• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخ کا ادراک نہیں ہے اسکے ارد گرد کے لوگ اسے کچھ سکھانے سے ڈرتے ہیں۔ جب اسکی مداخلت بڑھ جائیگی ۔اکانومی ڈوبے گی۔منظور نظر کمپنیوں کیلئے ٹیرف سے استثنیٰ، کسانوں اور دوسرے شعبوں کو برائے نام ادائیگیاں، فیڈرل ریزرو کی خود مختاری کے خلاف سیاسی جنگ یہ سب نتائج ہونگے ٹرمپ کی اپنی تجارتی جنگ کے‘‘امریکہ کے 150سال پرانے رسالے’اٹلانٹک‘کے تازہ شمارے میں ٹرمپ کے طرز حکمرانی پر یہ تبصرہ ان کے سینئر اسٹاف رپورٹر کے قلم کا اعجاز ہے۔آگے چل کر لکھتے ہیں بہت ہی خوفزدہ کرنے والا تبصرہ ملاحظہ کیجئے’’ٹرمپ جو ناقابل فہم سسٹم تعمیر کر رہا ہے مارکیٹ دشمن ، جلد بازی میں تراشا ہوااور صارفین و بزنس مینوں دونوں کو سزا دیتا ہوا۔ آئندہ صدر کو سب کچھ ازسر نولکھنا ہوگا اور اگلی کانگریس کو یہ سب کچھ ردی کی ٹوکری کے حوالے کرنا ہوگا اگر کانگریس ٹرمپ کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور اگر وہ ٹیرف اور ٹریڈ پر قانون ساز اداروں کے آئینی اختیارات بحال کرنا چاہتی ہے‘‘۔ان تحریروں میں لکھنے والے کا تجزیہ یہی ہے کہ امریکی عوام کو آئندہ بڑی مشکلات کا سامنا ہوگا ۔صدر ٹرمپ کی عجلت پسندی اور ہتھ چھٹ ہونے کا نتیجہ امریکیوں کو کئی دہائیوں تک برداشت کرنا ہوگا ۔امریکہ میں آزادی اور حقیقی انتخابات کے ذریعے اقتدار منتقل کرنے کی روایت اتنی طاقتور ہے کہ وہاں صدر ٹرمپ کے یکطرفہ اقدامات، مطلق العنانیت، کانگریس اور سینٹ کو نظر انداز کرنے کے دور رس نتائج پر غور تو کیا جا رہا ہے اور کہیں نہ کہیں کوئی تھنک ٹینک کوئی یونیورسٹی کوئی میڈیا ہاؤس بحرانوں سے نکلنے کا راستہ تو تلاش کر رہے ہیں ۔آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر تبادلہ خیال کا دن ۔اپنے مستقبل سے ہمیں بھی اپنے مستقبل پر بات کرنی چاہیے۔جو بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اتوار کوہی ہماری یہ دعوت بھی ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد اپنے اہل محلہ سے حال احوال کریں جو بیمار ہیں ان کی مزاج پرسی کریں کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اسے مل جل کر حل کریں۔ وزیراعلیٰ ہاؤس یا وزیراعظم ہاؤس کی طرف نہ دیکھیں ۔عام لوگوں میں قربت اور ایک دوسرے کے مصائب کا ادراک بہت ضروری ہے۔ حکمران اور اشرافیہ اکثریت کو اپنے مسائل میں اس لیے مبتلا رکھتے ہیں کہ وہ ان میں الجھی رہے اور اپنے مستقبل کا ادراک نہ کرے۔سینئر صحافی ایڈیٹر اور حقوق انسانی کے سرگرم علمبردار حسین نقی کے ساتھ طویل نشستوں کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب’’ جرات انکار ‘‘کی رونمائی ہو رہی ہے سہیل یونیورسٹی کراچی کے ڈاکٹر ذکی حسن آڈیٹوریم میں ۔جہاں 60 اور 70 کی دہائیوں کے بائیں بازو کے بہت سرگرم رہنما اپنے سفید بالوں متجسس آنکھوں کے ساتھ موجود ہیں۔ اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے صدارت ہمارے حصے میں آتی ہے ۔اور تو کوئی خوبی نہیں ہے ہم میں ۔مقررین میں مظہر عباس ،ڈاکٹر توصیف احمد خان، مہناز رحمان، پروفیسر انیس زیدی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد پورے پروگرام کی نظامت کر رہے ہیں۔ یہ انٹرویو پہلے کئی اقساط میں ماہنامہ اطراف میں شائع ہوا ،پاکستان اور بیرون پاکستان قارئین نے دلچسپی سے پڑھا ۔حسین نقی کو یہ خصوصیت حاصل ہے وہ صرف گزشتہ دہائیوں میں نہیں جھانکتے ۔وہ آج کے حالات پر بھی نظر رکھتے ہیں اس انٹرویو میں وہ کہتے ہیں: ’’ریاست کا تو قصہ یہ ہے کہ 70 75/سال گزرنے کے بعد بھی اس ریاست کو معمول کی ریاست نہیں کہا جا سکتا۔