• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ چند دن پہلے کی بات ہے فیس بک پر اسکرول کرتے ہوئے نظر اچانک ایک پوسٹ پر جم کر رہ گئی۔ یہاں کسی اہم کتاب کا تعارف کروایا گیا تھا۔ ساتھ ہی ایک لنک بھی موجود تھا، جہاں سے اسکی پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی تھی۔ کتاب کا نام ’’دس سال خدا کی بستی میں‘‘ تھا۔ پڑھنا شروع کیا۔ کتاب شستہ نگاری کا عمدہ نمونہ تھی۔ نہایت رواں اور سلیس۔ میں اسکے بہاؤ کیساتھ بہتا چلا گیا۔ یہ کتاب کسی مدرسے کے فاضل نے لکھی تھی۔ وہ اپنے تئیں ایک قطعی مایوس، حددرجہ شکوہ کناں اور شدید جذباتی نوجوان کی آپ بیتی تھی۔ دینی مدارس کے حوالے سے اسکا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا تھا۔ وہ کچھ رویوں، کچھ پالیسیوں اور کچھ فیصلوں پر شدید نالاں تھا۔ اسے کہیں نفرت ملی تھی تو کہیں اسکے جذبات کا خون کیا گیا تھا۔ کہیں اسکی توقع کے برخلاف معاملہ کیا گیا تھا تو کہیں اسے تضاد ات نے ذہنی اذیت سے دوچار کیا تھا۔ سو، اسے جو سقم نظر آیا، جو خرابیاں اسکے مشاہدے میں آئیں اور جو کچھ اسکی طبعِ نازک پر گراں گزرا، اس نے اسے قلم زد کر دیا۔ تقریباً دو سو صفحات کی ایک کتاب بن گئی۔ شائع ہوئی۔ جسے دینی مدارس کے ’’اصلی چہرے‘‘ کے طور پر لوگوں کو باور کرایا گیا اور بڑے پیمانے پر اسکی تشہیر کی گئی۔

اس زمانے میں دینی مدارس کے حوالے سے خاص قسم کی حساسیت پائی جا رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کی نظروں میں سب سے زیادہ چبھتا ہوا کانٹا مدارس ہیں۔ دہشت گردی کے اڈے ہونیکا الزام انہی کے سر ہے۔ جہالت کی یونیورسٹیاں ہونے کا دشنام انہی کو دیا جاتا ہے۔ ملکی قوانین بھی انہی کے تعاقب میں ہیں۔ سیکولر لوگ ہوں یا دین دشمن این جی اوز ،اپنا پورا زور خیر کے ان سرچشموں کو ہمیشہ کیلئے خشک کر دینے پر صرف کیے ہوئے ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہے ملک کو دینی اقدار سے خالی کرنے، سیکولر پاکستان کی طرف تیز ی سے بڑھنے اور پاکستان کو اندلس و غرناطہ بنانے کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ دین کے یہی صاف چشمے اور حقیقی مراکز ہیں۔

رہزنوں سے گلہ نہیں، رہبروں سے سوال ہے۔ کیا ملک کے دیگر شعبے ہر طرح کی کوتاہیوں سے مکمل پاک ہیں؟ کیا عصری تعلیم گاہیں اخلاق و کردار کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں؟ کیا ملک کے دیگر حصوں سے تمام برائیوں کا خاتمہ ہو چکا؟ کیا انتہاپسندانہ سوچ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پروان نہیں چڑھائی جا رہی؟ کیا دہشت گرد ڈکلیئر ہونیوالوں میں یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹ نہیں تھے؟ سچ، حقیقت اور انصاف یہ ہے کہ کوتاہیاں ہر دو جگہ پر ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں، اسکول و کالج میں بھی اور مکتب و مدرسے میں بھی۔ مگر یہ درست نہیں کہ کسی ایک کوہی الزام و دشنام کا محور بنا دیا جائے۔ اگر آپ کسی ایک حصے، کسی ایک شعبے اور ایک طبقے کی برائیاں اکٹھی کر کے بیٹھ جاتے ہیں تو اسکی مثال کچرا دان سے زیادہ نہیں۔ ہر اچھے سے اچھے گھر میں بھی کچرا ایک خاص مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ مگر کچرا پورے گھر کے گندا ہونے کی ترجمانی نہیں کرتا۔ میں نے جب مذکورہ کتاب کو پڑھا تو مجھے اسکی حیثیت کچھ ایسی ہی لگی۔ چن چن کر خرابیوں کو بہ تکلف اکٹھا گیا، فن و ادب کے زورپر ان میں وزن پیدا کیا گیا اور فرضی کردار اور کہانی کے ذریعے انہیں مربوط کیا گیا تھا۔

