قبل ازیں ہم طلباء و طالبات کی اردو گرامر میں رہنمائی اور اصلاح کی خاطر ایک کالم بعنوان ’’فعل اور اس کی اقسام‘‘ لکھ چکے ہیں،آج اس پر اختصار کے ساتھ فقط یہ عرض کر کے آگے بڑھتے ہیں کہ کوئی فعل کسی فاعل کے بغیر واقع نہیں ہو سکتا اور کوئی جملہ فعل ، فاعل اور مفعول کے بغیر مکمل نہیں ہوتا مثلاً ’’پسند کی شادی کرنے والی کو عدالت کے احاطے میں اس کے باپ اور بھائیوں نے اینٹیں مار مار کر سنگسار کر دیا‘‘۔ یہاں ’’باپ اور بھائی‘‘ فاعل ،’’اینٹوں سے سنگساری ‘‘ فعل اور ’’پسند کی شادی کرنے والی‘‘ مفعول ہیں ۔ اسی طرح ’’ایک مردِ جری نے نفاذ شریعت کی خاطر مسجد میں خودکش دھماکہ کیا تو نمازیوں کے پرخچے اڑ گئے‘‘ اس جملے میں ’’مرد جری‘‘ فاعل ،’’خود کش دھماکہ ‘‘ فعل اور ’’نمازی‘‘ (جن کے پرخچے اڑے) مفعول ہیں۔ امید ہے کہ روزمرہ کی ان مثالوں سے بات واضح ہو گئی ہو گی۔ آئیے، اب باقی اردو قواعد کو آسان فہم انداز اور مروجہ مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زبان: زبان کے دو معنی ہیں ۔ ایک زبان وہ ہے جو ہمارے منہ میں ہوتی ہے ، اس کی مدد سے ہم گفتگو کرتے ہیں ۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر وہ ہڈیاں تڑوا سکتی ہے۔ دوسری زبان وہ ہے جو ہم بولتے ہیں مثلاً اردو ، پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پشتو وغیرہ ۔ان کی مدد سے ہم دوسروں پر الزام تراشیاں کرتے ہیں ، طعن و تشنیع کا کام لیتے ہیں اور دنگا فساد کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔
حروف تہجی: اردو میں ’’الف سے یے‘‘ تک حروف تہجی ہیں۔ ان حروف کو ملا کر لفظ بنائے جاتے ہیں، جو لفظ ہم بولتے ہیں اس کے کچھ نہ کچھ معنی ہوتے ہیں تاہم ہمارے ہاں بعض الفاظ کو بے معنی یا مہمل بھی تصور کیا جاتا ہے جیسے ’’معقولیت، مقصدیت ، منطق ، دلیل، مکالمہ ، غوروفکر، برداشت، رواداری ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
حرف: حرف وہ کلمہ ہے جو اسم کو اسم یا اسم کو فعل سے ملانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ’’حروف‘‘ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ جماعتوں کو جماعتوں سے ملا کر سیاسی اتحاد بھی بنوا دیتے ہیں ۔ اسم کو اسم سے ملانے کی مثالیں یوں دی جا سکتی ہیں کہ ’’وزراء کی جعلی ڈگریاں‘‘ یا ’’مغرب کا ایجنٹ ‘‘ جبکہ اسم کو فعل سے ملانے کے لئے یہ جملے نادر مثالیں ہیں کہ ’’میرا کمیشن میرے اکائونٹ میں ڈال دو‘‘’’پاکستان مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے‘‘ ’’پچاس فیصد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گھسیٹ رہے ہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
اسم: جو الفاظ کسی شخص ، جگہ یا چیز کے نام کو ظاہر کریں اسم کہلاتے ہیں ۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ 1۔ اسم نکرہ: وہ اسم جو عام چیز، عام شخص یا عام جگہ کے لئے بولے جائیں ، اسم نکرہ ہیں مثلاً ’’گوالا دودھ میں پانی ملا رہا ہے‘‘ ’’ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں‘‘ ’’لوڈ شیڈنگ زوروں پر ہے‘‘ ’’یہاں کسی کی جان و مال یا عزت و آبرو محفوظ نہیں ‘‘ وغیرہ۔ چونکہ اسم نکرہ عام شخص، چیز یا جگہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لہٰذا اس مناسبت سے کئی لوگ اسے اسم بکرا بھی کہہ دیتے ہیں کہ بھیڑ بکریاں، ڈھور ڈنگر اور عوام وغیرہ عام چیزیں ہی تو ہیں ۔2۔ اسم معرفہ: ایسے اسم جو کسی خاص شخص، خاص چیز اور خاص جگہ کے لئے بولے جائیں ، اسم معرفہ کہلاتے ہیں ۔ جیسے ’’ممنون حسین صدر مملکت ہیں ‘‘ ’’کراچی فسادات کی زد میں ہے ‘‘ ’’ جنگ/جیو نشانے پر ہے‘‘ وغیرہ ۔ اسم معرفہ کی چار اقسام ہیں ۔
