• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصلی مشہورِ عام انگریزی پھبتی تو ہے Its the economy stupid مگر تضادستانی حالات میں مڈل کلاس اور لوئر کلاس کا آج کا بڑا مسئلہ بجلی اور سولر پینل ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کا یہ سب سے بڑا معاشی، سیاسی اور ذاتی مسئلہ، حکومت نے کنفیوژ کرکے رکھا ہوا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ حکومت سولر کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کیونکہ سولر پینل پر ٹیکس کم کیا گیا مگر چندہی دنوں کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو سولر پینل انرجی سےکوئی مسئلہ ہے چنانچہ وہ کبھی سولر لگا لینے والوں کا فی یونٹ ریٹ کم کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، کبھی اس بجلی پر ٹیکس بڑھادیتی ہے ۔ کبھی واپڈا کی بجلی ضائع جانے کا نام لیکر سولر لگانے والوں کے خلاف پالیسیاں بناتی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں اگر حکومت کو نا اہل نہیں تو کم ازکم کنفیوژڈ تو کہنا پڑے گا۔

پچھلی چند دہائیوں کی سیاست دیکھ لیں جب بھی کوئی سیاسی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو وہ اس وقت کے سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنے میں جُت جاتی ہے کیونکہ اگر وہ اس چیلنج سے عہدہ برا ٓہوگئی تو اس کی مقبولیت بڑھ جائے گی اور ساکھ قائم ہو جائے گی۔ محمد خان جونیجو، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے سائے میں وزیراعظم بنے ان پر مارشل لاکے گناہوں کا داغ تھا مگر انہوں نے پہلی ہی تقریر میں مارشل لا سے چھٹکارا حاصل کرنے کا عندیہ دے دیا اور پھر اپنی آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد شروع کردی۔ محترمہ بینظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو ان کا بڑا مسئلہ جمہوریت کی بحالی اور جمہوری اقدار کو مضبوط کرنا تھا انہوں نے اس حوالے سے بہت عرق ریزی سے کام کیا ۔نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے معیشت میں اصلاحات کیں اور اس میں نام کمایا کہ یہ اُس وقت کا بڑا مسئلہ تھا۔ جنرل مشرف آئے تو انہوں نے امریکہ کا اتحادی بن کر القاعدہ سے لڑائی کی اور روشن خیالی کو فروغ دینے کی کوشش کی ۔ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت آئی تو انہوں نے صوبائی حقوق اور جمہوری حقوق بڑھانےکیلئے اٹھارہویں ترمیم کی، بینظیر بھٹو کی شہادت کی تفتیش اقوام متحدہ سے کروائی۔نواز شریف تیسری بار آئے تو انہوں نے معیشت پرتوجہ دی اور موٹر ویز میں اضافہ کیا ۔عمران خان آئے تو انہوں نے ہیلتھ کارڈ دیکر غریبوں کے علاج کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔ موجودہ حکومت آئی تو بجلی کی قیمت اس قدر بڑھ چکی تھی،عام لوگوں کو بجلی کی قیمت میں کمی کی توقع تھی نہ اپنی آمدنی بڑھانے کا کوئی وسیلہ تو انہوں نے اپنی بچت سے اور بعض نے قرضوں کی مدد سے سولر لگا کر اس کا حل نکالا ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک اس کا منصفانہ حل پیش نہیں کیا۔ کبھی فیول مہنگا ہونے کا بہانہ، کبھی آئی ایم ایف کی شرط کا بہانہ اور کبھی کچھ اور۔یہ مسئلہ اس قدر شدت اختیارکرچکا ہے کہ اس مسئلہ کی سنگینی کوسمجھنے والے ایک سابق سیکریٹری توانائی نے کہا ’’سولر کا مسئلہ بھڑوں کا چھتہ بن چکا ہے مڈل کلاس اس مسئلے کو منصفانہ طور پرحل نہ کرنے والے کوکبھی معاف نہیں کرے گی‘‘ مڈل کلاس جو سیاسی بیانیے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہ اس معاملے میں بے حد حساس ہے مگر حکومت کےکان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، معلوم نہیں وہ کس معاملے میں اتنی مصروف ہے کہ ملک کےسب سے بڑے مسئلے کا حل نہیں نکال سکی۔ جس محفل میں بھی جائیں یہ سننے کو ملتا ہےکہ حکومت بیانیہ نہیں بناسکی۔ حکومت کا کوئی اقدام زمینی حقائق کو نہیں بدل رہا۔ جنگ میں فتح کے باوجود، سیاسی حقائق نہیں بدلے، معیشت میں استحکام آیا ہے لیکن اس پر کوئی تالیاں بجانے کوتیار نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت عوامی ترجیحات کو جاننے ، پہچاننے اور تسلیم کرنے سے انکاری ہے تو وہ اس مسئلے کے حل کی طرف آگے کیسے بڑھے گی؟

