• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے ڈیڑھ دو برس سے بیرونِ ملک اور مہینہ پندرہ دنوں سے اندرون ملک کوئی سفر نہیں کیا۔ چنانچہ اس دوران سفر کی کوئی روداد بھی نہیں لکھی، سو آپ ایک منٹ کیلئے یہ فرض کریں کہ میں ابھی ابھی لاہور سے وزیر آباد روانہ ہونے لگا ہوں، روانہ کیا ہونے لگا ہوں، بس یوں ہی سمجھیں کہ روانہ ہو چکا ہوں۔ چنانچہ میرے گلے میں بیگ ہے اور میں اس وقت لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھڑا ہوں اور میرے چاروں طرف انسانوں کا سمندر ہے۔ یہ سب لوگ کراچی سے آنے والی گاڑی کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یہ گاڑی وزیرآباد جہلم اور راولپنڈی وغیرہ سے ہوتی ہوئی پشاور جائے گی۔ اس گاڑی میں کچھ مسافر کوئٹہ کے بھی ہوں گے جو روہڑی سے سوار ہوئے ہوں گے۔ اسٹیشن پر جو لوگ موجود ہیں ان میں سے بیشتر تو مسافر ہیں باقی یا تو اپنے عزیزوں کو الوداع کہنے کیلئے آئے ہیں یا اپنے کسی مہمان کو ریسیو کرنے کیلئے یہاں موجود ہیں۔

ان لوگوں کے علاوہ پلیٹ فارم پر کتابوں، گھریلو مصنوعات اور چائے وغیرہ کےا سٹال ہیں۔ نیز یہاں پھل اور روٹی کباب بیچنے والوں کی ریڑھیاں ہیں سرخ قمیضوں میں ملبوس قلی بھی اپنے کاندھوں یا ٹھیلوں پر سامان لاد کر پلیٹ فارم کے خالی کونے پر کرنے میں مشغول ہیں۔ گاڑی لیٹ ہے نہ ابھی سگنل ڈائون ہوا ہے اور نہ انائونس منٹ کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ گاڑی کتنی لیٹ ہے۔

مسافروں کو الوداع کہنے والوں اور اپنے عزیزوں کے استقبال کیلئے پلیٹ فارم پر موجود لوگوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتے ہیں اور پھر اپنا شک دور کرنے کیلئے پلیٹ فارم کے درمیان نصب سرکاری گھڑی پر نظر ڈالتے ہیں۔ کچھ کی گھڑیاں اس گھڑی کے عین مطابق ہیں اور کچھ کی آگے پیچھے ہیں لیکن بے چینی سب کی یکساں ہے۔ جنہوں نے اپنے عزیزوں کا استقبال کرنا ہے وہ چاہتے ہیں کہ جلدی اس کام سے فارغ ہوں تاکہ جو کام وہ چھوڑ کر آئے ہیں، واپس جا کر جلدی اسے نمٹائیں۔ اسی طرح اپنے مہمانوں کو الوداع کہنے کیلئے یہاں آئے ہوئے لوگ بھی اپنے گھروں کو لوٹنے کیلئے بے چین ہیں اور جو مسافر اسٹیشن پر موجود ہیں وہ بھی جلد از جلد منزل مقصود تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان لوگوں کی بے چینی سب سے زیادہ ہے جو کراچی سے آنے والی اس گاڑی میں کل صبح سے سوار ہیں۔ انہوں نے سارا دن سفر کیا ہے ساری رات سفر کیا ہے اور اب وہ رت جگے سے بے حال اور تھکن سے نڈھال اس منزل تک پہنچنے کیلئے بے تاب ہیں جس کیلئے انہوں نے اس قدر صعوبتیں اُٹھائی ہیں۔

بے چین صرف یہ اصلی مسافر یا نقلی مسافر ہی نہیں بلکہ ان کے درمیان موجود خوانچہ فروش، قلی اور اسٹالوں والے بھی ہیں۔ ان سب کو گاڑی کا انتظار ہے۔ گاڑی آئے گی تو یہ رزق حلال کمائیں گے مگر گاڑی نہیں آ رہی۔ انائونس منٹ ہو رہی ہے مگر یہ انائونس منٹ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ پلیٹ فارم پر انسانوں کا ہجوم ہے اور وہ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر اس سمت دیکھ رہے ہیں۔ جدھر سے گاڑی آنی ہے۔ کچھ دیر پہلے لوگوں میں ہلچل سی ہوئی تھی اور وہ اپنا اپنا سامان اُٹھا کر ذرا آگے کو سرک آئے تھے۔ کیونکہ انہیں انجن کی وسل سنائی دی تھی۔ مگر اب ان کے چہرے پھر لٹک گئے ہیں۔ کیونکہ وہ گاڑی نہیں تھی کالے دیو جیسا انجن تھا۔ جو دھواں اُگلتا اور آگ برساتا ان کے قریب سے گزر گیا۔ ایک بار گاڑی بھی دکھائی دی تھی۔ مگر وہ پٹری بدل کر دوسرے پلیٹ فارم پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ گاڑی بھی اپنی منزل کو روانہ ہو چکی ہے۔ اس کے بعد بھی کئی گاڑیاں آئی ہیں مگر وہ سب دوسرے پلیٹ فارموں پر جا کر رُکی ہیں اور پھر اپنی اگلی منزل کیلئے روانہ ہو گئی ہیں۔ کالے دیو جیسا انجن بھی اس دوران کئی دفعہ چیختا چلاتا ادھر سے گزرا ہے۔ مگر اس پلیٹ فارم کے مسافروں کو انجن کا نہیں، گاڑی کا انتظار ہے، اپنی اس گاڑی کا جس کیلئے وہ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔

گاڑی ابھی تک نہیں آئی۔

میں پلیٹ فارم پر گلے میں بیگ لٹکائے کھڑا ہوں۔ میرے سامنے دُھواں چھوڑتے ہوئے انجن ہیں یا اس پلیٹ فارم کے ’’اطراف‘‘ میں واقع دوسرے ’’پلیٹ فارم‘‘ ہیں، جہاں میں ہوں وہاں لوگ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر اس گاڑی کی راہ تک رہے ہیں جو انہیں ان کی منزل مقصود تک پہنچائے گی۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں اور مجھے یقین ہے یہ گاڑی ضرور آئے گی۔

گاڑی ضرور آئے گی مگر اس گاڑی کے آنے سے پہلے میں نے سفر کی روداد لکھ دی ہے۔ اس سفر کی جو میں نے نہیں کیا۔ اگر اس روداد میں کوئی خامی ہے، کسی جگہ کوئی تضاد نظر آتا ہے، واقعات میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ کردار گڈمڈ ہو گئے ہیں یا کہیں صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تو اس پر کسی کو رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ جو سفر نہ کیا ہو اس کی روداد ایسی ہی ہوتی ہے۔

پس نوشت:تیمور حسن تیمور ایک لاجواب شاعر اور ایک بہادر انسان تھا۔ وہ نابینا تھا مگر اس نے پی ایچ ڈی کی، اس نے اپنی معذوری کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس کی موت بہت اچانک تھی۔ وفات سے صرف تیس منٹ پہلے فون کیا اور اس کی صحت کا پوچھا ناصر بشیر اطلاع دے چکے تھے کہ وہ کارڈیالوجی وارڈ میں داخل ہے۔ میں نے پھر فون کیا اور ان تیس منٹوں کے دوران وہ فوت ہو چکا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

تازہ ترین