میں ایک قلمی بونا ہوں، رتبے کا بھی چھوٹا اور معیار میں بھی چھوٹا۔ بونوں کی بستی میں رہتا ہوں چار دہائیوں سے قلم کی نوکری کر رہا ہوں اس پیشے میں آتے ہی قبول دیو سے پالا پڑ گیا جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا تھا سنسر شپ نافذ تھی اس شعبے میں داخل ہوتے ہی پتہ چلا کہ یہاں بونوں کی نگرانی قبول دیو کرتا ہے کسی بونے نے اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی تو قبول دیو فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ اس قلمی بونے کو 1988 ء میں ہی قبول دیو کے غصّے کا سامنا کرنا پڑ گیا قلمی بونے نے ایک بینک سے قرضے معاف کروانے والوں کی فہرست پر مبنی خبر شائع کر دی انہی میں سے ایک نام جنرل ضیاء الحق کے برادر نسبتی ڈاکٹر بشارت الٰہی کا بھی تھا بس پھر کیا تھا قبول دیو نے اس قلمی بونے کے گھر بذریعہ مسلّح پولیس اس کے کالج راوی روڈ لاہور سے گورنمنٹ کالج تونسہ ٹرانسفر آرڈرزبردستی وصول کروائے گئے اس زمانے میں تونسہ شریف براہ راست کوئی بس بھی نہیں جاتی تھی تین بسیں بدل کر وہاں جانا پڑتا تھا۔ خیر قبول دیو سے ایسی ملاقاتیں و عنایتیں زندگی بھر جاری رہیں ایک بار قبول دیو نے جنگ اخبار پر اپنے اس وقت کے فیورٹ سیاست کار کے ذریعے صفائی کا فارمولا نافذ کیا بڑے بڑے ناموں کے علاوہ بونا صحافی بھی عتاب میں آگیا اس کے بارے میں احتساب گرو سیف الرحمٰن نے ٹیپ شدہ گفتگو میں کہا کہ اسکو اخبار سے نکالیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اسکی کالج کی نوکری بھی ختم کردی جائے گی قلمی بونا اسوقت سرکاری کالج میں انگریزی پڑھانے کا جرم بھی کرتا تھا جو بالآخر چھوڑ کر صرف قلمی بونا بننے پر اکتفا کیا۔ جنرل پرویز مشرف آئے تو بونے صحافی نے ایم کیو ایم اور جنرل مشرف کے اتحاد پر لکھ دیا اب قبول دیو کی ساری ایجنسیاں بونے کیخلاف بھارتی ایجنٹ ہونے کے ثبوت تلاش کرتی رہیں صدر لغاری نے بے نظیر بھٹو کی اسمبلی توڑی تو قبول دیو اور لغاری اکٹھے تھے قلمی بونے نے جیالے کا خط صدر کے نام لکھا تو اسکے کالج گھر اور قریبی سبزی والے تک کی تحقیق و تفتیش ہوئی۔ اسی طرح ایک بار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پروفیسر کی بھارتی اور پاکستانی پنجاب کے تقابلی زراعت کے مطالعہ پر رپورٹ چھاپی تو ایک ایجنسی نے یہ چارج شیٹ تیار کر دی کہ رپورٹ امریکہ کے کہنے پر تیار ہوئی ہے کئی ماہ تک انٹلیجنس بیورو کے افسران اس لغو الزام اور بے تکے بہتان کے پیچھے تنگ کرتے رہے۔ قبول دیو کی مہربانیاں جنرل پاشا، جنرل ظہیر اور جنرل فیض حمید کے ادوار میں حد سے بڑھ گئیں دھمکیاں گالیاں ، بلیک میلنگ، آڈیو وڈیو ریکارڈنگ اور غرض کیا کیا نہ کیا گیا حالانکہ یہ قلمی بونا اتنا بزدل ہے کہ ریاست اور حکومت کیخلاف کبھی صف آرا ہی نہیں ہوا۔البتہ ڈرتے ڈرتے لرزتے لرزتے سچ سے جڑے رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
قبول دیو ہی بونوں پر عتاب کیلئے کافی تھا کہ جنرل پاشا، جنرل ظہیر اور جنرل فیض نے مقبول دیو بھی تراش ڈالا۔ قبول دیو ستم ڈھاتا تھا تو قلمی بونا ڈرپوک ہونے کے باوجود فخر محسوس کرتا تھا کہ وُہ طاقت اور اقتدار کو چیلنج کر رہا ہے۔ مگر جب سے مقبول دیو کا ظہور ہوا ہے قلمی بونے کیلئے زمین تنگ ہو گئی ہے پوری تحریر مقبول دیوکے حق میں بھی ہو تو وُہ خوش نہیں ہوتا اس تحریر میں اگر ایک بھی لفظ اسکی مرضی کیخلاف ہو تووہ اسے اچھالتا ہے الزام لگاتا ہے کوشش کرتا ہے کہ بونےکو اس دنیا سے ہی نکال باہر کرے۔
