• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساڑھے تین سو مربع کلومیٹر کے چھوٹے سے حصار میں بند، اکیس لاکھ انسانوں کی بستی، معلوم انسانی تاریخ کے سب سے ہیبت ناک عقوبت خانے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ بھوک سے نڈھال مائوں کی گود میں بلکتے ہڈیوں کے معصوم ڈھانچے، دودھ کی بوند بوند کو ترستے بچے، تقسیم ِخوراک کے مراکز پر خالی برتن اٹھائے خستہ حال انسانوں کے ہجوم، ادویات سے محروم، موت کی آغوش میں جاتے مریض، ایک ایک قطرۂِ آب کو ترستی خلقِ خدا اور اندوہ ناک انسانی المیّے سے لطف اندوز ہوتا اسرائیل__ یہ سب کچھ اکیسویں صدی کی اُس دنیا کی کھُلی آنکھوں کے عین سامنے ہو رہا ہے جو صبح وشام تقدیسِ آدمیت کے ترانے گاتی اور بنیادی انسانی حقوق کے نغمے الاپتی ہے۔ دنیا کے دو سو کے لگ بھگ ممالک میں آباد آٹھ ارب سے زائد انسانوں کے لئے یہ سب کچھ معمول کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ اس لئے کہ بھوک، پیاس اور شدید غذائی قلت سے مرتے لوگ مسلمان ہیں۔ فلسطینی ہیں۔ سو اُن کے حقوق سلب ہوچکے ہیں۔ بھوک کے باعث ایک پالتو جانور مرجائے تو اُس کے مالک پر مقدمہ چلتا ہے، اُسے سزا ہوتی ہے۔ لیکن غزہ کے فلسطینی، بنی نوعِ انسان سے تعلق رکھتے ہیں نہ ہی اُنہیں جانوروں جیسے حقوق دئیے جاسکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن پر بم برسانے اور ترسیلِ خوراک کے راستے بند کرنے والے ملک کا نام اسرائیل ہے جسے فلسطینیوں کی زمین غصب کرنے، اُنہیں آگ اور بارُدو میں بھسم کرنے اور بھوک پیاس سے مارنے کا استحقاق حاصل ہے۔ جو نشانے لے لے کر عالمی راہنمائوں، سائنسدانوں اور مطلوب شخصیات کے سینے چھلنی کرسکتا ہے۔ جو اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہے اور جو نہتے انسانوں کو اپنی پسند کے طریقوں سے قتل کرنے کا لائسنس لئے پھرتا ہے۔ غزہ کی تصویرکشی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا:

"Horror show with a level of death and destruction without parallel in recent times."

(موت اور تباہی وبربادی کا ایسا خوف ناک منظر جس کی کوئی نظیر حالیہ دور میں نہیں ملتی)

آج تک کسی جنگ نے لالہ وگُل نہیں کھلائے۔ ازل سے جنگیں موت، تباہی وبربادی اور غارت گری کی علامتیں رہی ہیں۔ تیروشمشیر کا عہدِ قدیم ہو یا نامیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا عہدِ جدید، ہر جنگ کا نتیجہ لاشوں اور مختلف النوع انسانی المیّوں کی شکل میں نکلا۔ ایک زمانے میں حملہ آور لشکر خوراک اور ہر نوع کے سامانِ رسد کی ناکہ بندی کو موثر ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے تھے لیکن قلعے کے دروازے کھُل جانے اور ترکِ مزاحمت کے بعد، دشمن کو بھی بھوک اور پیاس سے مارنے کی مثالیں شاید ہی ملیں۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی ایسا غیرانسانی سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ اب تو اُن کی خوراک اور رہائش سے لے کر تمام انسانی ضروریات کے حوالے سے واضح حقوق کے عالمی عہد نامے مرتب ہوچکے ہیں۔ لیکن غزہ کے عقوبت خانے میں بند اکیس لاکھ فلسطینی اُن حقوق سے بھی محروم ہیں جو جینیوا کنونشن جنگی قیدیوں کو دیتا ہے۔ غزہ پر ٹوٹنے والی تازہ قیامت کو اب پونے دو سال ہوچلے ہیں۔ اکتوبر2023؁ سے شروع ہونے والی اسرائیلی یلغار کسی نہ کسی طور پر جاری ہے۔ غزہ تباہی وبربادی کا استعارہ بن چکا ہے۔ ٹینکوں، توپوں، جنگی طیاروں اور کسی وقفے کے بغیر میزائلوں کی بارش نے بھری پُری بستی کو کھنڈر میں بدل دیا ہے۔ نہ ہسپتال رہے، نہ تعلیمی ادارے، نہ عبادت گاہیں نہ بازار، نہ انفراسٹرکچر نہ انتظامی ڈھانچہ ، نہ مکان نہ گذرگاہیں۔ سب کچھ پیوند زمین ہوگیا۔ بستیاں مٹ گئیں، قبرستان پھیل گئے۔ اب تک غزہ کے گورستانوں میں چھوٹی بڑی باسٹھ ہزار قبروں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ہزاروں ایسے بھی ہونگے جن کے جسم کا کوئی حصہ نہ ملا کہ اُسے کفنایا اور دفنایا جاسکتا۔

