سو سال پہلے بارش کو شاعری کا موضوع صرف نظیر اکبر آبادی ہی نے نہیں بنایا بلکہ دوسو سال پہلے ساون کا استعارہ ، لوک گیتوں اور فلمی گانوں میں بھی ملتا تھا۔ پرانے لوک گیت لکھے کم ہی ملتے ہیں البتہ نسل در نسل، زبانی یاد میں منتقل ہوتے رہے ہیں۔ میں ایسی سب پرانی کہاوتیں پہلے عینی آپا سے پوچھتی تھی اور اب زہرہ آپا، ایسی ہی کہاوتیں میری اماں بھی بتاتی تھیں۔ پرانے زمانے میں گھر گھر چکی ہوتی تھی اور گیہوں اور دوسری اور چیزوں کو چکی پہ پیسنے کے لئے دو عورتیں آمنے سامنے بیٹھ جاتیں اور اپنی زبان میں دکھ سکھ کی باتیں کرتیں- ہماری ادبی تاریخ میں یہ پرانی کہاوتیں اب سب امیر خسرو کے دامن میں ڈالدی گئی ہیں۔ ثقافتی طور پر ، جب بادل گھر کر آتے تو بڑی بوڑھیاں آواز لگاتیں، لڑکیوں بالیوں چلو کڑھائی چڑھاؤ، بیسنی آٹا گوندھو۔ آلو اور دال کے پراٹھے بناؤ، اور گاؤں میں عورتیں گاتیں، ’’اب کے سجن گھر آجا‘‘ ٹھمری کی شکل میں مختار بیگم اور کجن بیگم نے بہت دفعہ گایا ہے۔ فلمی گانوں میں ساون کے بادلو ان سے جاکہیو، توے والے ریکارڈوں میں ’’رم جھم برسے پھوار ، اور باغوں میں جھولے پڑے اور نظیر اکبر آبادی نے ، نصاب میں پڑھائی جانے والی نظم کیا کیا مچی میں یارو برسات کی بہاریں۔ ایسی نظم کے مزاحیہ حصے میں یہ بھی آتا ہے کہ کوئی گلی کوچے میں بارش میں پھسل گیا۔ فلمی گانوں میں ’’ساون آیا تم نہیں آئے‘‘ ہمارے عہد کے شاعر نے لکھا… چھتوں پہ کھلے سر نظر آئیں لڑکیاں (شاید غلط) بلکہ مصرعہ یوں ہے کہ چھتوں پر کھلے پھول برسات کے‘‘ ۔لہریا دوپٹے رنگنے اور پھر انکو چننے کے لئے لڑکیاں بیٹھتی اور دریا کے کنارے رہنے والے نوجوان اور بچے بارش کے پانی میں نہاتے اور بہت لوگ دریا یا نہر کنارے بیٹھ کر آم چوسا کرتے تھے اور عورتیں گاتی تھیں‘‘ اماں! میرے باوا کو بھیجوری کہ ساون آیا۔ پھر جواب آتا ’’باوا تیرا بوڑھاہے‘‘ جوب آتا۔ میرے بھیا کو بھیجو ساون آیا‘‘۔ہم نے اپنی جوانی کے زمانے میں برسات میں مور کو ڈانس کرتے اور ملہار پہ میں نے ناہید صدیقی اور فصیح کو باقاعدہ رقص کرتے، بادلوں کو گھیر کے آتے اور امانت علی خان کو ملہار گاتے ، ریڈیو اور ٹی وی پر سناہے۔میں نے خودپی این سی اے میں جب ساونی شام رکھی تو خواتین کو کہا کہ آپ سب دھانی دوپٹے اوڑھ کر آئیں۔ سارے شہر میں سب ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں کہ دھانی رنگ کیا ہوتا ہے۔ اسی طر ح کسی نے پوچھا ’’کیا بڑے غلام علی آرہے ہیں۔ میں نے حیرت سے طنز کیا ‘‘ آپ ان سے ملے ہیں’’بولے ‘‘آپکی طرح کی ایک خاتون گارہی تھیں باغوں میں پڑے جھولے۔ تم بھول گئے ہم تم کو نہیں بھولے۔ میں نے ہنس کر بات درگزر کی۔ یہ بات تو 25سال پہلے کی تھی آج تو گانے والے بہت سے باجے بجوا کر آواز چھپالیتے ہیں۔ مگر پھر بھی نئے گانے والے آج بھی گاتے ہیں’’آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘
