• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تنگ سی پہاڑی پگڈنڈی سے سنبھل سنبھل کر گزرتے ہوئے ہم اَٹھ مقام کے نیلم پریس کلب پہنچے، تو وہاں پریس کلب کے صدر، جاوید اسد اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ اُن سے بات چیت شروع ہوئی، تو دورانِ گفتگو ’’آغا جان‘‘ کا ذکر آتے ہی اُن کی آواز بھرّا گئی، آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ اپنے جذبات پر قابو پاتےہوئے، چند ثانیوں بعد ہم سے دوبارہ ہم کلام ہوئے، تو وہاں موجود تمام افراد بھیگی پلکوں کے ساتھ اُن کی جانب متوجّہ ہوگئے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’’ہم قاضی صاحب کو نہیں بُھولے اور نہ کبھی فراموش کر پائیں گے۔ وہ اُس وقت بھی ہماری حوصلہ افزائی کے لیے آزاد کشمیر آتے تھے کہ جب باقی لوگ ہمیں بُھول چُکے تھے۔ وہ یہاں آکر کبھی انسانی ہاتھوں کی زنجیر بناتے، کبھی یومِ کشمیر مناتے اور کبھی وادی کے اُس پار موجود جوانوں کو یہ پیغام دیتے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ وہ ہماری دُعاؤں میں بستے ہیں اور ہماری خُوب صُورت یادوں کا حصّہ ہیں۔‘‘

ہم جماعتِ اسلامی کے حلقۂ خواتین کی جواں عزم قائد، ڈاکٹر حمیرا طارق کے سنگ آزاد جمّوں وکشمیر کی حسین وادیٔ نیلم پہنچے تھے۔ یہاں آنے سے قبل حمیرا نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر کے باشندے ’’قاضی صاحب کی بیٹی‘‘ سے ملاقات کے متمنّی ہیں اور انہوں نے ہم سے بطورِ خاص آپ کو ساتھ لانے کی فرمائش کی ہے اور پھر جب ہم نے یہاں مقامی باشندوں کا والہانہ استقبال اور خلوص و محبّت دیکھی، تو حمیرا کا شکریہ ادا کیے بغیر نہ رہ سکے۔ 

جماعتِ اسلامی کے حلقۂ خواتین کی ناظمہ، ڈاکٹر طلعت نے ہمیں آزاد کشمیر آنے کی دعوت دی اور ہم 4جولائی کو پَو پھٹتے ہی لاہور سے مظفرآباد عازمِ سفرہوئے۔ یاد رہے، جولائی کا مہینہ شہدائے کشمیر کی یادوں سے معمور ہے اور 8جولائی 2016ء کو ہونے والی بُرہان وانی کی شہادت سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کی پانچویں نسل بھی آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔

بہرکیف، مظفرآباد کی بہنوں نے ہمیں شمیم آپا کی میزبانی میں ٹھہرایا۔ وہاں سب سے پہلے ہم نے مظفرآباد کی تعلیم یافتہ، معزّز خواتین کے ایک اجتماع میں شرکت کی۔ ہرچند کہ ہمیں فیک نیوزکے اِس دَور میں یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ مقبوضہ کشمیر کی نوجوان نسل اب خود مُختار کشمیر کی حامی ہے، مگر یہ دیکھ کرخوش گوارحیرت ہوئی کہ اس اجتماع میں موجود لگ بھگ تمام لڑکیاں اور خواتین مقبوضہ وادی کے پاکستان سےالحاق کی خواہش مند تھیں۔ 

اس موقعے پر ڈاکٹر طلعت نے بتایا کہ ’’ہمیں جب بھی مقبوضہ کشمیر کے باشندوں سے گفتگو کا موقع ملتا ہے، تو وہ دست یاب سہولتوں کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے جواب میں ہم اُنہیں یہ باور کرواتے ہیں کہ دنیا میں آزادی سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ آزادی کے ایک لمحے پرغلامی کی ہزاروں راتیں قربان ہیں۔‘‘ پھر اُسی روز شام کے وقت ہم نے ایک ریڈیو چینل کو انٹرویو دیا، جس میں، مَیں نے اور ڈاکٹر حمیرا طارق نے آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں جماعتِ اسلامی کے حلقۂ خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی اور وادی کے دونوں اطراف کی نوجوان نسل سے وابستہ قاضی صاحب کی یادیں تازہ کیں۔ 