سچی بات تو یہ ہے کہ اسٹیٹ عملاََ پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ اول تو عسکری سروسز خود کو ادارے کہتی ہیں اور اب تو لکھا بھی یہی جانے لگا ہے سیاسی و عسکری قیادتیں میڈیا والے بھی اسی طرح لکھتے ہیں اسٹیٹ کو عوام کی منشا کے مطابق جمہوری انداز میں آپریشنل بنانے کیلئے شروع سے ہی کوئی اقدامات نہیں ہوئے‘‘۔پاکستان کو کئی دہائیوں سے لاحق عارضوں کی اس سے بہتر درد مندانہ تشخیص نہیں ہو سکتی ا سے ہم محض باغیانہ تنقید کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا مسئلہ شروع سے ہی رہا ہے کہ ریاست اور حکومت میں فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا ۔ہم نے تو اپنے کالم کا مستقل عنوان بھی اسی لیے ’’مملکت اے مملکت‘‘رکھا۔ریاست یا مملکت یا اسٹیٹ سب کی ہوتی ہے۔حکومت وہ ہوتی ہے جو وقتی طور پر اپنے اپنے عہدوں کیلئے منتخب کی جاتی ہے یا متعین کی جاتی ہے اور جن کو اپنی میعاد پوری ہونے پر دوسری حکومت کیلئے جگہ خالی کرنا ہوتی ہے۔مشکل یہ ہوئی ہے، ہمارے ریاستی ادارے مختلف اسباب کی بنا پر وقت کے ساتھ متنازع ہوتے گئے۔اب وقت آگیا ہے کہ 14 اگست 2025 کو جب ہم معرکہ حق اور یوم آزادی منا رہے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ریاست کے سب ادارے ہم خیال ہوں اور اپنی اپنی حدود میں کام کر رہے ہوں۔پاکستان کے پاس بے شمار قدرتی اور معدنی وسائل ہیں ہمیں کسی غیر کا در کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔جس طرح امریکہ کو آئندہ برسوں میں اپنی عظمت اور وقار کی بحالی میں مشکلات پیش آنے کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی مسلسل توجہ فکر اور ادراک کی ضرورت ہے۔ ’’جرات انکار‘‘ کی رونمائی میں ہمارے مقررین 60 /70 کی دہائیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کی داستان بیان کرتے رہے۔ایک موثر حلقہ اب تک یہ سمجھتا ہے کہ ہماری ساری برائیوں کی جڑ اور قیادت کا بحران درسگاہوں میں اسٹوڈنٹس یونین پر پابندیاں ہیں ۔زمانہ اب بہت آگے نکل چکا ہے اب تو مصنوعی ذہانت آ چکی ہے ۔سوشل میڈیا کا غلبہ ہے۔ استبداد کے طریقے بھی بدل رہے ہیں تو مزاحمت کے انداز بھی بدلنے چاہئیں ۔اس رونمائی کی تقریب میں واحد بلوچ بھی ہیں ،سہیل سانگی، شہریار مرزا، منظور رضی، رشید میمن ،رمضان بلوچ، نوشابہ صدیقی ،عابد علی، سلطان احمد نقوی، پروفیسر انور شاہین ۔انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے جواں سال ریسرچرز۔ یعنی تین نسلیں ۔ان سب کو فکر ہے کہ ہماری مملکت کا مستقبل کیا ہے اور ہمارے بیٹے بیٹیاں ،پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں کیسے حالات میں اپنی زندگی گزاریں گے۔ یہاں یہ بھی اشارے دیے گئے کہ ماضی میں انتہائی شدید اختلافات اور سیاسی دشمنی کے باوجود جب بھی پاکستان کو درپیش خطرات کی بات ہوتی تھی تو دائیں بائیں بازو والے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اب بھی پاکستان کی بقا اور دوام کا مسئلہ ہے اس کیلئے بھی سب مل بیٹھیں ۔آج کے حالات اور آلات دونوں پر غور کریں۔ پاکستان کو اپنی سنچری 2047 کے موقع پر ایک خود کفیل خود مختار ریاست اور ہر پاکستانی کو خود دار بنانے کیلئے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا، اور اپنے وسائل کا استعمال کیسے کیا جائے۔ یہ سب سرگرم رہنماؤں اور کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر سنجیدہ نشستیں کریں اور کسی نتیجے پر پہنچیں...

تازہ ترین