وفاقی حکومت نے اسلام آبادمیں ندی نالوں پر رہائشی اور کمرشل عمارتوں سمیت ہر قسم کی تجاوزات کو خطرناک قرار دیتے ہوئے قانو ن کے مطابق ایسے عمارتی ڈھانچوں اور انہیںتعمیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں تجاوزات خصوصاً سرکاری زمین پر قائم ناجائز تعمیرات کو قانون کے مطابق سیل کرنے اور غیرقانونی قابضین کے خلاف اب تک کی جانے والی کارروائی پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ ملک میں مون سون کی حالیہ بارشوں کے دوران اسلام آبادہی نہیں چاروں صوبوں بالخصوص گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اورخیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں سیلا بی ریلوں نےجوتباہی مچائی اس میں مالی نقصانات کے علاوہ سیکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور مال مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے۔ سب سے زیادہ نقصان ندی نالوں کے قریب تعمیر ہونے والی عمارتوں اور ریسٹ ہائوسز کو ہوا جو منہ زورطغیانی کا مقابلہ نہ کرسکے اور اپنے مکینوں سمیت پانی کی نذر ہوگئے۔ ان میں زیادہ تعداد سیاحوں کی ہے جو سیرو تفریح کے لئے ایسے خطرناک موسم میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں ، پہاڑی علاقوں میں موسلادھار بارشوں سے لینڈ سلائڈنگ معمول کی بات ہے۔ مگر موسمیاتی تبدل و تغیر کے نتیجے میں اس مرتبہ ماضی کے مقابلے میں صورتحال زیادہ خطرناک رہی اور گھریلو سامان ، مال مویشی اور انسانی جانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ۔ فوج اور دوسرے امدادی اداروں نے انہیں بچانے کے لئے اپنی سی بہت کوششیں کیں مگر پھر بھی مالی نقصانات کے علاوہ سیکڑوں انسانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ متعلقہ حکومتی ادارے اگر ندی نالوں کے آس پاس تعمیرات اور تجاوزات قائم ہونے ہی نہ دیتے تو اتنے بڑے المیے سے بچا جاسکتا تھا۔ ناقص منصوبہ بندی اور غفلت کی وجہ سے اتنا بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