پھر اسرائیل نے بچے کھچے لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کیلئے ایسا سفاک اور انسانیت سوز طریقہ اختیار کیا جو انسانیت کی ہلکی سی رمق رکھنے والی کسی قوم کے دل ودماغ میں جگہ نہیں پاسکتا۔ اہلِ غزہ کو خوراک، پانی، ادویات اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی بند کردی گئی۔ یہ سلسلہ 2 مارچ 2025؁ سے شروع ہوا جو کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری رہے۔ اسرائیل کے عزائم کا ساتھ دیتے ہوئے سب سے بڑے پڑوسی مسلم ملک نے اِس ناکہ بندی میں بھرپور تعاون کیا۔ جنگ زدہ اور تباہ حال غزہ کے بچے کھچے نیم جاں لوگوں میں اتنی بڑی قیامت برداشت کرنے کی سکت نہ تھی۔ سو رقصِ مرگ شروع ہوگیا۔ لوگ بھوک اور پیاس سے مرنے لگے۔ ناکافی غذا نے سب سے زیادہ بچوں اور اُن کی مائوں کو متاثر کیا۔ دیکھتے دیکھتے وہ ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ بے بس مائیں ان ڈھانچوں کو اپنے ناتواں بازئوں میں سمیٹے تقسیم ِخوراک کے مراکز پر دھکے کھانے لگیں ان کم نصیبوں کو یہ بھی پتہ نہ چلا کہ اُنہوں نے جس ڈھانچے کو سختی سے آغوش میں بھینچ رکھا ہے، وہ کب کا بھوک اور پیاس سے بے نیاز ہوچکا ہے۔ شدید عالمی دبائو کے بعد، مئی میں اسرائیل نے، ترسیل خوراک کی واحد زمینی راہداری کو، خون کی تنگ شریان کی حد تک کھولا۔ یہ جزوی عنایت، محض ڈرامہ ٹھری۔ اکتوبر 2023؁ سے قبل روزانہ پانچ چھ سو ٹرک، اکیس لاکھ شہریوں کو خوراک، پانی، ادویات، ایندھن وغیرہ فراہم کرتے تھے۔ کوئی دو ماہ تک اسرائیل نے یہ راہداری مکمل طورپر بند رکھی۔ مئی سے پانچ چھ سو ٹرکوں کے بجائے، صرف اٹھائیس ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت ہے۔ تصوّر کیا جاسکتا ہے کہ قلّتِ خوراک کا کیا عالم ہوگا۔ اس وقت بھی پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے آئے، خوراک سے لدے لگ بھگ سات سو ٹرک مصر غزہ راہداری پر قطار باندھے کھڑے ہیں۔ ان ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ملے اور ترسیلِ خوراک کا سلسلہ کسی رکاوٹ کے بغیر شروع ہوجائے تو صورتِ حال سنبھل سکتی ہے لیکن اسرائیل کی ابلیسی سرشت کو زندگی نہیں، موت کا رقص چاہیے۔ وہ خوراک کے مراکز پر دھکم پیل کرتے اور ذرا سی خوراک کیلئے لڑتے مرتے لوگوں پر بھی گولیاں برسا رہا ہے۔ اب تک ان مراکز پر 1050افراد جاں بحق اور 6511شدید زخمی ہوچکے ہیں۔ اُدھر معصوم بچوں اور خواتین سمیت کم ازکم ایک سو تیس افراد بھوک، پیاس اور خوراک کی نایابی کے باعث زندگی ہار چکے ہیں۔ صرف ایک دِن، 22جولائی کو چار معصوم بچوں سمیت پندرہ افراد کے جنازے اٹھے۔ غزہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت نولاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ ستر ہزار بچے ایسے ہیں جو اب علاج کے قابل بھی نہیں رہے۔

دو دِن قبل غزہ کے مقیّد مصیبت زدگان تک سمندر کے راستے مدد فراہم کرنے کی کوشش کرنے والی کشتی پر اسرائیلی ٹوٹ پڑے اور کشتی پر سوار تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ بڑھتے ہوئے عالمی دبائو اور خاص طورپر یورپی ممالک کی حکومتوں میں اُبھرتی نئی سوچ کے پیش ِ نظر اسرائیل کو اپنی سفاکیّت سے ہٹ کر ترسیلِ خوراک کی ناکہ بندی نرم کرنا پڑی ہے۔ اگر فاقہ زدہ عوام کو مطلوب خوراک سمیت مختلف النوع سامان کی ترسیل کا سلسلہ قبل از جنگ کے معمول کے مطابق شروع ہوجاتا ہے اور اسرائیل اِس میں کوئی رخنہ نہیں ڈالتا تو بھی صورت حال کے سنبھلنے میں خاصا وقت لگے گا۔ ایسے میں ’اُمت مسلمہ‘ کیا کر رہی ہے؟ دو ارب کے لگ بھگ مسلمان کیا حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کہاں ہے؟ عرب لیگ کس گوشۂِ عافیت میں حالتِ مراقبہ میں ہے؟ کم ازکم مجھے کچھ علم نہیں۔

تازہ ترین