہت اذیت ناک ہوتے، جب وہ دونوں عورتیں، جو اُسے زندگی کے آدرشوں کے ساتھ جوڑے رکھنا چاہتی تھیں، اُسے فتح کرنے کی کوشش میں بے اصولی پر اُتر آتیں۔ اُس وقت وہ عام سی گھریلو عورتیں بن جاتیں اور اُن کےزندگی کےآدرش دھرےکےدھرے رہ جاتے۔ 

وہ دیکھتا کہ اُس کی ماں ہر قسم کی دنیاوی دانش سےعاری اور بیوی پیار کے رس سے خالی ہو جاتی۔ وہ سوچتا کہ دونوں اُس سے کوئی بدلہ لینا چاہتی ہیں یا اُسے بے وقوف بنانا چاہتی ہیں۔ اُسے اپنا وجود کبھی گھر لگتا اور کبھی گھرکا ایک غیر اہم باسی۔ وہ سوچتا اِن دونوں میں سے گھر سے کسے پیار ہے اور باسی سے کسے؟ اگر ایک کو گھر کے ساتھ ہوا تو کیا اُسے باسی سے کوئی دل چسپی نہیں ہوگی؟اور اگر باسی سے ہوا تو اُسےگھر سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا، وہ جس گھرمیں بھی چاہےجاکررہے۔ 

یہ صورتِ حال اُس کے لیے الجھن میں تبدیل ہوجاتی۔ وہ اپنے وجود اور ذات کے موازنے میں غرق ہوجاتا۔ اگراُسے ایک موجود نظر آتا تو دوسرا معدوم ہوتا محسوس ہوتا اور جب دوسرا موجود ہوتا تو پہلا معدوم ہوجاتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ دونوں سے خائف ہے۔ اِس خوف میں دونوں کی شخصیت اور ذاتوں سے زیادہ اُس احترام کا دخل تھا، جس کے بوجھ نے اسے بےدم سا کیا ہوا تھا۔ وہ سوچتا، ایسا تو نہیں کہ یہ بوجھ اُس کی سوچ کے بیرونی منطقی بہاؤ کو روک کر اُس کا رخ اندر کی طرف کررہا ہو؟ اگر ایسا ہوگیا تو کیا زندگی کا وہ توازن، جس پراُسےمان تھا، برقرار رکھ سکے گا؟ وہ اس الجھن کو حل نہ کرپاتا تو ازسرِنو موازنہ شروع کردیتا۔

اس نے طے کیا کہ وہ چوبیس گھنٹوں کے لیے اپنےکمرے میں بند ہوکر اپنی اِس الجھن کا حل ڈھونڈے گا۔ وہ جانتا تھا کہ شدتِ ارتکاز سے گنجل حل کیے جاسکتے ہیں، ایسا کرنے والا وہ پہلاآدمی نہیں ہوگا، لوگوں نےاس عمل کو وسیع تر تناظر میں رکھتے ہوئے نظریات تراشے ہیں۔ ایک دن اُس نے سرسری طور پر اعلان کیا کہ اگلی صُبح سے وہ چوبیس گھنٹوں کےلیے اپنے کمرے میں بند ہورہا ہے۔ اُس کی بیوی اور ماں اِس بات پر حیران ہوئیں، لیکن خاموش رہیں، کیوں کہ وہ دیکھ رہی تھیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے اُس کے مزاج میں عجیب قسم کا چڑچڑا پن درآیا تھا اور اُنھوں نے یہ اعلان اس کی توسیع سمجھا۔ 

وہ مہمانوں کے کمرے میں منتقل ہوگیا اور رات وہیں سویا۔ اُس نے کمرے کو آرام دہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ وہ صُبح جاگ کر پھر سوگیا۔ اُس نے نہ اخبار لیا اورنہ پڑھنے کا مواد رکھا۔ اُس نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ دن کا کچھ حصّہ سوئے گا اور باقی وقت، خالی پیٹ، صُبح تک، اپنے مسئلے کا حل تلاش کرے گا… لیکن آٹھ گھنٹے سونے کے بعد وہ اُٹھا تو سوئے رہنے کی اکتاہٹ سے اُس نے خُود کو تھکا تھکا سا محسوس کیا۔ اُس نے سوچا، کیا اُس کا کمرے میں بند ہونے کا فیصلہ قبل ازوقت تو نہیں تھا؟ اکتاہٹ اور تھکاوٹ یقیناً اُس کے فیصلے پراثر انداز ہوں گی۔

