• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آغاز ہی میں اپنے ڈاکو بھائیوں سے معذرت خواہ ہوں اور ان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان سطور سے مقصود ان کی دل آزاری یا خدانخواستہ ان کی نیک شہرت کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ماضی پرست ہونے کی وجہ سے پرانی یادوں کو تازہ کرنا اور بعض کلاسیکی روایات کی گم شدگی پر اظہارِ افسوس کرنا ہے۔ دراصل ایک عرصے سے روزانہ صبح اخبار ہاتھ میں تھامتے ہی دو تین ڈکیتیوں کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ چلتی فلائنگ کوچ میں مسافروں کو پستول دکھا کر لوٹ لینا، دن دَہاڑے کسی گھر میں داخل ہونا اور اہل خانہ کو ڈرا دھمکا کر زیور کپڑے لے جانا یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات اس لحاظ سے تو خوش آئند ہیں کہ پوری قوم اگرچہ سوئی ہوئی ہے مگر کم از کم ڈاکوئوں کا طبقہ تو پوری طرح سر گرم عمل ہے اور داد شجاعت دینے میں مشغول ہے۔ مگر جس دکھ کے اظہارکیلئے یہ کالم لکھ رہا ہوں وہ چوروں کے بالکل ناپید ہونے کے حوالے سے ہے۔ ڈاکو اپنی سرگرمیاں شوق سے جاری رکھیں حکومت کی طرح ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن معاشرے سے چوروں کا یکایک اور مکمل طور پر ناپید ہو جانا اور ان کی جگہ ڈاکوئوں کالے لینا بہت افسوس ناک ہے۔ یہ موضوع اگرچہ ماضی پرست ادیبوں کا ہے اور اُمید تھی کہ وہ اس پرانے انسٹی ٹیوشن کے زوال کا نوحہ لکھیں گے لیکن جس طرح دوسروں کا کام بسا اوقات اُنہیں کرنا پڑتا ہے اسی طرح ان کا یہ کام مجھے کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم ایک دفعہ پھر ڈاکوئوں سے التماس ہے کہ وہ اس تحریر کو ’’پرسنل‘‘ نہ لیں کیونکہ ہمارا یہ موقف محض اصولی نوعیت کا ہے اور اگر انہیں ہمارے کسی نکتے سے اختلاف ہو تو اپنا نقطہ نظر لکھ بھیجیں جو ہم پوری دیانت داری سے شائع کر دیں گے۔ اپنے موقف کی وضاحت کیلئے انہیں میرے غریب خانے پر آنے کی ضرورت نہیں کہ جہاں ہم رہتے ہیں ایک تو وہ جگہ شہر سے کافی دور ہے اس کی سڑکیں بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں اور جس مکان میں،میں رہتا ہوں وہ قرضے سے بنا ہے لہٰذا انہیں خواہ مخواہ زحمت ہوگی۔

