• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنی زندگی کی باتیں لکھیں۔ وہ سب یادداشتوں پر مبنی تھیں۔ مگر فرحت اللہ بابر نے زرداری صاحب کے ساتھ 2008-2013ء تک جوسال ترجمان کی حیثیت سے گزارے۔ ان میں بیشمار آلام ومصائب، فوجی سطح پر غلطیاں اور زرداری صاحب کی طبیعت کی حلیمی کئی جگہ نظر آئی۔ ایسے لمحوں میں بیورو کریسی نے جو پینترے بدلے، پڑھ کر شرمندگی ہوئی۔فرحت توہمارےبیچ میں انفرمیشن منسٹری میں تھے پھر سیاست میںچلے گئے، بے نظیر کے ساتھ بہت کام کیا۔ انکی باقاعدہ تحریرپہلی دفعہ مسبوط کتابی شکل میں نظر آئی۔ پوری تحریر میں کہیں لفاظی یا خوشامد کی رمق نہیں ۔میں نے ان سے کتاب مانگی اور پڑھ کر پہلا سوال کیا یہ سب باتیں توآپ نے ڈائری میں نوٹ کی ہونگی۔ انہوں نے نہ صرف تصدیق کی بلکہ بیانیے میں روزمرہ پیش آنے والے طرح طرح کے لوگوں کو نظر اندازکیا اور ساڑھے چارسال نوکری پر مخصوص رکھے۔ ایک اور اہم نکتہ پوری کتاب کو چند صفحوں پر مشتمل ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ہر باب کا آخری پیرا بہت سےپنہاں اشارت کی شکل میں مختصرکیا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کو جن الزامات کی کٹھور چھاننی سے گزرنا پڑا اور بارہ سال تک جیل میں مقید رہنے کے زمانے میں بھی ، ان پر حملے ،زبان کاٹنے کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ سارے زمانے اوربےنظیر سے شادی کے بعد انکی وفات تک مسٹر ٹین پر سنٹ یا22%وغیرہ قسم کے الزامات کو صاحب تصنیف نے بہت تہذیب کے ساتھ کہیں رد کیا ہے اورکہیں درگزر کیا ہے۔ سیف الرحمان کا پیر پکڑ کر معافی مانگنا دلچسپ ہے۔

فضا میں پھیلی بہت سی افواہوں کی سچائی کی منزل پر پہنچنا، کوئی آسان کام نہیں تھا، چاہے وہ اسامہ کے چھ سال تک ایبٹ آباد میں رہنے اور عسکری کا کہناکہ خبر ہی نہیں ہوئی، اس پر طرہ یہ کہ امریکی جہازوں کا بیڑہ آیا اسامہ کو مار کر لاش بوری میں بند کر کےسمندر میں پھینک کر چلا گیا ،ایسی جگہ پر زرداری صاحب کی پیش بینی کام آئی ، ورنہ حکومت اور فوج میں سب کچھ تلپٹ ہوسکتا تھا۔ اور پاکستان میں ایک بار پھر مارشل لاء لگ سکتا تھا۔

تاریخ شاہد ہے کہ ون یونٹ کا مخمصہ اور چاروں صوبوں میں تناؤ کو ختم کرنے کیلئے، اپنے صدارتی اختیارات اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ کو دے دیے۔ اسکے بعد صوبوں کا تناؤ پھر بھی کم نہ ہوا اور من مانیاں ہر صوبے میں ہوتی رہیں۔

زرداری صاحب نے دوستوں کے ساتھ نباہنے میں میمو گیٹ اسکینڈل میں حسین حقانی کو جس طرح بچایا ۔ وہ تو نواز شریف صاحب کے خود آکر معذرت کرنے پر ہوا میں اڑ گیا اور ریمنڈ ڈیوس کے جرم کی تلافی کا معاملہ امریکی سرکاری لوگ جلدی ختم کرنے کے لئے جس طرح راتوں رات پہلی دفعہ خون بہا کی اسلامی شق کے باعث، ورثا کو دولت کے انبار تلے دبا کر اور ایئر پورٹ پر کھڑے جہاز میں ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ واپس لے گئے۔ اسکے بعد اس شق کو جس بے دردی سے دولت والوں نے انسانوں کو مارنے کیلئے بے خوفی سے اختیار کیا ہے، وہ آئے روز نظر آتا ہے۔