چناں چہ اُس نے خود کو تازہ دَم کرنے کے لیے پھر سے سوجانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مزید دوگھنٹے سویا اور جب جاگا تو کمرے میں اندھیرا تھا۔ یہ عجیب سا اندھیرا تھا۔ باہر ابھی ہلکا سا اُجالا تھا، لیکن کمرے میں اندھیرا ایک ٹھوس وجود لیے تھا۔ اُسے لگا کہ اُس کی دیواریں اُس کے اِردگردبلند ہورہی ہیں اور اُسے ان دیواروں میں چُن دیا جائے گا۔ اُسے اپنا دَم گھٹتا محسوس ہوا۔ 

اُس نے مسہری سے اُتر کر سوئچ آن کیا تو بتی روشن نہیں ہوئی۔ اُسے لگا کہ وہ اپنی سازش میں خُود ہی پھنس گیا ہے۔ اُس نےکھڑکی کھول کر باہر دیکھنا چاہا، مگر وہ کھڑکی اور اپنے درمیان پڑی کرسی سے ٹکرایا، جس سے اُس کے گھٹنے پر چوٹ آئی اور اِس غیر متوقع چوٹ کا درد کافی شدید تھا۔ وہ کافی دیر تک اپنا گھٹنا سہلاتا رہا۔

اُسے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ پُراُمید ہوگیا کہ دونوں میں سے کوئی دروازہ کھٹکٹائے گی۔ وہ تیار ہوگیا کہ فوراً دروازہ کھول کر ان سے جاملے گا، لیکن وہ قدم پھر دُور ہوتے چلے گئے۔ وہ ٹانگ سہلاتا ہوا مسہری پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اُس نے اچانک خُود کو گوتم محسوس کرناشروع کردیا۔ اُسے یہ خیال مضحکہ خیز بھی لگا اور اِس میں منطق بھی نظر آئی۔ 

اُس نے آنکھیں بند کرکے خُود کو سدھارتھ محسوس کرنا شروع کردیا۔ اُس کے ارد گرد اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے میں سے روشنی کشید کر کے اس نے اپنے اندر لے جانا چاہی تاکہ اجالے میں اپنی الجھن کا حل نکال سکے، مگر باوجود کوشش کے وہ اپنے اندر روشنی نہ لے جاسکا اور اندر کے اندھیرے ہی میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ 

اُسے بیوی اور ماں ایک دوسرے کا پرتو لگیں۔ اُسے لگا کہ وہ اندھیرے کے بہاؤ میں بہے جارہا ہے اور وہ دونوں اُسے بلا رہی ہیں۔ اُسے ماں کے چہرے پر اعتماد نظر آیا۔ وہ حیران ہوا کہ وہ اندھیرے کے تیز بہاؤ میں بہے جارہا ہے اور ماں کےچہرے پرپریشانی کا نام ونشان تک نہیں۔ کیا ماں کو گھر سے پیار ہےاور گھر کا رہائشی کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟

اُس نے سوچا، کیا ماں اُسے بچانے کے لیے ہاتھ بڑھائے گی؟ لیکن وہ ہاتھ کیوں بڑھائے؟ وہ تو ایک رہائشی ہے اور ماں کو گھر سے پیار ہے۔ ماں خُود ایک گھر ہے اور وہ اس گھرکی توسیع ہے۔ گھر کی تعمیر مکمل ہوچُکی ہے، لیکن توسیع کی تعمیر پر ابھی کام جاری ہے۔ ماں جانتی ہے کہ اُس کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ توسیع کی تکمیل میں ابھی سال ہا سال درکار ہیں۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ماں آگے بڑھی، ساتھ ہی اُس نے محسوس کیا کہ اندھیرے میں سے روشنی اُس کے اندر کے اندھیرے میں گندھنا شروع ہوگئی ہے۔ 

