امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بدھ کے روز جاری بیان اور ایگزیکٹو آرڈرنے ،جسے مبصرین بھارت کیلئے نئے ’’ٹیرف بم‘‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، بھارتی معیشت میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی جبکہ بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے وزیراعظم نریندرا مودی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔ واشنگٹن نے روس سے تیل خریدنے پر بطور سزا بھارت کے لئے مزید 25فیصد ٹیرف لگا کر اس کی مصنوعات پر امریکی ٹیرف 50فیصد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ 3اگست کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے پیغام میں بھارت کو متنبہّ کرچکے ہیں کہ اسے ٹیرف میں اضافے کا سامنا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نہ صرف بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ وہ اس خریدے ہوئے تیل کو کھلی مارکیٹ میں بڑے منافع پر فروخت بھی کررہا ہے۔ امریکی صدر کے بیان کے بموجب بھارت اچھا تجارتی پارٹنر نہیں، وہ روس سے تیل خرید کر یوکرین میں جنگی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔یہی باتیں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ وائٹ ہائوس کی جانب سے نئے ٹیرف کے جواز میں دہرائی گئی ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں نئی دہلی پر مزید ٹیرف عائد کرنے کو غیر منصفانہ بلاجوازاور غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انڈیا اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے گا۔ ایگزیکٹو آرڈر میں ٹرمپ نے وضاحت کی کہ یوکرین میں روس کی مسلسل فوجی کارروائیاں ایک ’’قومی ہنگامی صورت حال‘‘ ہیں اسلئے بھارت پر،جو اسکی پیٹرولیم مصنوعات کا بڑا صارف ہے، اضافی محصولات عائد کرنا ضروری اور مناسب تھا۔ بھارت پر 25فیصد ٹیرف کا نفاذ جمعرات 7اگست 2025ء سے کیا گیا جبکہ محصولات میں مزید 25فیصد اضافے کے اعلان پر اگست کے آخری ہفتے میں عملدرآمد متوقع ہے۔ معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ امریکی ٹیرف میں اضافے سے بھارت کی 55فیصد برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔ ٹیکسٹائل، زیورات، چمڑے اور مشینری کی صنعتوں کو نقصان کا خدشہ ہے۔ دوائوں ، گاڑیوں کے پرزہ جات، زراعت، چھوٹی صنعتوں اور کاروبار پر اثرات مرتب ہونگے، سال 2025ء میں بھارت کی جی ڈی پی شرح ترقی 6فیصد سے کم ہوسکتی ہے۔ جبکہ بعض سیاستدانوں اور معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ نئی صورتحال میں بھارت کو نئی منصوبہ بندی کرنے اور نئے میدانوں میں کاوشیں کرنے کا موقع ملے گا۔ امریکی اقدامات کے تناظر میں ایک طرف بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت اوول روسی حکام سے مذاکرات کے لئے ماسکو گئے ہیں۔ دوسری طرف روسی صدر پیوٹن اور امریکی صدر کے خصوصی مندوب اسٹیون ونکوف کے درمیان یوکرین کے معاملے پر مذاکرات ہوئے جنہیںروسی صدرنےتعمیری قرار دیا۔ امریکی صدر کی طرف سے ماسکو پر یوکرین حملہ روکنے یانئی پابندیوں کا سامنا کرنے کیلئے جو ڈیڈ لائن دی گئی اس سے دو دن قبل یہ ملاقات ہوئی ہے۔ ملاقات سے قبل یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی نے واشنگٹن پرزوردیا کہ وہ جنگ بندی کیلئے ماسکو پر اپنا دبائو بڑھائے۔ اس بات چیت کی نوعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس یوکرین جنگ بندی کی صورت میں عالمی بحران میں کمی کے امکانات سامنے آسکتے ہیں۔ جہاں تک نئی دہلی کا تعلق ہے ، اسکے حکمرانوں کیلئے سب سے اچھا مشورہ یہی ہوسکتا ہے کہ وہ پڑوسیوں کو تابع و محکوم بنانے کی پالیسی سے اجتناب کرتے ہوئے امن و تعاون کی فضا میں اپنے اور پورے خطے کی ترقی وخوشحالی کیلئے مل کر کام کریں اور علاقے کے لوگوں کے ان خوابوں کو عملی تعبیر دینے میں کردار ادا کریں جو 1947ء سے نسل در نسل منتقل ہوتے آرہے ہیں۔