ذہنی طور پرجہاں زداری صاحب اکثر بے نظیر کی قوت استدلال، استقامت اور سیاسی وسیع النظری کی تعریف کرتے ہیں۔ وہیں برما کی انقلابی خاتون سون سوچی سے ملاقات کا اس طرح شوق تھا جیسے بی بی لیلیٰ خالدسے مل کر بہت خوش ہوئی تھیں۔

سیاسی طور پر تو کتاب وکی لیکس، مشرف کو تخت پر سے اتارنے اور افتخار چوہدری اوراس وقت کے چیف آف اسٹاف کو اپنی آئینی حدود میںرکھنے کے اقدامات ، پڑھنے کے بعد، قاری کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ وہ زمانہ بھی یاد کیاہے جب ہلیری کلنٹن پاکستان آئیں اور پاکستان سے تعلقات پر حرف زنی کی ۔

فرحت اللہ بابرنے اپنی ڈائری میں کچھ ایسے نام درج کیے ہیں۔ جن کو آج کے زمانے میں دہرایا نہیں جاسکتا، مگر ذہنی سطح پر انکی موجودگی کوچہ صدر میں عملاً دیکھا جانا، نہ فرحت کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے نہ پہلے کسی نے صحافیانہ انداز میں اس کا ذکر کیا ۔

ایک بہت ہی خوش کن بات یہ کہ بلاول بھٹو کی مختلف تضادات اور عسکری حلقوں سے رنجش کو جس طرح اس نے اپنے باپ کو سکون اور صبر کے ساتھ سمجھایا، اس تحریر کو پڑھ کر اس نوجوان سے کچھ توقعات کی جاسکتی ہیں۔

ایک تاریخی سچ جو انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں چھیڑا وہ تھا بھٹو صاحب کی غلط اور غیر سیاسی پھانسی، جو بعد میں قاضی عیسیٰ کے زمانے میں، قانونی غلطی کے طور پرلکھی گئی ہے۔ صدارت کا عہدہ چھوڑتے ہوئے، بڑی متانت کے ساتھ اپنے رقیب نواز شریف کو بطور وزیر اعظم کا حلف دلوایا اور سکون کے ساتھ سر اونچا کرکےقصر صدارت کو خیرباد کہا۔

فرحت اللہ بابر، عرصہ 25سال سے ایسے دوست ہیں کہ سیاسی اور ادبی جلسوں میں شرکت کرتے اور ہمیشہ نوٹس بناتے ہیں۔ ان سے ہم سب لکھنے والوں کی کاغذی دوستی ہے۔ ان25برسوں میں انہوں نے ذاتی باتوں اور شکایتوں کا کبھی ذکر ہی نہیں کیا۔میں نے اس کتاب کے ابتدا ئیہ میں پہلی دفعہ انکی بیگم کا نام پڑھا اتنے لمبےسیاسی کیرئیر میں، ہم سب انکی گفتار اور کردار میں درویشی دیکھتے رہے ہیں۔ تحریری طور پر کبھی کبھی مضامین اخبار میں لکھتے ہیں مگر زرداری نامہ نہیں۔اس ملک کی سیاست کی کتنی کمینگیاں عیاں کیں اور کتنے لوگوں کے مکھوٹے فرحت نے اتارے ہیں، ان سب کو تکلیف توہوگی مگر ٹھنڈی آہیں....یہ بھی مفروضہ ہے کہ شرمندگی تو سیاست کے کسی صفحے پر ٹپکتی نظر نہیں آتی ۔

تازہ ترین