بھارت کے دارالحکومت دہلی میں جاری لوک سبھا کے اجلاس میں کافی تماشے ہو رہے ہیں، لوک سبھا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آپریشن سندور پر جھوٹ کے انبار لگا دیئے ہیں۔ مودی جی نے امریکی صدر اور عالمی میڈیا کی بارہا تصدیق کے باوجود آپریشن سندور کا حقیقی انجام ماننے سے انکار کردیا ہے، آپریشن سندور پر جاری لوک سبھا اجلاس میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ’’دنیا کے کسی بھی نیتا (رہنما) نے بھارت سے آپریشن روکنے کا مطالبہ نہیں کیا، میں ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ آپریشن سندور اب بھی جاری ہے‘‘۔ بھارتی لوک سبھا میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ بھارت کی جانب سے کرنل صوفیہ قریشی نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جبکہ بھارتی ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے اودھم پور، آدم پور، بھج اور پٹھان کوٹ ایئر بیسز کی تباہی کا اعتراف کیا تھا۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، بی بی سی اور سی این این سمیت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور اخبارات نے بھارتی شکست کو بیان کیا بلکہ برطانوی اخبارات نے پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس کو فضاؤں کا بادشاہ قرار دیا ۔ سی این این کے مطابق امریکی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرائی۔ ویسے آپس کی بات ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شغل لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، انہوں نے 29سے زائد مرتبہ پاک بھارت کشیدگی روکنے اور خطے کو نیوکلیئر جنگ سے بچانے کا تذکرہ کیا۔ بھارتی پارلیمنٹ میں امرتسر سے تعلق رکھنے والے ایم پی گرجیت سنگھ اوجلا نے بھارتی فضائیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ اگر پاکستان نے آپ کا ایک طیارہ بھی نہیں گرایا تو میں وزیراعظم اور وزیر دفاع سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ 35 رافیل طیاروں کی پریڈ کرائیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ہمارے پاس سارے جہازصحیح سلامت موجود ہیں‘‘۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ایک اور رکن راجہ امرندر سنگھ نے ایوان میں تباہ شدہ رافیل کی تصویر لہراتے ہوئے کہا کہ’’میں خود بھارتی طیارے گرنے کا چشم دید گواہ ہوں‘‘۔ امرندر سنگھ نے مزید انکشاف کیا کہ’’پنجاب میں بسیانہ ایئر بیس کے پاس ایک لڑاکا طیارے کا ٹیل گرا، یہ ٹیل رافیل طیارے کا تھا، جس پر BS-001 لکھا ہوا تھا، بھارتی ایئر مارشل نے بھی طیارہ گرنے کی تصدیق کی تھی‘‘۔
ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مودی کا مذاق اڑاتے ہیں تو دوسری طرف امریکہ نے بطور ریاست بھارت سے سرد مہری اختیار کر رکھی ہے جبکہ پاکستان سے قربت کا اظہار کیا جا رہا ہے، امریکہ پاکستان سے تجارتی ڈیل کر رہا ہے اور بھارت پر ٹیرف میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بھارتی لوک سبھا کے حالیہ اجلاس کو دیکھ کر کم و بیش پندرہ سوالات ایسے پیدا ہوتے ہیں، جن کا جواب شاید مودی سرکار کے پاس نہیں ہے۔
1۔ بھارتی پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس میں بی جے پی حکومت مسلسل دفاعی پوزیشن پر کیوں دکھائی دے رہی ہے؟2۔ کیا پہلگام حملے، رافیل گرنے اور آپریشن مہادیو نے مودی سرکار کو عوامی اور سیاسی دباؤ میں جکڑ نہیں لیا؟3۔ سیالکوٹی سسرال کی حامل پریانکا گاندھی نے سیکورٹی ناکامی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا، حساس مقام پر سیکورٹی کا بندوبست کیوں نہیں تھا؟4 ۔ کانگریس اور دیگر جماعتوں نے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کو مکمل ناکامی کیوں قرار دیا؟5۔ آپریشن سندور میں عسکری ناکامی پر سوالات کے جواب میں بھارتی حکومت خاموش کیوں ہے؟6۔ لوک سبھا میں فرانسز جارج نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے کم از کم تین رافیل طیارے مار گرائے، حکومت چھپا کیوں رہی ہے؟7۔ رافیل طیارے گرنے کے حادثے کو “Unidentified incident” کہہ کر کیوں دبا دیا گیا؟ حالانکہ میڈیا اور عوام اصل کہانی سامنے لے آئے تھے۔8۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت حقائق چھپانےکیلئے آپریشن مہادیو کا سہارا کیوں لے رہی ہے؟9۔ امیت شاہ نے تین مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، ثبوت کے طور پر چاکلیٹ کیوں دکھائی؟10۔ این آئی اے کی جانب سے چاکلیٹ کو بطور ثبوت پیش کرنا حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔11۔ اپوزیشن نے چاکلیٹ کو ثبوت بنانے پر طنز کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ ’’یہ جنگ ہے یا فلم کی شوٹنگ؟‘‘12۔ بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات سے مسلسل انکار کیوں کر رہا ہے؟ یہی انکار حکومتی دعوؤں کو مشکوک بناتا ہے۔13۔ ٹرمپ کی جنگ بندی تجویز کو فوراً تسلیم کرنا بھی حکومتی گھبراہٹ کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔14۔ اپوزیشن کے ہر وار پر حکومت کی خاموشی، کیا شکست اور بے بسی ظاہر نہیں کر رہی؟15۔ پہلگام سے رافیل اور مہادیو تک ہر سوال بی جے پی کیلئے’’ناک آؤٹ پنچ‘‘کیوں بنتا جا رہا ہے؟
لوک سبھا میں مودی جی کی بے بسی دیکھ کر عائشہ مسعود کا شعر یاد آتا ہے کہ
ہے بہت دشوار عاشی آئینے کا سامنا
کون سا چہرہ کرو گے آئینے کے سامنے