تسلیم کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں۔ بچوں کو غیرضروری طور پر مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔ بعض اساتذہ کا رویہ نامناسب بھی ہوتا ہے۔ قانون کبھی ضرورت سے زیادہ سخت بھی ہوتے ہیں۔ بعض وجوہ سے طلبہ کو منتظمین مدرسہ سے شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ بعض ممتحن اصولوں کی خلاف ورزیاں بھی کرتے ہیں وغیرہ۔ مگر واضح رہے کہ یہ باتیں جزئیات کی حیثیت رکھتی ہیں، کلیات کی نہیں۔ انہیں آپ سب کا سب اور کل کا کل نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی مثالیں پس ماندہ علاقوں، چھوٹے چھوٹے مدرسوں اور آخری صف میں نظر آنے والے مکاتب میں ملتی ہیں۔ آپ مثال وہاں سے لیجیے، جو مثالی مدرسے کہلاتے ہیں تو پھر بات بنے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ چھوٹے، بے نام اور غیرمعیاری مدرسے میں پائی جانے اور اچھالی جانیوالی کوتاہی کا مصداق سب سے پہلے بڑے مدرسے بنتے ہیں۔ غلطی کہیں پاتال میں ہوتی ہے۔ الزام و دشنام اوج کمال کو پہنچے ہوئے مدرسے کو جاتا ہے۔

اب میں بتاتا ہوں مدرسے کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ مدرسے کیا ہوتے ہیں؟ درون خانہ کیا کیا جاتا ہے؟ کیسی تربیت دی جاتی ہے؟ کہاں مطالعے سے منع کیا جاتا ہے؟ کب انتہا پسندی سکھائی جاتی ہے؟ مدرسے کی پروڈکشن کیا ہوتی ہے؟ یہ’’ خدا کی بستی‘‘ میں گزرے ہوئے ’’دس‘‘ نہیں، ’’چالیس‘‘ سال کی سرگزشت ہے۔ آپ یہ نقشِ حیات پڑھیے۔ یہ فرضی نہیں، حقیقی ہے۔ یہ مختصر نہیں، تفصیلی ہے۔ یہ صرف اور صرف سچ ہے۔ یہاں محمد انور نام کا ننھا سا بچہ سندھ کے ایک مدرسے میں داخل کروایا جاتاہے۔ جس پر وہ سب کچھ بیتتا ہے، جو کسی بھی مدرسے میں پڑھنے والے پر بیت سکتا ہے۔ وہ حرف بہ حرف آپ کو اپنی زندگی کے متعلق بتاتا ہے۔ وہ نورانی قاعدہ سے سفر کرتا ہوا انتہا تک پہنچتا ہے۔ وہ تدریس بھی کرتا ہے۔ اسے کسی نے اردو ادب کے مطالعے سے نہیں روکا۔ یہاں تک کہ وہ ادیب بن جاتا ہے۔ وہ ورکنگ جرنلسٹ بنتا ہے۔ وہ ملک کے سب سے بڑے اخبار کا کالمسٹ بنتا ہے۔ آپ اس ’’خودنوشت‘‘ کو ایک مولانا، صحافی، ادیب، استاذ اور ماہر فن کی سرگزشت کیساتھ ساتھ ’’مدرسہ کہانی‘‘ کے طور پر بھی پڑھیے۔ نظر بھی آئیگا اور سمجھ بھی کہ اصل حقیقت یہ ہے۔ جو کچھ عالمی طاقتیں اور میڈیا کہہ رہا ہے، جو کچھ نادان دوست لکھ رہے ہیں، جو کچھ Negativity پھیلائی جا رہی ہے، وہ یا تو جھوٹ ہے یا پھر مبالغہ۔ اگر مدرسے کے خلاف پروپیگنڈے میں میں یا آپ شامل ہوتے ہیں تو ہم اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ ہم دشمنان اسلام و پاکستان کا کام آسان بنا رہے ہیں۔

تازہ ترین