آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل، برطانیہ کے شمال میں ایک دیوار تعمیر کی گئی، جس کا مقصد برطانوی سرحدوں کو قبائلی حملہ آوروں سے محفوظ رکھنا تھا۔ یہ دیوار تقریباً117 کلومیٹر طویل اوربحیرۂ آئرش سے بحیرۂ شُمال تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دیوار کے ساتھ قلعے، چوکیاں، دروازے اور فوجی بیرکس بھی بنائی گئی تھیں۔
ایک زمانے میں یہ دیوار انجینئرنگ کا شاہ کار سمجھی جاتی تھی اورآج بھی اس فصیل کے کئی حصّے محفوظ ہیں۔ نیز، اقوامِ متّحدہ کا ذیلی ادارہ، یونیسکو اس دیوار کو عالمی ثقافتی وَرثہ بھی قرار دے چُکا ہے۔ چُوں کہ یہ دیوار رومن بادشاہ، ہیڈرین کے دَور میں تعمیر کی گئی، اِس لیے اسے ’’ہیڈرین وال‘‘ کہا جاتا ہے۔
آج سے تقریباً دو سو برس قبل، مذکورہ دیوار کے کنارے سائیکامور (Sycamore) کا ایک درخت نمودار ہوا۔ اس درخت کے پتّے پاکستان میں پائے جانے والے چنار کے پتّوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ چُوں کہ یہ درخت ہیڈرین وال کی کسی دراڑ میں اُگا تھا، لہٰذا اسے’’سائیکامورگیپ ٹِری‘‘ کہا جانے لگا۔
اپنی خُوب صُورتی اور ہیڈرین وال کے کنارے واحد درخت ہونے کے باعث ’’سائیکا مورگیپ ٹِری‘‘ خاصا مشہور ہوگیا۔ بعدازاں، 1991ء میں ریلیز ہونے والی فلم، Robin Hood: Prince of Thieves کا ایک سین بھی وہیں فلمایا گیا، جہاں یہ درخت موجود تھا، جس کے نتیجے میں اس درخت کی شُہرت مزید بڑھ گئی۔
ستمبر 2023ء کی ایک رات دو افراد نے محض مُہم جوئی یا ذاتی تسکین کی خاطر مشینی آرے کی مدد سے سائیکامورگیپ ٹِری کو کاٹ ڈالا۔ اس ایک درخت کا کٹنا تھا کہ برطانیہ بَھر میں غم و غُصّے کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقعے پر برطانوی باشندوں کاکہنا تھا کہ وہ صرف درخت نہیں تھا، بلکہ برطانوی تاریخ اور ثقافت کی علامت تھا۔
لوگوں نےدرخت کے کٹنے کا سوگ منایا اور اس ضمن میں اخبارات میں مضامین لکھے۔ اس موقعے پر انتظامیہ کی جانب سے درخت کے مقام پر لکڑی کا ایک جنگلا نصب کردیا گیا، تاکہ کٹے ہوئے تنے سے شاخیں پُھوٹنے پر اُنہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ پھر کچھ عرصے بعد جب چند سبز کونپلیں پُھوٹیں، تو پورے مُلک نے خوشی منائی اور ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خبریں بھی شایع و نشر ہوئیں۔
تاریخی درخت کٹنےکےبعد جہاں برطانوی عوام غم و غُصّے میں مبتلا ہوئے، وہیں درخت کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے گئے، تاکہ وہ دوبارہ پروان چڑھ سکے، جب کہ درخت کے کٹے ہوئے تنے کو ایک جگہ نمائش کے لیے رکھ دیا گیا اور شہریوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اس سے محبّت کا اظہار کرنے کے لیے اُسے گلے بھی لگا سکتے ہیں۔
یہاں دل چسپ اَمر یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی پولیس نے درخت کاٹنے والوں کی تلاش شروع کردی، تاکہ اُنہیں گرفتار کر کے سزا دلوائی جا سکے۔ اِس مقصد کے لیے پولیس کے سراغ رسانوں نے تفتیش شروع کی اور شواہد اکٹھے کر کے بالآخر دو افراد کو درخت کاٹنے کا ملزم قرار دے دیا گیا۔
ان ملزمان کے خلاف عدالت میں مقدّمہ چلا اور اس واقعے کے کم و بیش دو سال بعد درخت کاٹنے کے الزام پر دونوں افراد کو چار سال اور تین ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ تو تھا، برطانیہ کہ جہاں صرف ایک درخت کٹنے پر پورا مُلک سوگ وار ہوگیا اور درخت کاٹنے والوں کو تلاش کر کے نہ صرف اُن کے خلاف مقدّمہ دائر کیا گیا بلکہ سزا بھی سُنائی گئی۔
اب ہم ذکر کرتے ہیں، پاکستان کا۔ حال ہی میں پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے دارالحکومت، لاہور سےگزرنے والی نہر کے ساتھ پبلک ٹرانس پورٹ چلانےکا ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جو ’’یلو لائن پراجیکٹ‘‘ کہلائے گا۔ اس منصوبے کے تحت، لاہور کے علاقے، ہربنس پورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک عوام کے لیے بجلی سے چلنے والی بسزچلائی جائیں گی۔
یاد رہے، ہربنس پورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک تقریباً 24کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور دونوں مقامات کے درمیان سفر کے لیے بہترین سڑک پہلے سے موجود ہے، جس کے ساتھ ساتھ نہر بھی بہہ رہی ہے اور جہاں کہیں کراسنگز یا چوراہے ہیں، تو وہاں انڈرپاسز بنے ہوئے ہیں، لیکن منصوبہ یہ ہے کہ بجلی سے چلنے والی بسزکے لیے ایک الگ لین بنائی جائے گی۔
اس منصوبے کے حوالے سے لاہور کے تحفّظ کے لیے تشکیل دی گئی ایک انجمن سے، جس کا نام ’’Lahore Conservation Society‘‘ ہے، وابستہ پروفیسر اعجاز انور کا کہنا ہے کہ ’’ان بسز کے لیے، جو الگ لین بنے گی، اُس کی خاطر نہر کے کنارے موجود 1400درخت کاٹے جائیں گے اور اس سے پہلے بھی، جب نہر کے کنارے سڑکیں کشادہ کی گئی تھیں، لاتعداد درخت کاٹے گئے تھے۔‘‘
اِس سےاندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ اگر الیکٹرانک بسز چلانے کا مقصد ماحول کا تحفّظ ہے، تو یہ بسز چلانے کے لیے بھی درخت ہی کاٹےجارہے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں، اوّل تو درختوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی تصوّر ہی نہیں ہے اور جو درخت موجود ہیں، وہ بھی صرف اس لیے باقی بچ رہے ہیں کہ کوئی انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے کسی کو انہیں کاٹنے کا خیال نہیں آیا۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ برطانیہ جیسے مُلک میں، جس کی آبادی پاکستان سے کہیں کم ہے اور جہاں ویسے ہی درختوں اور سبزے کی بہتات ہے، ایک درخت کاٹنے پر ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ درخت کاٹنے والوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور انہیں چار سال سے زائد قید کی سزا سُنائی جاتی ہے، جب کہ اِس کے برعکس پاکستان میں آبادی بڑھتی ہے، تو اِس کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر کردی جاتی ہیں۔
درخت کاٹ کر کالونیاں بسادی جاتی ہیں اور پبلک ٹرانس پورٹ کا موجودہ ڈھانچا بہتر کرنے کی بجائے نئے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہزاروں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ اصل ترقّی وہ ہے کہ جو انسانوں اور قدرتی ماحول کے درمیان توازن قائم رکھے۔