• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خارجی و معاشی کامرانی گُڈ گورننس کی تلاش میں!

ایک طرف پاکستان آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی تعریف و توصیف سمیٹ رہا ہے اور دوسری جانب امریکہ میں وزیرِ خارجہ و وزیرِ خزانہ امید کے نئے در وا کر رہے ہیں۔ یہی نہیں نام نہاد سیندور آپریشن کے بعد بھارت کے نہ سیاسی زخم بھر رہے اور نہ خارجی، نہ اپنی اپوزیشن کو مطمئن کر پا رہا ہے اور نہ بھارت اعتماد کی ڈگر پر آرہا ہے تاہم سنگین اضطراب کی پاداش میں آپریشن مہا دیو کے نام سےکسی نئی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا یا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مطلب یہ کہ دشمن بگاڑ میں غوطہ زن ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار۔ گویا پاکستان کا دشمن دلدلوں میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ عندیہ پاکستان کیلئے اور بھی باعثِ مسرت ہے کہ وہ پاکستان سے مل کر تیل کے ذخائر کو ترقی دینے کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اہم ایام ہیں کہ اگر پاکستان میں موجود خارجی تھنک ٹینک حکومت کیلئے جاندار مشیر ثابت ہوں اور اقتصادی ماہرین امیدوں میں اپنے جلووں کو شامل کر دیں تو "حقیقی اقتصادی" ترقی کا دامن وسیع ہو سکتا ہے ، اور شاید خطِ افلاس سے نیچے بسنے والوں کو بھی معلوم ہو سکے کہ زندگی میں چار چاند لگنے کا نظارہ کیا ہوتا ہے !پاکستان کو جو دکھ وراثت میں ملے ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ سماجی، معاشی، سیاسی اور جغرافیائی دکھ ختم ہونے کا نام لینے کے بجائے قوم کے سنگ سنگ پل رہے ہیں : کشمیر کا دکھ سب سے بڑا ہے، کسی کو انصاف ملنا محال ہے، کسی کو ذات پات کا اژدھا نگل رہا ہے، کوئی دوا دارو کی جستجو میں بےبسی کا مسافر رہا ، بیوروکریسی کو آزاد ملک کے سانچے میں ڈھالنے سے ہم قاصر رہے، ٹیکس کا کلچر پروان نہ چڑھ سکا، صنعتیں دم توڑتی گئیں، تعلیم سے کوالٹی کا مسلسل کوچ رہا، دوستی کے بارڈر بھی گاہے گاہے انڈین بارڈرز کی طرح ناک میں دم کرتے رہے مگر پاکستان ہمیشہ انکے زخموں کا مرہم ہی بنا، یوں ان وراثتی امراض کا علاج نہ ہو سکنا ہماری وراثتی کامرانیوں اور بل بوتے پر کمائی کامیابیوں کو سب موسموں اور ادوار میں نگلتا رہا ۔ یہ سب ہماری پالیسیوں کو عملی جامہ نہ ملنے کے سبب تھا یا بالا خانوں میں رونق افروز اقرباپروروں کی حرص و ہوس کا شاخسانہ؟حکومت جہاں اتنی "جانفشانی"کا مظاہرہ کر رہی ہے وہاں قوم پر ایک اور مہربانی فرمائے کہ جس نوازش کا وعدہ بانی پی ٹی آئی نے کیا تھا کہ اصلاحات کو فروغ دیں گے۔ بات دراصل یہ ہے کہ محنتیں اور مشقتیں اس وقت بار آور نہیں ہوسکتیں جب تک انکا نکاح پائیداری (Sustainability) سے نہ ہو۔ اور پائیدار ترقی و پائیدار معیشت ، پائیدار سماجیات اور پائیدار جمہوریت کیلئے اصلاحات کو بروئے کار لانا اتناہی ضروری ہے جتنا سانس کیلئے آکسیجن... چلتے چلتے یونہی تاجور نجیب آبادی یاد آگیا کہ: نہ میں بدلا نہ وہ بدلے نہ دل کی آرزو بدلی/میں کیوں کر اعتبار انقلاب ناتواں کر لوں۔