وہ اندھیرے میں روشنی کے بنائے ہوئے سائے محسوس کرسکتا ہے۔ یہ سائے متحرک ہیں اور ماں ہرسائے کو پکڑ کر اُس کے گلے میں ڈال رہی ہے۔ کمرا روشن ہو جاتا ہے اور اِس روشنی میں اُسے بیوی نظرآتی ہے۔ وہ بیوی کوغور سے دیکھتا ہے۔ اُسےاس کے چہرے پر متضاد تاثرات نظر آتے ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں فریاد کا عکس تھا اور چہرے پر لاتعلقی۔

وہ حیران تھا کہ کیا ان منقسم جذبات سے وہ اُسے کنارے لگنے میں مدد دے سکے گی؟ ماں نے کمرے کو روشن کیا تھا تو بیوی نے اِس روشنی میں کئی رنگ بھر دیے ہیں۔ آنکھوں میں بسی فریاد کا نیلا رنگ روشنی میں، ماں کے پیٹ کے پانی میں بچے کی طرح تیر رہا ہے۔ لاتعلقی کا زرد رنگ ان سے بالکل الگ چھت کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ اُسے لگا کہ یہ رنگ آپس میں مل کر افعی خصلت ہوتے جارہے ہیں۔ اُسے لگا کہ جسم میں زہر سرایت کرنا شروع ہوگیا ہے۔ 

اُسے یاد تھا کہ سانپ کے ڈسے ہوئے کے لیے پہلی ہدایت ہوتی ہے کہ نیند کی کیفیت میں بھی جاگتا رہے، سو جانے کی صُورت میں دوبارہ آنکھ نہیں کُھلے گی۔ اُس کے پپوٹے نیند سے بھاری ہونے لگے۔ اُس نے سوچا سو جانا، مر جانا ہے۔ کیا وہ مر جائے؟ اگر وہ مرگیا تو اُس کی ماں اور بیوی کا کیا بنے گا؟ کیا مرجانے کے بعد بھی وہ اُن کا ذمّےداررہے گا؟ مرجانے کے بعد اُس کی رُوح کہاں جائے گی؟ کیا کسی نئے گھر میں یا پھر گھر کی تلاش میں بھٹکتی پھرے گی؟

اُسے گوتم پرجس نے انسانی مسائل کو کائناتی تناظر میں حل کرنا تھا، ترس آیا۔ اُس نے سوچا، گوتم کے سامنے کتنے مسائل تھے اور ہر مسئلے کا افعی اُسے کتنی بار ڈستا ہوگا؟ وہ تو صرف ایک ذاتی مسئلہ حل کرنے کے لیے چوبیس گھنٹوں کے لیے کمرے میں بند ہوا تھا اور اُس کی پوروں سے زہر ٹپکنے لگا۔ اُسے اندھیرے کی اینٹوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت لگا۔ اُسے لگا کہ اندھیرا کمرے کی چھت کو بھی اُس کے اوپر گرا رہا ہے۔ اُس نے وہاں سے بچ نکلنے ہی میں عافیت جانی۔ 

وہ تو کمرے میں ماں اور بیوی کے اپنے ساتھ رشتے کی بنیاد کھوجنے آیا تھا اور کمرے کے اندھیرے میں کسی اور سمت چل پڑا۔ وہ اُٹھا اور ٹٹولتا ہوا دروازے تک پہنچا۔ آہستگی سے چٹخنی کھولی اور باہرجھانکا۔ اُس کے کمرے کے علاوہ تمام گھرکی بتیاں روشن تھیں۔ وہ احتیاط سے چلتا ہوا آوازوں کی طرف گیا۔ اُسے لگا کہ وہ آوازوں تک ایک عُمر میں پہنچے گا۔ وہ کمرے کے سامنے رُک گیا۔ 

اندر ماں اور بیوی کسی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں۔ اُس نے قدم آگے بڑھایا اور اُن کے سامنے آگیا۔ وہ دونوں اُسے دیکھتے ہی خاموش ہوگئیں۔ اُسے لگا، شاید قہقہہ وہم ہو۔ پھر اُنھوں نےاُس کی طرف دیکھ کرایک دوسرے کو دیکھا۔ اُس نےدونوں کی آنکھوں میں بےضررساپیغام پڑھا، جو پرُمعنی تھا۔