کہنے کو تو قبول دیو اور مقبول دیوآجکل ایک دوسرے کے مخالف اور رقیب ہیں مگر دونوں ایک ہی مٹی کے بنے ہیں کیونکہ دونوں کا منبع ایک ہی بھٹی ہے قبول دیو ریاست کی پالیسی یا انکی مرضی کی سیاست کیخلاف صف آرا ہوتا تھا جبکہ مقبول دیوقلمی بونوں پر جھوٹے الزامات لگاتا ہے ، مخالف رائے کو برداشت کرنے کے جمہوری رویے کو مسدود کرتا ہے۔ آج کے قیدی نمبر804کے دورِ حکومت میں ’باجوہ ڈاکٹرائن ‘کیا لکھا قلمی بونے کا ناطقہ بند کر دیا گیا بونے صحافی کو یاد ہے لاہور کے پنچ ستارہ ہوٹل میں بلا کر وردی والوں نے خاندان کے نام لیکر دھمکیاں دیں بلیک میلنگ کا دفتر کھولا گیا دفتر اور گھر کی جاسوسی شروع ہوگئی بالآخر ایک نیک صفت فوجی افسر نے وقتی طور پر سہارا دیا۔ اس سے پہلے گھر کے باہر ذاتی گاڑی کا شیشہ توڑا گیا اور ساتھ ہی فون کر کے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ قلمی بونے کا گھر ہی ہے نا!!! 2018ء کے الیکشن پر جو کچھ ہوا اس پر سلیم صافی نے حقیقت لکھ ڈالی دوسرے ہی دن ٹی وی کی نشریات بند ہو گئیں ،قلمی بونے پر الزام لگا کہ اس نے بطور ایڈیٹر یہ مضمون کیوں شائع کیا قلمی بونے کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ خیر یہ سب کچھ توگزرا سو گزر گیا مگر اب مقبول دیو ساری تاریخ پر سیاہی پھیرنا چاہتا ہے کل کے قبول دیو کے ایجنٹ جو بونے صحافیوں کو غدار کہتے تھے یک لخت حریت پسند ہو گئے اور وہ سب قلمی بونے جو ڈر ڈر کر قبول دیو کیخلاف لڑتے رہے تھے کبھی انکو لفافی، فوج کا ایجنٹ اور کبھی کسی سیاستدان کا دوست اورکسی کا محرم راز قرار دیکر اپنے آپکو سرخ رو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ڈالر بھی کماتے ہیں اور آزادی اظہار کے ابدی اصول کی نفی بھی کرتے ہیں مقبول دیو کا ساتھی ہونا انکے نزدیک حریت پسندی اور بہادری ہے جبکہ انکے بیانیے کے مخالف ایک لفظ بھی کہنا ایجنٹی ہے۔ قبول دیو اور مقبول دیو میں فرق ہی کتنا ہے؟دونوں اختلاف کے دشمن ،جمہوری رویوں کے حریف اور دوسروں کو دبانے پریقین رکھتے ہیں۔
بونے صحافیوں کا کیا مقام اور مرتبہ؟ ان ملنگوں کو کونے میں ہی پڑا رہنے دو ۔ موجودہ دور ہی کی کہانی ہے ابھی پرانی بھی نہیں ہوئی سب سے بڑی ایجنسی کے سابقہ سربراہ کو بونے صحافی کی ایک علامتی تحریر ‘‘لومڑ اور بارہ سنگھا ‘‘شدید ناپسند آ گئی اسے ویب سائٹس سے اتروا دیا گیا اور آج تک وُہ معاملہ چل رہا ہے، کئی احباب سےکالم تحریرکرائےگئے اور لکھنے والےناہنجار کےلتے لئے گئے مگر افسوس کہ ان صاحب کی کرسی اور جاہ و حشم جاتا رہا تو قلمی بونے کوآرام نصیب ہوا و گرنہ ان جنرل صاحب کا تو خیال تھا کہ یہ بین الاقوامی سازش ہے جو دبئی میں تیار ہوئی تھی جسکی بنا پر قلمی بونے سے یہ تحریر سرزد ہوئی۔ یہ ذاتی سرگزشت ہےایک قلمی بونے کی، صرف یہ بتانے کیلئے بونوں کی زندگی آسان نہیں ہوتی مگر ہم قلمی بونے حریت پسندی اور لیڈری کے دعویدار نہیں ہم اسے اپنی صحافت کا حصّہ سمجھ کر برداشت کرتے ہیں۔
یادش بخیر قلمی بونوں کے کچھ اصول ہوتے تھے جنہیں قبول اور مقبول دیو دونوں نے برباد کر دیا ہے اصول تھا کہ خبر کے درست یا نادرست ہونے پر بات کی جائے خبر دینےوالے کو نشانہ نہ بنایا جا ئے عالمی اصول ہے Don't shoot the messenger (پیغام رساں کو مت مارو) اسی طرح آپ تجزیے سے اختلاف کریں تجزیہ نگار کو نشانہ نہ بنائیں
اگر صحافیوں کے نام لیکر ان پر تنقید و تبصرہ کرنے کو جائز سمجھا جاتا تو مقبول دیو کے ہر پجاری کا ماضی قبول دیو کی بوٹ پالشی اور مالی مفاد سے لبریز ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مقبول صحافی کو اسکی مرضی کیخلاف خبر ملے تو وُہ اسے نہیں چلائے گا ؟ اگر تو ایسا ہے تو وُہ سرے سے صحافی ہی نہیں ہے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ خبر دینے والا اس خبر سے اتفاق بھی کرتا ہو۔ خبر تو خبر ہوتی ہے۔