وقت کیساتھ جو بات سمجھ سے مزید دور ہوتی جا رہی ہے وہ یہ کہ ہم چینی اور گندم کو بھی امپورٹ کرنے کے درپے رہیں گے، چکن روز مہنگا ہوتا دیکھیں گے، آلو، ٹماٹر اور  لیموںاچانک تیس سے تین سو روپے پر جاتا دیکھیں گے تو پتہ نہیں چلتا کہ ہم زراعت ، ڈیری اور پولٹری سے آسان اور کم محنت طلب مطلوبہ ٹاسک بھی پانے سے قاصر ہیں۔ آخر کیوں ؟ کون قصور وار ہے ؟ صاف بات ہے پالیسی ساز اور انتظامیہ ! اجی جن کامرانیوں کا تذکرہ ہم نے اس صریر خامہ کے آغاز میں کیا ہے، اس امید کیلئے حسن ظن ہمارے پاس ڈھیروں ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کو سنا جائے یا نہ سنا جائے، لیکن اس الارم کو تو دھیان چاہئے،آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا حالیہ فرمان ہے کہ شوگر مل مالکان نے اضافی 300 ارب کا منافع کمال فنکاری سے ایک سائیڈ پر لگایا ہے۔اہل اقتدار نے جونہی ذرا سی برآمدات کی اجازت سے نوازا تو ٹیکس چوری کے سنگ مہنگائی کی راہیں بھی ہموار کردی گئیں۔ اور جان کی امان پا کر ہم غریب یہ عرض کردیں کہ یہ محض اسکینڈل نہیں گڈ گورنس کے حسین چہرے کو داغ دینا ہے ، اور یہ سب ایوانوں کیلئے کلنک کا ٹیکہ نہیں تو کیا ہے ؟ پھر سوال بھی تو اٹھیں گے، سو بقول جان کاشمیری:جان جینے کی روایت سے بغاوت کر کے/ زندگی کتنے سوالوں میں بدل جاتی ہے۔پارلیمانی اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر خان نے آڈیٹر جنرل پاکستان کے مرثیے کے بعد پارلیمنٹ میں جس 42 فیملی کلب کا تذکرہ کیا ہے، جن کے "چینی امپورٹ ایکسپورٹ" در کھولنے کے سبب معاشی دیوار کھوکھلی ہوگئی کیا اس میں میرے اور آپ کے راج دلارے قائدین نہیں؟ وہی گڈ گورنس کا راگ الاپنے والے ! کبھی وضو ہے تو نماز نہیں ، نماز ہے تو وضو نہیں۔ خارجی قیام ہوں کہ داخلی رکوع یا معاشی سجود ہر لمحہ خشوع و خضوع نہیں تو کچھ بھی نہیں !مانا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک و ورلڈ بینک و آئی ایم ایف  کے اندازے، انداز اور خیالات خوشی کی نوید ہیں ، یہ بھی مانا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہمارے ہاں بھاری تیل پائے جانے "اصطلاح اور اطلاع" بھی درست ہے کہ کوئی فینٹیسی ہے نہ فرضی معاملہ... حقیقت ہے کہ سوئی گیس و گھوٹکی وغیرہ سے نکالنے کے بعد بھی، سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں یا مکران ( مَرے دِن زون ) میں تیل کے بھاری ذخائر ہیں۔ ہنوز یہ پیچیدہ خوش بختی ہے واضح خوش قسمتی نہیں مگر امریکہ "محبت" پہلے ہی ہے اوپر سے ٹرمپ رومانس بھارتی چھاتی پر مونگ دل رہا تو مزہ لینے میں کوئی حرج نہیں تاہم مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی پورے خطے کی اسٹرٹیجی اور معیشت کو دوام بخشے گی اور پورے عالم کو امن بھی دے گی یوں کتنے ہی امن ماڈل جنم لیں گے اور اسرائیل سے ایران تک کے عالمی بناؤ کو تقویت ملے گی... ٹرمپ اور عالمی اداروں کے متذکرہ مصمم ارادوں کی آگاہی تک  کیوں نہ زراعت، مائیکرو انڈسٹری، فراہمی روزگار، مفید تعلیم ، اسپرین حصول، انسدادِ پولیو، بیوروکریسی و جامعاتی اصلاحات ہی کا کچھ کرلیں کہ خطِ افلاس سے نیچے بسنے والوں کی تمنائیں بھی "گڈ گورنس" کیلئے دعاگو ہو جائیں!

تازہ ترین