دراصل بات یہ ہے کہ بھلے وقتوں میں ڈاکوئوں کے علاوہ چور بھی ہوا کرتے تھے۔ مگر ہم نے ان شریف النفس چوروں کی قدر نہیں کی اور یوں ناقدری ِزمانہ سے یہ اہلِ فن آہستہ آہستہ ناپید ہوتے چلے گئے۔ یہ اہل فن ہی نہیں وضع دار بھی تھے۔ دن کے وقت شرفا کی بستیوں کا رُخ نہیں کرتے تھے جب آدھی رات ادھر اور آدھی ادھر ہو جاتی۔ یہ اپنی کمیں گاہوں سے نکلتے اور رفع شر کیلئے کوئی چاقو وغیرہ نیفے میں اُڑس لیتے۔ تاہم انکی رحم دلی اور خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ گھروں کے باہر بندھے ہوئے کتوں کیلئے گوشت وغیرہ ساتھ لے کر آتے۔ نیز جس گھر میں بھی داخل ہوتے۔ اس امر کا خاص خیال رکھتے کہ اہل خانہ کی نیند میں کوئی خلل نہ پڑے۔ چنانچہ دبے پائوں چور دروازے سے گھر میں داخل ہوتے، چوری کیلئے جس کمرے میں داخل ہوتے اس کی بتی تک نہ جلاتے کہ کہیں دوسروں کی پرائیویسی مجروح نہ ہو۔ گھر کے مالک کو جگا کر اس سے سیف وغیرہ کی چابیاں طلب نہ کرتے کہ بے چارہ سارے دن کا تھکا ماندہ آرام کر رہا ہے۔ چنانچہ اندھیرے میں خود ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے۔ اگر کچھ ہاتھ لگ جاتا تو ساتھ لے جاتے۔ بصورتِ دیگر صبر شکر کر کے لوٹ جاتے یہ وضع دار لوگ جنہیں ہم چور کہتے تھے، اتنے شریف النفس تھے کہ اگر تمام تر احتیاط کے باوجود اہل خانہ کی آنکھ کھل جاتی تو اپنے اس فعل پر اس قدر نادم ہوتے کہ اہل خانہ سے آنکھیں چراتے پھرتے اور کوشش کرتے کہ جلد سے جلد اس مکان سے نکل جائیں جسکے مکینوں کی نیند میں ان کی وجہ سے خلل پڑا ہے۔ بعض نازک مزاج قسم کے اہل خانہ اگر ان سے تعرض کرنے کی کوشش کرتے تو بھی ان شریف النفس لوگوں کی کوشش یہی ہوتی کہ بغیر کسی کو زک پہنچائے وہاں سے نکل جائیں۔ تاہم دوسرے فریق کی ناسمجھی کی وجہ سے کبھی کبھار کوئی ناخوشگوار سی صورت حال بھی پیدا ہو جاتی، جسکی ذمہ داری ان وضع دار لوگوں پر بہرحال عائد نہیں ہوتی تھی۔

اور اب صورت حال یہ ہے کہ معاشرے سے یہ بھلا مانس طبقہ رفتہ رفتہ ناپید ہو گیا ہے اور اسکی جگہ ڈاکوئوں نے لے لی ہے۔ یہ لوگ کسی بھی سہانی شام کو کسی بھی گھر میں داخل ہوتے ہیں، انکے ہاتھوں میں کلاشنکوف ہوتی ہے اور وہ اہل خانہ کو ہینڈز اپ کراتے ہیں اور انہیں اتنا خوف زدہ کر دیتے ہیں کہ ان کا دھیان ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے ڈرامے سے ہٹ جاتا ہے۔ مثلاً میرے ایک دوست کے ہاں شام سات بجے جب ڈاکو آئے وہ اپنے بچوں اور سری نگر سے آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ فلم ’’نصیب اپنا اپنا‘‘ دیکھ رہے تھے جو وہ اس کے بعد نہ دیکھ سکے۔ اسی طرح کے ایک گھر میں خواتین ایک شادی میں شرکت کیلئے زیورات پہنے گھر سے نکلنے ہی کو تھیں کہ ڈاکو گھر کے اندر داخل ہو گئے اور ان کے زیورات اُتار لئے۔ چنانچہ وہ بے چاری شادی کی تقریب میں شرکت نہ کر سکیں اور یوں دولہا دلہن بھی اس سلامی کی رقم سے خواہ مخواہ محروم ہو گئے جو انہیں ان خواتین سے موصول ہونا تھی۔ تاہم ان چھوٹے موٹے نقصانات سے قطع نظر ڈاکو ہمارے معاشرے کے مفید رُکن ہیں اور معاشرے میں ان کا بہت اعلیٰ مقام ہے۔ ہم نے ان ڈاکوئوں کی عزت و تکریم کے جو مناظر دیکھے ہیں، اس سے کئی دفعہ دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم لٹنے والے طبقے میں شامل ہونے کے بجائے لوٹنے والے طبقے میں شامل کیوں نہ ہوگئے۔ بہرحال یہ باتیں تو بر سبیل تذکرہ درمیان میں آ گئیں ۔ میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ڈاکو ہمارے سر آنکھوں پر مگر چوروں کا سرے سے ناپید ہو جانا ہم جیسے روایت پسند شخص کو پسند نہیں کہ اپنی چھوٹی موٹی خامیوں کے باوجود یہ لوگ بہرحال بڑے شریف النفس بھلے مانس اور وضع دار تھے۔

تازہ ترین