آواز تک بات لکھی تھی کہ ریڈیو یہ خوبصورت آوازوں میں یاسمین طاہر کی یاد آئی جو کل ہم سے جدا ہوگئی۔ یہ وہ آواز تھی جسے ساری دنیا کے لوگ خاص فوجی بھائی روزانہ شام ساڑھے پانچ سناکرتے تھے یاسمین کے پروگرام ہی میں میڈم نے صوفی صاحب کے لکھے ترانے گائے تھے۔ ہم سب لوگ ریکارڈنگ کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر میڈم کو گاتے ہوئے دیکھتے اور صوفی صاحب کے لئے فرمائشیں آتیں کہ میڈم یاسمین کا بہت اچھی باتیں کرنے کے لئے وقت بڑھادیا جائے۔ یاسمین طاہر، اس خاندان کی اولاد تھیں کہ جنکے والد سید امتیاز علی تاج تھے اور والدہ حجاب امتیاز علی ۔تاج صاحب اور رفیع پیر… دو اہم آوازیں اور شخصیات جن سے میں کیا کئی نسلوں نے شائستہ ادائیگی سیکھی۔ تاج صاحب نے گورنمنٹ کالج کےدنوں میں انار کلی ڈراما لکھا جس پر اپنے اپنے طور پر بہت سے ہدایتکاروں نے فلمیں اور اسٹیج ڈرامے بنائے جبکہ رفیع پیر کا ریکارڈ’’ اکھیاں‘‘ اب تک دہرایا جاتا ہے۔ بہت لوگ پیر صاحب کی طرح ادائیگی کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر ہر ایک کو ہنر آتا ہوتا تو اسکو میرے زمانے کے لوگ آج تک یاد کرنہ رہے ہوتے’’ آدھی رات کو آدھا چاند ‘‘ لکھنے والے چلے گئے۔جانے والی یاسمین نے اپنے والدین سے لکھنا نہیں سیکھا۔حجاب آپا کی طرح لکھتی نہیں وہ ڈرامے ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کرتی تھیں۔ نعیم طاہر ، ان کے شوہر پہلے آرٹس کونسل چلاتے تھے۔ پھر بہت جگہ نکلے مگر واپس انکو ڈرامے ہی میں پناہ ملی ۔ جس دن یاسمین کی نعیم طاہر سے شادی تھی اس دن سہرا ، فیض صاحب نے لکھا تھا اور میڈیم نے گایا تھا۔ حجاب آپا نے جہاز اڑانا بھی سیکھا تھا۔ اس زمانے کی پہلی مسلم خاتون تھیں ۔وہ مسٹر عبدالقادر کی طرح کہانیاں لکھتیں کہ جو خواتین ناول نگاروں کی طرح نہیں۔ ان کے کردار نثر ، گھر میں سیانی بلیوں کی بہتات اور پردوں کے نیلے رنگ کو وہ پکار کر نوکر کو کہتیں ’’پردے آگے کرو، سارا نیلا رنگ بہنے لگاہے‘‘۔ جس زمانے میں شور اٹھا ایٹمی پھیلاؤ کا ۔تب حجاب آپا نے پاگل خانہ ناول لکھا، مگر دنیا ایسے زمانے سے امن کے ترازو کے ساتھ بے ایمانی کرتی یوکرین اور غزہ کی آبادیوں کو قبرستانوں میں بدل رہی ہے۔
ہمارے زمانے میں ادبی اور فلمی جوڑوں میں صبیحہ سنتوش، درپن نیئر سلطانہ ، محمد علی زبیا، اور ادب میں ظہیر بابر، خدیجہ مستور، یاسمین اور نعیم طاہر کے علاوہ ہم دونوں پر بہت تبصرے، کہانیاں بنتی تھیںمگر شائستگی کے ساتھ۔ آپ لوگ کہیں گے کہ برسات پہ لکھتے لکھتے یاسمین اور ادبی دنیا کیسے یاد آئی۔ فضا میں بلوچستان کے جوان جوڑے کو بلاکر گولیاں مارنے کی بدعت کی الم ناک داستان مجھے کچھ لکھنے نہیں دے رہی۔