دورانِ انٹرویو مَیں نے بتایا کہ ’’حلقۂ خواتین، جماعتِ اسلامی نے وادیٔ کشمیر کے چپّے چپّے پر اپنے اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ ہمارے مخلص، بہادر کارکنان نے وادی کے کونے کونے میں اپنی بےمثال خدمت کی داستانیں رقم کی ہیں اور اِسی لیے لوگ ہر جگہ جماعتِ اسلامی کو خراجِ تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں جماعت اِک نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

اگلے روز نمازِ فجر کی ادائی کے بعد ہم نے اٹھ مقام کے سفر کا قصد کیا۔ مظفرآباد سے نکلے، تو اٹھ مقام کی جانب جانے والی واحد سڑک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند تھی اور شدید ٹریفک جام تھا۔ آمدورفت بحال ہونے میں کوئی دو گھنٹے لگے، تو اس دوران ہم قریبی ہوٹل میں ناشتے سے مستفید ہوئے۔ پہاڑ پر بنے اس سادہ سے ہوٹل میں کشمیریوں کی مہمان نوازی قابلِ دید تھی۔ راستہ کُھلنے کے بعد ہم خُوب صُورت وادیوں سے ہوتے ہوئے اٹھ مقام پہنچے۔ 

وہاں سب سے پہلے ہماری ملاقات الخدمت کے شعبے، آرفن کئیر کے انچارج، مہربان قریشی سے ہوئی، جن کے ساتھ یتیم بچّیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوں نے ہماری میزبانی کا حق بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ اس کے بعد ہم اُن یتیم بچّیوں کی باہمّت ماؤں سے ملے اور جب ہم نے انہیں دو چھوٹے چھوٹے یتیم بچّوں کے ساتھ اپنی زندگی کے سفر کا احوال سُنایا، تو اُنہوں نے ہم سے خُوب محبّت و عقیدت کا اظہار کیا۔ وہاں ہماری ملاقات اساتذہ کے ایک گروپ سے بھی ہوئی۔

اساتذہ سے احترام و محبّت سے معمور جذبات کا تبادلہ کرکےکیرن سیکٹرپہنچے، جہاں میزبان جماعتِ اسلامی کا نظم تھا۔ ساجد افغانی بھائی اور راجا امتیاز نے بے حد خیال رکھا۔ کیرن سیکٹر سے مقبوضہ کشمیر واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ نگاہ اُٹھا کے دیکھا، تو ترنگا لہراتا دکھائی دیا، جب کہ ساتھ ہی وادی کے اُس پار ایک مسجد بھی دیکھ کر ایک پاکستانی فوجی کمانڈر کی وہ بات یاد آگئی کہ ’’وہ سرحد کی دوسری جانب سے ہم پر گولا باری کرتے ہیں، مگر ہم جوابی فائر نہیں کر سکتے، کیوں کہ وادی کے اُس پار بھی ہمارے ہی لوگ اورہماری ہی مساجد ہیں۔‘‘

فوجی کمانڈر کی یہ جملے دماغ میں آتے ہی لبوں پر بے اختیار مشہور کشمیری نغمے کا وہ شعر مچل گیا کہ ؎ سِتم شِعاروں سے تُجھ کو چُھڑائیں گے اِک دن…اے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اِک دن۔ کنٹرول لائن پر واقع کیرن سیکٹر کا نام ہم نے ہمیشہ گولا باری اور ظلم و ستم کے حوالے ہی سے سُن رکھا تھا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ صرف ایک چھوٹے سے دریا اور ظالم بھارتی فوج نے کشمیری قوم کو دو حصّوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

اِسی کیرن کی حسین وادی میں "We love Neelum" کا سلوگن بھی دکھائی دیا۔ وہاں ہم نے ایک مقامی صحافی کو انٹرویو بھی دیا اور اس کے بعد ’’کشمیر فورم‘‘ کی نگراں، نصرت کے ساتھ اُس پورے علاقے کی سیر کی کہ جہاں کبھی ہمارے آباء واجداد نے اپنے قدم رکھے تھے۔ کیرن میں نماز ظہر و ظہرانے کے بعد اپنی گاڑی وہیں کھڑی کی کہ تاؤبٹ تک سفر کے لیے جیپ کا انتظام کیا گیا تھا۔

