بشریٰ مسعود
دلِ تباہ اُسی دل نشیں سے ملتا ہے
جو آسمان ہے، پھر بھی زمیں سے ملتا ہے
تجھے زمانے کے تیور سمجھ نہیں آتے؟
تُو سب سے آج بھی اتنے یقیں سے ملتا ہے؟
حریمِ ذات میں پنہاں جہانِ گم گشتہ
سراغ دیدۂ باریک بیں سے ملتا ہے
لباسِ شب میں محبّت نزول کرتی ہے
کوئی ستارہ کسی مہ جبیں سے ملتا ہے
یہی مقام زمان و مکاں کی حد ہے میاں
جو لا مکاں ہے یہاں اِک مکیں سے ملتا ہے
دیارِ عشق میں منظر نئے نئے ہیں سبھی
شفق کا رنگ گُلِ صندلیں سے ملتا ہے