• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے 70برس پہلے، امریکہ نے فالتو گندم پاکستان کو بھیجی تو ہم نے اونٹ کے گلے میں  ’’تھینک یو امریکہ‘‘ کے ٹیگ لٹکاکر پورے ملک میں ڈنکے بجوائے اور ساربان کو امریکہ کی سیر بھی کروائی۔ اس کے بعد پاکستان امریکہ دوستی نے 60برس تک ہمیں کیسے کیسے فریب میں پھنسایا کہ تمام نقصانوں کا اندازہ لکھوں تو کتاب چاہئے۔ صرف چند اشارے کافی ہیں۔

مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بظاہر امریکہ کا ہاتھ نہیں تھا مگر ہماری مدد کیلئے جو بحری بیڑا چلا تھا وہ پہنچا ہی نہیں۔ یحییٰ خاں کے دور میں ہم نے کسنجر کو چھپا کے چین کی سیر کرائی۔ اسکو بھی بھول جائیں۔ ضیاء الحق کے زمانے سے لیکر آج تک کیسے دہشت گردوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو کلاشنکوف چلانا سکھایا اور کیسے بہت سے دلاسوں کے ذریعے افغانیوں کو پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا اوراب تک موجودہ حکومت کے بار بار نکالنے کے باوجود لاکھوں  افغانی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔

پاکستان بھر کی ٹرانسپورٹ اور اسکے ذریعہ ڈرگ مافیا بیس سال سے وہ جڑیں کھود چکا ہے کہ ہماری پولیس کے اہلکار تک اس غلط حرکت میں شامل نظر آتے ہیں یہ سب سمجھتے ہیں بس منہ سے وضاحت نہیں کرتے۔

جس زمانے میں فوجی شیروں کے پیچھے کھڑے ہوکر عمران نےجلوہ گر ہوکر کراچی کے سمندر پر کروڑوں لگا کر یہ تسلی دی کہ اب ایران یا کسی عرب ملک کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ تھوڑے ہی مہینوں میں اس غبارے سے پہلےہوا نکل گئی پھر جوہوتا رہااس ملک میں ہم نام لیکر لکھ نہیں سکتے، حالانکہ سب کو پتہ ہے۔ بانی تحریک کے زمانے میں جرگوں کا عمل دخل جو شروع ہوا۔ اور اب تو اتنا انکا حکم چلتا ہے کہ لڑکے، لڑکی کو ساتھ دیکھ کر غیرت کے نام پرقتل کرنا، روز کا معمول بن گیا ہے۔ ان جرگوں کو ختم کرنے کی بجائے ، ہمارے حکمران ان میں شمولیت کر کے، انکی متوازی حکمرانی کو قبول کرتے ہیں۔ آج سے بارہ برس پہلے کوہستان میں لڑکیوں کو مارا گیا تو عدالتیں تک بول پڑی تھیں۔

عورتوں کا ایک وفد بھی ججز کے کہنے پر وہاں ہیلی کاپٹر سے بھیجا گیا۔ انجام یہ ہوا کہ وہ نوجوان جس نے اسلام آبادمیں اس اس حادثے کا بتایا تھا، وہ نہ صرف مروادیا گیا بلکہ ہر علاقے میں جرگوں کی طاقت اتنی بڑھنے کی شاید اجازت دی گئی کہ اب وزیرستان اور دیامیر کے علاقوں میں کرفیو بھی کام نہیں آرہا۔

غیر ت کے نام پہ قتل جو معلوم عدالتوں یاسول سوسائٹی اور انسانی حقوق تک پہنچے صرف 2024ء میں 405نوجوان اپنی مرضی سے شادی کرنے کی جرأت کرنے پر ماردیئے گئے۔ ان کی تفصیلات دیکھی جائیں تو ان نوجوانوں کے ٹیلی فون رابطے اور وہ ڈرامے( آجکل ) دکھائے جاتے ہیں، ایک سبب ہوسکتا ہے۔دوسرے معاشرے میں مذہبی طور پر پھیلائی جنونیت ہےجس کے سبب بے ہنگم نوجوانوں کے ہجوم مذہب کے نام پہ مغلوب ہوکر لوگوں کوقتل کردیتے ہیں۔ (ڈاکٹر شکیل کا) قتل حیدرآباد میں اور دوسروں کو تکہ بوٹی کرکے مارنے ، مل کر جلادینے کے واقعات ، ابھی تک رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔

سول سوسائٹی کے امن پسند لوگ جلوس نکالتے تھےتو اب خاموش جلوس بھی گوارا نہیں۔ اب پولیس کو اتنے اختیارات دیئے گئے ہیں کہ انہوں نے دس دن سے پریس کلب اسلام آباد کو جانے والے سارے راستے بند کردیئے ہیں۔ کس سے پوچھوں کہ کیا اسلام آباد میں بھی جرگوں کی حکومت قائم ہوگئی ہے!

ایران کے صدر کا دورہ علامہ اقبالؒ کے مزار پر حاضری سے شروع ہونے پر ہر پڑھنے لکھنے والے کو فخر محسوس ہوا۔ کہنےکو تو بہت سے معاہدے ہوئے جنکی کاغذی اہمیت اسلئے رہے گی کہ بس چار دن پہلے ٹرمپ صاحب نے دو بڑے اعلانات (لکھتے ہوئے ہنسی آرہی ہے) کہ پاکستان اور امریکہ مل کر تیل کے ذخائر دریافت کرینگے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انڈیا بھی ہم سے تیل خریدے۔ ٹرمپ صاحب بہت ذہین ہیں کہ انہوں نے سارے چھوٹے چھوٹے افریقی ملکوں سے بھی اپنے نوبل انعام برائے امن کیلئے خط لکھوالئے ہیں۔ یہ الگ بات یوکرین اور اسرائیل انکے حکم پر کان نہیں دھررہے۔ اور ابھی تو ساری بڑی طاقتوں کی نظریں بلوچستان اور گلگت میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی جانب ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک اور ریکوڈک کہانی سامنے آجائیگی۔

پاکستانیو! ایک دفعہ پھر امریکہ کی شفقت میں چھپی رعونت کو سلام کیجئے۔ سارے پاکستان میں صر ف پہاڑی علاقوں میں نہیں ثناء یوسف تو اسلام آباد میں ماری گئی ہے۔ پاکستانی مردوں اور امریکہ کی سیاسی شعبدہ بازیوں میں بہت تہہ دار یکسانیت ہے۔ ابھی تو صرف چینی کی برآمد اور درآمد کی دُہائی ہے۔ سیاسی معرکے ابھی باقی ہیں۔

تازہ ترین