کنٹرول لائن کے قریب واقع سرحدی قصبات، کریم آباد، ہلمت اور تاؤبٹ کی جانب سفر کے لیے ہم نے رات کے وقت کا انتخاب کیا۔ تاریک آسمان پر چمکتا چاند، دمکتے ستارے اور شور مچاتا دریا دِل کو خُوب لُبھا رہے تھے۔ کریم آباد میں جماعت سے وابستہ مقامی افراد نے فائزہ بہن کی قیادت میں ہمارے لیے پُرتکلّف عشائیے کا اہتمام کیا، جب کہ لکڑی سے تعمیر کردہ روایتی کشمیری مہمان خانے میں رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ واضح رہے کہ جماعتِ اسلامی سمیت دیگر اسلامی تحاریک سے وابستہ خواتین پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی احسان ہے کہ اُنہیں دُنیا کے ہر ہر گوشے میں عزّت و احترام سے بھرپور رشتوں کا ساتھ میسّر ہے۔

کریم آباد سے ہم تاؤ بٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ اندازہ ہوا کہ تائو بٹ کی جانب جانے والی سڑک بہت ہی خستہ حال ہے۔ اس پر سفر کرتے ذہن میں بار بار یہی سوال اُٹھتا رہا کہ آخر اتنے اہم سرحدی علاقے کی سڑک اتنی خراب اورکچی کیوں ہے۔ نیز، ہم سے ملاقات کے دوران تائو بٹ کی مقامی خواتین صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی پر بھی شکوہ کُناں نظر آئیں۔

تو اس ضمن میں ہماری اربابِ اختیار سے دست بستہ درخواست ہےکہ یہاں کی سڑکوں، تعلیمی مراکز اور بنیادی مرکزِ صحت پر خصوصی توجّہ دی جائے اور مقامی افراد کو فی الفور صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ تاہم، خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں مسافروں اور مقامی افراد سے لُوٹ مار کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جب کہ مقامی باشندے مُلک کے دیگر علاقوں سے آنے والے افراد سے ملاقات کےدوران انتہائی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بہرکیف، ہم حبیب الله بٹ صاحب اور فائزہ بہن کی معیت میں تاؤ بٹ پہنچے اور وہاں دریائے گنگا کے کنارے، جو ہمارے ہاں دریائے جہلم کہلاتا ہے، ناشتا کیا۔ بعد ازاں، جماعتِ اسلامی کے مقامی نظم سے میٹنگ کی اور فائزہ بہن کی سربراہی میں جامعۃ المحصنٰت کی فارغ التّحصیل طالبات کی جانب سے منعقدہ دو روزہ تربیّتی پروگرام میں شرکت بھی کی۔ طالبات کے پُرجوش نعروں کی گونج میں پہلے ڈاکٹر حمیرا طارق اور ثمینہ سعید نے جوش و ولولے سے بھرپور خطاب کیا۔

آخر میں ہمیں دعوتِ خطاب دیتے ہوئے فائزہ بہن قاضی حسین احمد کا نام لیتے آب دِیدہ ہوگئیں۔ یوں کہیے، اِس پورے سفر کے دوران قدم قدم پر کشمیری بہنوں اور بھائیوں نے مُجھے یہی احساس دلایا کہ ہمارے’’آغا جان’’ آج بھی زندہ ہیں، جب کہ ایک موقعے پر ڈاکٹر حمیرا نے بہت خُوب صُورت بات کہی کہ ’’اگر آغا جان کی طرح ہم بھی زندگی بھر اِخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں گے، تو اللہ ہمیں بھی اُن ہی کی طرح ہمیشہ لوگوں کی دعاؤں میں زندہ رکھے گا۔‘‘

