• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے تنہا رستوں میں کچھ رفاقتیں ایسی ہوتی ہیں، جو کسی قرابتی رشتے کے بغیر بھی دل سے قریب تر ہوجاتی ہیں۔ وہ رشتہ، جو نہ خون کا محتاج ہے، نہ نسب کا، نہ نسل اور نہ ہی کسی مفاد کا بلکہ جو دل سے دل تک جاتا ہے، اور وہ ہے، ’’ دوستی کا رشتہ‘‘۔ یہ وہ پیوندِ قلب ہے، جو انسان کو روحانی سکون، جذباتی توازن اورذہنی آسودگی بخشتا ہےاور’’عالمی یومِ دوستی‘‘ اِسی بےلوث رشتے کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ 

یہ دن منانے کی ابتدا بیسویں صدی کے اوائل میں امریکا سے ہوئی۔ اگرچہ اس کا رسمی آغاز 1935 ء میں ہوا، مگر عالمی سطح پر یہ دن 2011ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور اس کا مقصد افراد، اقوام اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی، رواداری اور اخوت کو فروغ دینا تھا، مطلب اِس کے پیچھے موجود فلسفہ بہت گہرا اور دیرپا ہے۔

دوستی ایک ایسی دولت ہے، جو بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ یہ وہ تعلق ہے، جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، بغیر کسی لالچ، بغیر کسی صلے کی تمنا کے۔ ایک سچّا دوست وہی ہوتا ہے، جو صرف خوشیوں میں شریک نہیں ہوتا بلکہ غموں میں بھی کندھادیتا ہے، کام یابیوں پر مُسکراتا ہے، تو ناکامیوں میں حوصلہ دیتا ہے۔ 

دوستی وقت کا امتحان بھی ہے، کیوں کہ وقت ہی بتاتا ہے کہ کون دل سے تھا اور کون بس زبان سے اور آج کےاِس مصنوعی، تیز رفتار، مفاد پرست دَور میں ایسے دوستوں کی تلاش اور پرورش نہایت ضروری ہوچُکی ہے۔ ایک اچھا دوست انسان کے ایمان، اخلاق، اورعلم پر مثبت اثر ڈالتا ہے، جب کہ غلط دوست گُم راہی، پستی اورتنزلی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوستی کا تذکرہ احادیث میں بھی موجود ہے۔ 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس، تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔‘‘(سنن ترمذی،2378) یہ حدیثِ مبارکہ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دوستی صرف ذاتی یا سماجی تعلق کا نام نہیں بلکہ یہ روحانی تربیت اور کردار سازی کاذریعہ بھی بن سکتی ہے۔

یہ صرف افراد تک محدود نہیں، اقوام کے مابین بھی پائےدار تعلقات کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ تعلق حُسنِ سلوک، باہمی احترام اور قربانی کےجذبے کو جنم دیتا ہے۔ سو، ایک ایسا معاشرہ بہت خوش حال اور پُرامن ہوتا ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور اختلافات کے باوجود تعلقات نبھاتے ہوں۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ دوستیاں بھی سوشل میڈیا کے’’ لائیکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ پر تولی جا رہی ہیں۔ وقت گزارنے والے دوست، وقت دینے والے دوستوں پر غالب آچُکے ہیں۔ اِخلاص کی جگہ افادیت نے لے لی ہے اور حقیقی قربت کی جگہ مصنوعی نمائش نے۔ ایسے میں سچے دوست کی تلاش ایک آزمائش ہی بن چُکی ہے، لیکن اگر انسان خُود اِخلاص سے دوستی کرے تو قدرت بھی اُسے ایسے دلوں سے ملاتی ہے، جو حقیقت میں دھڑکتے ہیں، لہذا بچّوں اور نوجوانوں کو شروع ہی سے اِس تعلق کی اصل اہمیت سکھانا ضروری ہے۔ 

والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنما اِس رشتے کے مثبت و منفی پہلوؤں سے آگاہی دے کر نئی نسل کو سچے، باکردار اور مخلص دوست بنانے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ کیوں کہ دوستی محض ایک وقتی سہارا نہیں، یہ ایک عُمر کی پناہ بھی بن سکتی ہے۔ رہی بات یہ کہ ایک اچھے دوست میں کیاخُوبیاں ہونی چاہئیں؟ 

تو وہ امانت دار، باوفا، حق گو ہو، غیبت و چغلی سے پاک ، مشکل وقت میں ساتھ دینے والا اور ناصح و خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جب کہ اگر کوئی دوستی محض دل لگی، وقتی ہنسی مذاق اور دنیاوی فائدے کے لیے ہو،توایسا تعلق وقتی خوشی کے بعد روحانی بربادی کی راہ بھی کھول سکتا ہے، کیوں کہ دوستی کا رشتہ اَن مول ہے، اِس میں غرض نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کا قول ہے۔’’دوستی دراصل وہ جذبہ ہے، جس کے تحت دوسرے کے لیے بھی وہی چاہا جاتا ہے، جو خُود اپنے لیےچاہا جائے۔‘‘ 

یہ جذبہ انسان کو انا، حسد، بغض اور منافقت جیسے نفسیاتی امراض سے بھی بچاتا ہے۔ اگر دوستی میں صدق، وفا اورایثار ہو تو وہ دنیا میں جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ تو طے یہ پایا کہ ’’یومِ دوستی‘‘ منانےکا اصل مقصد صرف تحفے تحائف دینا یا سیلفیاں لینا نہیں بلکہ اس رشتے کی اصل رُوح کو سمجھنا، پرکھنا اور اس کی بقاء کے لیے خُود کو بہتر بنانا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص ایک سچّا دوست بن جائے تو دنیا کا ہر فرد تنہائی،غم اورمحرومی جیسے مسائل سے نجات پاسکتا ہے کہ سچا دوست صرف ایک شخص نہیں، ایک پناہ، ایک دُعا اور ایک آئینہ ہوتا ہے، جو ہمیں ہماری اصل صورت دکھاتا ہے۔ 

تو آئیے، ایک عہد کریں کہ آج سے ہم خُود ایک اچھے دوست بنیں گے، اپنے دوستوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں گے، اُن کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے اور اس رشتے کو دنیاوی تقاضوں کے بجائے انسانی اقدار کی بنیاد پر استوار رکھیں گے۔ بلاشبہ، دوستی وہ دولت ہے، جو نہ تو خزانوں میں ملتی ہے، نہ ہی وراثت میں۔ یہ تو دلوں کے میل، اخلاص کی زبان اور کردار کی حرارت سے حاصل ہوتی ہے۔