میرا ایک دوست جسے ہم پیار سے بغلول کہتے ہیں بہت مزے کا کردار ہے۔ یہ خاصا کھاتا پیتا نوجوان ہے لیکن اس کی سوچ بہت غریبانہ ہے۔ اس کا واحد مشغلہ بڑے لوگوں سے تعلقات استوار کرنا ہے۔ جس دن یہ بہت خوش نظر آئے سمجھ لیں یہ کسی وزیر سے ہاتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں علاقے کے تھانیدار سے لے کر صوبے کے گورنر تک کے ساتھ کھنچوائی ہوئی تصویریں آویزاں کی ہوئی ہیں۔ اس نوع کی تصویروں کے لیے اسے ہر دفعہ ’’مسلح جدوجہد‘‘ کرنا پڑتی ہے۔ اس کا اسلحہ اس کی وہ سوئی ہے جو اس نے قمیص کے کالر میں پیوست کی ہوتی ہے۔ یہ جب کسی بڑے آدمی کو لوگوں کے ہجوم میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ مجمع کو کہنیاں مارتا ہوا اس کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر یہ کہنیاں کام نہ آئیں تو وہ کالر میں سے اپنا ’’اسلحہ‘‘ نکالتا ہے اور اپنے سے آگے کھڑے کسی اور بغلول کو چبھو دیتا ہے اور یوں اپنی جگہ بناتا ہوا بڑے آدمی کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ موقع ملے تو بڑے آدمی کے کاندھوں پر دوستانہ انداز میں ہاتھ بھی رکھ دیتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کی کمر میں ہاتھ ڈالنے سے بھی باز نہیں آتا مگر ہجوم میں گھرا ہوا بڑا آدمی اس وقت بے بس ہوتا ہے۔ جس کا اندازہ اس ایک تصویر سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں ہمارے بغلول نے بڑی بے تکلفی سے اس کی گردن میں اپنا بازو حمائل کیا ہوتا اور اس بڑے آدمی نے غصے سے اپنے دانت بھینچے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک وزیر مذہبی امور نے یہ کہہ کر اس کا ہاتھ جھٹک دیا کہ میری آپ سے بے تکلفی ہو سکتی ہے مگر میرے دائیں کاندھے کے اس فرشتے سے نہیں جو میری نیکیاں نوٹ کر رہا ہے آپ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے فرائض منصبی میں مداخلت کر رہے ہیں۔ لہٰذا کیمرے کی فلیش سے پہلے فوراً اپنا ہاتھ ہٹا لیں۔‘‘
بغلول کو بڑے لوگوں کیساتھ تصویریں کھنچوانے کا شوق بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اس کیلئے اسے وقت دینا پڑتا ہے فوٹو گرافر کو لفافہ دینا پڑتا ہے تاکہ وہ اس نوع کا کوئی سنہری موقع مس نہ کرے۔ کہنیاں مارنی ہی نہیں کھانا بھی پڑتی ہیں۔ ایک دفعہ کسی اس سے بڑے بغلول نے اس کی ’’وکھی‘‘ میں ایسی کہنی ماری کہ اس کی چیخ نکل گئی۔ جس پر سیکورٹی والے اسے پکڑ کر لے گئے کہ شاید یہ کسی قسم کا سگنل تھا جو دہشت گردوں کو دیا گیا تھا۔ بغلول کے دو بہنوئی خود بڑے آدمی ہیں جو اس تصویر کھنچوانے کے شوق کا ’’شاخسانہ‘‘ ہیں۔بغلول بنیادی طور پر بہت بھولا بھالا اور نیک دل انسان ہے نہ سگریٹ پیتا ہے نہ شراب پیتا ہے۔ نہ جوا کھیلتا ہے اور نہ پھجے کے پائے کھانے بازار حُسن جاتا ہے۔ اس کا واحد شوق وہی ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اور اس سے بھی وہ کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھاتا بلکہ اُلٹا اس کی اپنی جیب سے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ اسے دوستوں نے کئی دفعہ کہا بھی ہے کہ اگر تم نے بدنامی مول لینا ہی ہے تو اپنی اس بدنامی کو کیش بھی کرائو۔ کہنیاں کھاتے ہو، فوٹوگرافی کےلئے ترلے کرتے ہو اور یوں مذاق کا نشان بنتے ہو۔ تو کیا حرج ہے۔ تم ان بڑے لوگوں سے کوئی فائدہ بھی اُٹھا لو مگر وہ ہمیشہ اس کے جواب میں ہنس دیتا ہے اور کہتا ہے اگر کسی کو ٹکٹیں جمع کرنے کا شوق ہو، باغبانی کا شوق ہو، فوٹو گرافی کا شوق ہو تو کیا تم اسے بھی یہی مشورہ دو گے جو مجھے دے رہے ہو؟ واقعی شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔
گزشتہ روز بغلول میرے پاس آیا تو بہت خوش تھا۔ میں نے اس کی غیرمعمولی خوشی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا پہلے پاکستان کو کوئی بڑا ملک لفٹ نہیں کراتا تھا۔ اب سب اس کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔ روزانہ کوئی نہ کوئی بڑا آدمی اسلام آباد آیا ہوتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان جرمنی، ہالینڈ ان سب کے صدر وزیراعظم، چانسلر، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، سیکرٹری خارجہ کون سا بندہ ہے جو ان دنوں اسلام آباد نہیں آیا۔ میں نے کہا برادرم کسی دکان سے سستا سودا ملتا ہو تو سب اس کا رُخ کرتے ہیں۔ ویسے بھی چین اور ایران وغیرہ نے سامراجیوں کے لیے اپنی دکانوں کو تالے لگا رکھے ہیں۔ لے دے کے علاقے میں ایک ہی دکان کھلی ہے گاہکوں کا رش تو ہونا ہی تھا۔
بغلول نے میری بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ’’یار! کوئی طریقہ بتائو، ان بڑے آدمیوں کے ساتھ تصویر کیسے اُتروائی جا سکتی ہے؟‘‘میں نے کہا ’’یہ تو ممکن نہیں کیونکہ ان کی سیکورٹی بہت سخت ہے لیکن کیا تم صرف بڑے آدمیوں کے ساتھ تصویر اُتروانا چاہتے ہو یا اہم لوگوں کے ساتھ بھی تصویر اُتروا سکتے ہو؟‘‘
کہنے لگا ’’اہم لوگ ہی تو بڑے ہوتے ہیں اگر ہو سکے تو ان کے ساتھ میری تصویر کا انتظام کر دو۔‘‘
میں نے جواب دیا ’’کس خاص اہتمام کی ضرورت نہیں تم غزہ جائو اور پتہ کرو زخمی ہونے والے پھول سے بچے کس ہسپتال میں ہیں تم ان بچوں کے ساتھ اپنی تصویر اُتروانا یہ تمہاری البم کی سب سے قیمتی تصویر ہوگی۔‘‘