1۔ اسم علم: اس سے مراد وہ مخصوص اسماء ہیں جو مختلف اشخاص کی پہچان کے لئے بولے جاتے ہیں ۔ i۔ تخلص : تخلص وہ چھوٹا سا قلمی نام ہے جو شعراء اپنے شعروں میں استعمال کرتے ہیں ، جیسے استاد مام دینؔ۔ ii۔ خطاب: خطاب کسی شخص کو اس کی خدمت ، بہادری اور قابلیت کی بنا پر حکومت کی جانب سے ملتا ہے ۔ چونکہ سرکار کی جانب سے یہ عطا محدود اور اپنے لوگوں کے لئے ہوتی ہے جبکہ یہاں خدمت، بہادری اور قابلیت کے پہاڑ بلکہ بڑے بڑے پہاڑی سلسلے موجود ہیں لہٰذا وہ خود ہی اپنے آپ کو کوئی خطاب عطا فرما دیتے ہیں مثلاً ’’شیخ الاسلام ، شمس العلماء، فخر پاکستان ، ملک السیاست، قمر السیاست ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ iii۔ لقب: وہ نام جو کسی خاص صفت یا خوبی کی بنا پر لوگوں کی زبان پر آتے ہیں مثلاً ’’پیشہ ور احتجاجی ، کنٹینر رہنما ،غیرت برگیڈ ، حب الوطنی کے پیکر‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔iv۔ کنیت: جو نام کسی خاص ’’رشتے ‘‘ کی بنا پر پکارے جاتے ہیں مثلاً ’’طالبان خان‘‘ ۔v۔ عرف: پیار سے پکارے جانے والے مختصر نام جو مشہور ہو جائیں ،مثلاً ’’شیدا ٹلی‘‘ ۔
2۔اسم ضمیر: وہ لفظ جو کسی اسم کی جگہ استعمال ہو، اسم ضمیر کہلاتا ہے مثلاً ’’زید سرکاری دفتر میں ملازم ہے وہ صبح دس بجے سو کر اٹھا ہے اس نے ناشتہ کر کے بارہ بجے دفتر جانا ہے جہاں وہ پھر سو جائے گا‘‘۔ ان جملوں میں زید کی جگہ جہاں ’’وہ اور اس‘‘ استعمال ہوئے ہیں یہ اسم ضمیر کہلاتے ہیں حالانکہ ان کا ضمیر سے دور کا بھی واسطہ نہیں،اسم ضمیر کی تین اقسام ہیں۔
i۔ اسم ضمیر غائب: ’’وہ ، اس، ان ‘‘ ان ناموں کے لئے استعمال ہوتے ہیں جو سامنے موجود نہ ہوں مثلاً ’’ وہ پیسے لے کر کالم لکھتا ہے‘‘ ’’ اس نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا‘‘ ان لوگوں کے سینے میں دل نہیں‘‘ ۔ii۔ اسم ضمیر حاضر: ’’تو، تم ، آپ ‘‘ ان کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جو سامنے موجود ہوں ۔ ضمیر اس اسم میں بھی غائب ہی ہوتا ہے، پھر بھی خدا جانے کیوں اسے حاضر لکھا جاتا ہے؟ مثلاً ’’آپ ملک کے نمبر ون کالم نگار ہیں‘‘ ’’تُو میری پہلی اور آخری محبت ہے‘‘’’تم پارٹی ورکر نہیں میرے بھائی ہو ، میرے ووٹ مانگنے کے لئے دن رات ایک کر دو‘‘ ’’آپ کے سینے میں عوام کے لئے دردمند دل ہے حضور‘‘ ’’آپ کے حکم پر برائے نام لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے سر!‘‘ ’’آپ کے اقدامات سے ملک میں امن وامان کی صورت حال مثالی ہو چکی ہے‘‘ ’’دنیا بھر میں آپ کے انصاف کے چرچے ہیں می لارڈ ‘‘’’ خوشحالی سے رعایا کے پیٹ پھٹنے کو ہیں ظلِ الٰہی ‘‘ علی ہذالبکواس۔ iii۔ اسم ضمیر متکلم: وہ اسم جو بات کرنے والا اپنے لئے استعمال کرتا ہے مثلاً ’’میں واپس آ رہا ہوں، شہادت پائوں گا ‘‘ ’’ میں نے ایمر جنسی نافذ نہیں کی تھی ‘‘’’ ہم نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے‘‘ ’’ہم لوڈشیڈنگ ختم کر کے دم لیں گے‘‘ ’’ہمارے علاوہ سب غدار ہیں‘‘ ’’ہم دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے آگے سینہ سپر رہیں گے‘‘ علی ہذا …اللہ جانے یہ ضمیر متکلم کیسا ضمیر ہے کہ جو ایسی باتیں سرِ عام کرنے کی اجازت دیتا ہے؟