موجودہ مخلوط حکومت محض دو سیاسی جماعتوں کا اتفاق نہیں یہ دو متضاد معاشی پالیسیوں کا بھی انضمام ہے گو آج کی دنیا نظریات کی دنیا نہیں مگر پھر بھی پیپلزپارٹی کی معاشی سوچ میں سوشلزم کا تڑکا ہے اور نون لیگ کی سیاست میں مارکیٹ اکانومی کا غلبہ ہے ۔اگر پیپلزپارٹی بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کیلئے سرکاری نوکریاں دیتی رہی ہے تو نون لیگ سرکاری کارپوریشنز سےزائد افراد نکال کر معیشت پر بوجھ کو ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی غریب اور مزدور کی حمایتی تھی تو نون لیگ صنعت کار اورسرمایہ کار کی حامی تھی۔ جب تک پارٹی اور حکومت کی زمام کار نوازشریف کے ہاتھ میں رہی وہ حکومت کی پہلی اور آخری ترجیح معیشت کو دیتے رہے انہیں شدت سے احساس تھا کہ مقبول سیاست، خوشحال معیشت سے جنم لیتی ہے ۔ وہ Its the economy, stupidکو ہمیشہ مدنظر رکھتے رہے مگر آج کی وفاقی حکومت ماضی کی قوت متحرکہ اور قوت نافذہ سے مکمل طور پر محروم نظر آتی ہے۔

حکومت کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف نے کڑی شرائط لگا رکھی ہیں اور حکومتی فیصلہ سازوں کے ہاتھ بند ھے ہوئے ہیں ،جب حکومت سے موجودہ بجٹ میں نظر آنے والی مایوسی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ صاف جواب دیتی ہے کہ اگلے دو تین سال میں کسی بڑے ریلیف کا امکان نہیں جب تک ملکی معیشت دستاویزی شکل نہیں اختیار کرتی، خرچ کم نہیں کئے جاتے اس وقت تک خوشحال معیشت کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا مگر مقتدرہ کی خواہش اور کوشش ہے کہ اگلے تین ماہ میں غیر ملکی زرمبادلہ میں ڈرامائی اضافہ ہو۔ دیکھئے اصل میں کیا ظہور میں آتا ہے۔

موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ اور توقع ہے کہ وہ فوری طور پر بجلی کی قیمتوں اور سولر پینل کے ایشو پر غور و خوض کرکے کوئی منصفانہ و دیرپا حل نکالے ۔روز روز کی بدلتی پالیسیاں سولر پینل لگانے والے لاکھوں شہریوں کو مایوس کررہی ہیں بعض کوآپریٹیو سوسائٹیاں، جیسے ماڈل ٹائون ،جو واپڈا سے بجلی خریدتی ہیں وہ سولر پینل کی شدید حوصلہ شکنی کررہی ہیں کیونکہ کوآپریٹیو سوسائٹیوں کو سولر پینل والوں سے بجلی خریداری پر مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے میری رائے میں اس معاملے پرحکومت عوام اور متعلقہ اداروں پرمشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنائے اور اس کی سفارشات کی روشنی میں اس شعبے میں انقلابی تبدیلی لائے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت (AI) میں چین، امریکہ سے آگے نکل رہا ہے کیونکہ چین کے پاس امریکہ سے و افر بجلی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مراکز کو چلانے کیلئے ڈیٹا سنٹرز کی ضرورت ہوتی ہے جو بجلی بہت خرچ کرتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ اپنی واٹربجلی مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹر کو فراہم کرے اور گھریلو صارفین اور سولر استعمال کرنے والوں کو سستی سے سستی بجلی دے ،بجلی کے جو دام واپڈا لیتا ہے اس کے مناسب تناسب سے واپڈا بھی اتنے ہی دام سے سولر صارفین سے بجلی خریدے۔ اگر یہ نہ ہوا تو سولر کا پھندا موجودہ حکومت کے گلے میں پڑسکتا ہے....

تازہ ترین