ہلمت میں آمنہ سلیم بہن نے اپنے نو تعمیرشُدہ ریسٹ ہاؤس، ’’راحت کدہ‘‘ میں چائے کی دعوت دی۔ ہم پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے جب اُن کے گھر پہنچے، تو اُنھوں نے بتایا کہ ’’ہمارے مستری کو جب یہ پتا چلا کہ قاضی صاحب کی بیٹی آرہی ہیں، تو وہ آپ سے ملاقات پر مُصر ہوگیا۔‘‘وہ مستری دروازے پر آیا اور نظریں جُھکائے سلام کرنے کے بعد رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگا کہ’’آپ کی آمد کا سُن کر قاضی صاحب بہت یاد آئے۔ وہ ہم سے اپنے بچّوں کی طرح پیار کرتے تھے اور مَیں نے جدوجہدِآزادیٔ کشمیر میں ایک طویل عرصہ اُن کے زیرِ سایہ گزارا ہے۔ قاضی صاحب نے ہمیں حریّت کا درس دیا تھا اور کشمیر کی آزادی کے لیے اُن کے جلسے جلوس اور تقاریر مُجھے آج تک نہیں بُھولیں۔‘‘ 

وہ اپنا ماضی دہرا رہا تھا اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ہمارے آغا جان نے ساری زندگی محبّت و اخلاص، جرات و ہمت ہی کے بیج بوئے اور آج ہم اُن ہی درختوں کا یہ میٹھا پھل کھا رہے ہیں۔ اُن کی اصل وراثت تو جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے لیے دن رات ایک کرنا، اور اِس مشن سے وابستہ خالص جذبات و احساسات ہیں، جو ہمیں مُلک بَھر کے طُول و عرض اور بیرونِ مُلک بھی جگہ جگہ چمکتے موتیوں کی مانند بکھرے ملتے ہیں۔‘‘

ہلمت سے ہم شاردا پہنچے، جو ہندوئوں کا ایک مقدّس مقام ہے۔ وہاں عنایت علی قاسمی بھائی کے ہونہار بیٹے، زعیم نے اصرار کیا کہ ’’آپ پہاڑی پرچلیں۔ وہاں اشوکا کے زمانے کی شاردا یونی ورسٹی کے آثار موجود ہیں۔‘‘ تو بالآخر ہم نے زعیم کی ہمّت افزائی کے سبب چوٹی سَر کرکےاُس تاریخی مقام کی سیرکر ہی لی۔ واپسی پر ایک چشمے میں چارپائی پر بیٹھ کر طلعت اور ثمینہ کے ساتھ پکوڑے کھائے اور پھر فائزہ بہن اور عنایت بھائی کی معیّت میں الخدمت فاؤنڈیشن سے وابستہ شہزاد اسلم کےگھر قیام کیا۔ وہاں اُن کے اہلِ خانہ نے روایتی کشمیری کھانوں سے بہترین مہمان نوازی کی۔

اگلی صبح اٹھ مقام یونی ورسٹی میں نوجوانوں کی کردارسازی سے متعلق کانفرنس سے خطاب کیا اور پھر نیلم پریس کلب میں مقامی صحافیوں سے تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ اُن کے ذہنوں میں اُٹھنے والے کئی سوالات کے جواب دیے۔ اس موقعے پرصحافیوں نے جماعتِ اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات کی تعریف و توصیف کے ساتھ ہماری توجّہ سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کی جانب بھی مبذول کروائی کہ حکومتِ پاکستان اور حکومتِ آزاد کشمیر دونوں کو اِس سرحدی مقام کی طرف توجّہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیلم پریس کلب سے واپسی پر الخدمت کے لوئر نیلم کے ذمّے دار، ملک ظہور حسین نے ظہرانہ دیا اور قریب ہی چلہانہ سیکٹر پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے جھنڈوں کے سائے میں وقت گزارا۔

ہمارے سامنے مقبوضہ کشمیر کے ٹیٹوال نامی قصبے پر ترنگا لہرا رہا تھا اور پہاڑی پر’’کشمیر بنے گا ہندوستان‘‘ لکھا تھا۔ یہ دیکھ کرمنہ سے بے اختیار نکلا کہ ’’تمہارے منہ میں خاک… ہمارے علی گیلانی بابا کہتے تھے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ اور ہم اُن کی بیٹیاں یہی کہتی ہیں کہ ’’ہم کشمیری ہیں۔ کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔‘‘