مڈل ایسٹ کے تازہ منظرنامے کی تصویر کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ یہاں دسمبر 2024ء میں شامی صدر بشارالاسد کا تختہ الٹائے جانے کے بعد اسرائیل خطے کی ایک منی پاور کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ اس نے لبنان میں مضبوط ایرانی پراکسی حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کو اگلی دنیا میں بھیج دیا۔ غزہ میں حماس کی طاقت کو کچلنے کے لیے وہ عالمی تنقید کے باوجود غزہ میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی سے بھی گریز نہیں کررہا۔ لبنان اور شام جیسے عرب ہمسایہ ممالک پر حملے کرتے ہوئے وہ 13 جون کو ایران جیسے بڑے ملک پر بھی چڑھ دوڑا اور ابھی 15 جولائی کو اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر شام پر چڑھائی کرتے ہوئے دمشق میں صدارتی محل کے قریب واقع وزارت دفاع اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر پر تابڑ توڑ حملے کیے ہیں جن میں اگرچہ انسانی ہلاکتیں تو زیادہ نہیں ہوئیں تین افراد ہلاک اور اٹھارہ زخمی ہونے کی رپورٹ آئی مگر یہ شامی حکومت کو خوفزدہ کرنے کی کارروائی ضرور قراردی جاسکتی ہے کیونکہ ترکی نے شامی صدر احمد الشرع کو محفوظ مقام پر پہنچانے کا اہتمام کیا اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر سفارت کاری کرتے ہوئے امریکی دباؤ کے تحت فوری جنگ بندی کروائی۔ یہ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کا دباؤ ہی تھا کہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے ہنگامی طور پر تمام فریقین سے رابطہ کرتے ہوئے نہ صرف فوری جنگ بندی کروائی بلکہ مستقبل کے لیے ایک لائحہ عمل بھی طے کیا گیا تاکہ آنے والے دنوں میں ایسی صورتحال کے احتمال کو روکا جاسکے۔ اب آتے ہیں اس سوال پر کہ یہ تازہ جنگی صورتحال پیدا کیوں ہوئی؟ نئی شامی قیادت جس کے صدر ابومحمد الجولانی یا اپنے اصلی نام کے ساتھ احمد الشرع سابق صدر بشارالاسد کا تختہ الٹتے ہوئے ایک انقلاب کے ذریعے برسرِ اقتدار آئے ہیں سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ حافظ الاسد کے بعد بشارالاسد کا بھی شام میں بدترین استبداد قائم تھا جو بھاری سنی میجارٹی کے بالمقابل ایک چھوٹی علوی شیعہ مینارٹی کے نمائندے تھے یوں ان کمزور بنیادوں پر استوار اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے انہیں مسلح عسکری کارروائیوں کے ذریعے جبر کا حربہ اپنانا پڑتا پچھلے قریباً 14 برسوں سے شام میں ایک طرح سے خانہ جنگی کا ماحول تھا۔ الشیخ احمد الشرع کا ماضی القاعدہ اور داعش سے ہوتے ہوئے ایک دہشت گرد تنظیم النصرہ فرنٹ سے منسلک ہے یہ تنظیم جس نوع کی جہادی کارروائیاں کرتی تھی انہی کے باعث امریکا نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر اناؤنس کر رکھی تھی۔اب جب ترکی اور سعودی عرب کے تعاون سے دمشق نئے انقلاب سے بہرہ ور ہوا ہے تو ایک لحاظ سے پورا منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔امریکی صدر ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب آئے تو کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے نہ صرف شامی صدر احمد الشرع سے ان کی ملاقات کا اہتمام کروایا بلکہ شام پر عائد تمام امریکی پابندیاں اٹھوانے کا مطالبہ بھی منوالیا۔ جس سے یہ امر واضح ہوا کہ مستقبل میں شام کے اسرائیل سے تعلقات مصر اور جارڈن جیسے تشکیل پائیں گے۔ اس پس منظر میں شام پر حالیہ اسرائیلی حملہ اپنا کوئی جواز نہیں رکھتا۔ لیکن آئیے ہم تصویر کا دوسرا رُخ ملاحظہ کرتے ہیں ۔شام پر حالیہ اسرائیلی حملے کا باعث دروز پر شامی فورسز کا دھاوا ہے۔ ہوا یہ کہ 13جولائی کو ایک دروز تاجر کو السوید میں بدو قبائل نے اغوا کرلیا جس پر دروز اور بدوئوں میں کشیدگی خاصی بڑھ گئی۔ نتیجتاً شامی سرکاری فورسز السویدہ میں داخل ہوگئیں اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ انہوں نے بدوئوں کی حمایت کرتے ہوئے دروز پر سخت حملے کیے یوں 360 کے قریب لوگ مارے گئے اور مرنے والوں کی بھاری تعداد دروز کی تھی جس پر گولان ہائٹس کے دروز نے اپنے شامی دروز بھائیوں کی مدد کے لیے شام میں گھسنے کی کوشش کی لیکن اسرائیلی قیادت نے ان سے کہا کہ تم لوگ اس طرح شام میں گھسے تو اغوا بھی ہوسکتے ہو اور اپنا جانی نقصان بھی کرواسکتے ہو۔ تمہارا یہ غصہ ہم خود شامی قیادت پر نکالتے ہیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسرائیلی قیادت سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرواتی اسرائیل کے جنگجو انتہا پسند ڈیفنس منسٹر نے السویدہ کو چھوڑ دمشق پر یلغار کردی یوں معاملہ سعودی عرب اور ترکی کے ذریعے امریکا تک پہنچا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ دروز کون لوگ ہیں اور اسرائیل سے ان کا کیا تعلق ہے؟ جس کی وجہ سے اسرائیل ان کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے چاہے ابو محمد الجولانی پر حملہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ دروز بنیادی طور پر نصیری علویوں کی طرح شیعہ کا ہی ایک ترقی یافتہ فرقہ قرار دیا جاتا ہے جس کا ظہور 11 وی صدی عیسوی کے دوران مصر میں اس وقت ہوا جب وہاں شیعہ فاطمی حکومت الحاکم کی امامت میں برسرِ اقتدار تھی، اسی کے امراء میں سے ایک حمزہ بن علی نے اسے خوب بڑھاوا دیا۔ محمد بن اسمٰعیل الدرزی کی مناسبت سے اس فرقے کا نام دروزی مشہور ہوگیا۔ الحاکم کو ان لوگوں نے خدا کا اوتار قرار دیا اور مہدی بھی جن کا آخری زمانے میں دوبارہ ظہور ہوگا، دروزی اپنے خلوت خانوں میں نمازوں کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن روزوں کی افادیت سے انکاری ہیں زیادہ تر عبادات دن کی بجائے راتوں کو کرتے ہیں، ان کی آزاد فکری اور انوکھے عقائد کے کارن راسخ العقیدہ مسلم عالم امام ابن تیمیہ نے اپنے دور میں انھیں اسلام سے خارج کردیا تھا، جبکہ فاطمید کی بنائی ہوئی عالم اسلام کی قدیمی لیکن ماڈریٹ یونیورسٹی جامعہ الازہر نے انھیں شیعہ اسلام ہی کا ایک فرقہ قرار دے رکھا ہے تاہم انکے عقائد خاصے دلچسپ ہیں جو اسلامی کے ساتھ ساتھ قدیم ایرانی، یونانی، ہندی اور یہود فلاسفی کا امتزاج ہیں۔