• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبس کے اس موسم میں سوٹوں والی سرکار کے کچھ کارندے اور پھر انکے نیچے چھپے ہوئے کارندے ،منعکس ہونے کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے یعنی کس کی وکٹ اڑنے والی ہے یا کسی کی کشتی منجدھار میں ہے انہی لفظوں کو الٹ کر استعمال کروں تو مطلب ہے کون کس کے ایجنٹ کے طور پر حسب ہدایت مال بناتا رہا ہے اور ایسا کمزور وقت آیا کہ وہی وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ یہ فقرہ لکھتے ہوئے فوراً تاریخ کے صفحوں پر بہت سے نام ابھرآئے ،میں دوسرے کالم نگاروں کی طرح ان سب کے نام اور ادوار لکھ دیتی ۔ میرے لئے وقت کا زیاں ہے کہ ہمارے ملک کے تمام سیاسی کارندے اور سربراہ،روز ہی کوئی نہ کوئی افتتاح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمیں کیوں ہوش نہیں کہ ساری دنیا ہی ہماری سیاسی دانش کی معتقد ہورہی ہے ۔ یہ دنیا بھی دانشمندوں کی نہیں ، بلکہ اس سردار جی کی طرح ہے جو دریا سے ڈوبتے ہوئے شخص کو نکال کر لائے تو سب داد دینے والوں کی توصیٖف کرنے کے بعد پوچھا’’مینوںدکھا کنے دیتا سی‘‘۔ میں نےآج صبح گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے ایک بہت حلیم خاموش شخص کو دیکھا میں نے بڑھ کر انہیں سلام کرتے ہوئے پوچھا ، سر آپ کو قائد اعظم تو یاد ہوں گے ، بولے یاد ہوں گے ، روز یاد دلاتے رہتے ہیں کہ قائد اعظم نےکہاتھا، آپ لوگ کام ، کام اور کام کو اپنا مقصد زندگی بنالیں ، 80سال ہوگئے ان کا کہا یاد کراتے لوگ یا قوم کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آتا جو قائد اعظم کے حکم کے مطابق کام کررہا ہو ،مجھے ان کی گفتگو میں چھپے نشتر سمجھ میں آرہے تھے ،میں نے پھر معصوم بنتے ہوئے کہا کہ دیکھیں نا، آج 11؍اگست ہے قائد اعظم تو اس دن کو دیگر قومیتوں کا دن کہتے تھے ،انہوں نے کہا آپ یہی دن منانے کسی کانفرنس میں جارہی ہوںگی کہ آپ بھی تو اس ملک کی دانشور کہی جاتی ہیں ۔اب چونکہ وہ بالکل میرے اوپر معترض ہونے لگے تو میں نےجلدی سے ڈرائیور کو گاڑی کا دروازہ کھولنے کو کہا۔ ان بزرگ کو ساتھ چلنے کی دعوت بھی اس خوف کے ساتھ نہیں دی کہ یہ مجھے کچھ اور جلے بھنے طعنے دیں گے، اب آپ گزشتہ 75سال کو چھوڑیں یہ گزرے تین سال میں صرف توشہ خانہ کے حوالے سے ظاہر ہونے والے گواہوں کا اتا پتا ہی بتا دیں ، وہ شخص جس نے سونے کے لوٹے کی جگہ تانبے کے لوٹے کی گواہی دی ایسے کتنے گواہوں کو آپ سچ مان رہے ہیں پھر مجھے یہ بتائیں کہ اس کی منکوحہ جو جلالی وظیفے پڑھتی تھی ان کے ٹاؤٹ جو خاتون بنام گوگی تھیں ان کو کب سامنے لائیں گے ۔


ان صاحب کا نام بتائیں جو نوکری میں تھے تو ہر روز صبح کو بغل میں پلندے اٹھائے آتے تھے اور کہتے تھے کہ ایسی غیر قانونی حرکتوں کے سو پلندے ابھی سامنے آنا ہیں ۔ پھر شاید کہیں باہر چلے گئے اوراب بہت سے یوٹیوب چینل میں وہی الٹی سیدھی باتیں مذہب کے حوالے سے پتا دکھاتے ہیں ،یہ سارے جو ٹی وی سے نکالے گئے وہ آج کل کن معلومات کو تصدیق شدہ کہہ رہےہیں اور کس کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ خواجہ آصف کا پرتگال کا بیان جو انہوں نے دہرایا بھی ہے ، مجھے خواجہ صاحب سے عرض کرنی ہے کہ پچاس ہزار ڈالر دے کر پرتگالی سکونت اور زندگی کی عافیت ملتی ہے تو آپ اپنے اس سیکرٹری کے توسط، کروڑوں کی گاڑی نہیں ، مجھے وہ رقم فراہم کرنے کی سعی کریں کہ میں بھی اپنے ملک میں ہرروز ہونے والی تفتیش،لفظوں پر پکڑ اور کبھی کالم یا کبھی شعر کو پڑھ کر ایجنسیوں والے میری حب الوطنی کو مشکوک بناتے کبھی کالم پڑھ کر شائع نہیں ہونے دیتے تو کبھی چھپے ہوئے کالم کو گفتار سے آزاد کردیتے ہیں ۔ لوگوں کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں ، آواز غائب ہوتی ہے حالانکہ ہم سے کوئی فرد بھی انا الحق کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔جناب خواجہ صاحب آپ نے یہ ایک ملک کا نام لیکر ، خود کو بھی بھڑوں کے چھتے میں پھنسا لیا ہے مگر یہ آپکی پرانی عادت ہے ۔


آپ کو بھی یقین ہوتا ہے کہ کچھ بھی بتانے سے کچھ بھی نہیں ہوگاکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جب سرکاری افسر، سیکنڈ گریڈمیں پہنچتا ہے تو اطمینان اور آسودگی کے ساتھ اپنے ٹاؤٹ پیدا کرتا ہے ، پھر دوسرے ملکوں کے روابط کے وسیلے ڈھونڈ لیتا ہے۔ پھر کبھی مالٹا تو کبھی آسٹریلیا کے سفارت کاروں کے روابط کو مستحکم کرکے ، اپنے مستقبل کو کسی جزیرے یا کسی سمندر کے کنارے آرام گاہ میں ٹھنڈی سانسیں لیکر وطن کو یاد کرتا ہے کہ انسان کچھ ہوجائے اپنے ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ ابھی دیکھئے کہ چودہ اگست کو کتنی معتبر شخصیتوں کو اعزاز دیئے جائیں گے ، پچھلے برس تو کوئی دوسو افراد کو حسن کارکردگی سے نواز اگیا تھا،اب دیکھتے ہیں کہ معرکہ حق کی توصیف میں کس سے بڑھ کر کس کا نام زریں حرف میں لکھاجائے گا ، لوبھئی کئی سلہری ،کئی پیرزادے اور کئی دانشور اپنی تصانیف پکڑے، شاہی راہداری میں کھڑے ہونگے اپنی کتاب دیتے ہوئے ، صاحب صدر کیساتھ تصویر بنوانے کیلئے ، مجھے تو خواجہ صاحب سے کہنا ہے کہ میں اپنی ضعیف العمری میں اپنی تحریری رسوائی کی جگہ غالب کی طرح ’’کوئی نہ ہو‘‘ کہتی ہوئی قلم کی عصمت کے تحفظ کیلئے آپ کے وسیلے سے پرتگال جاکر حج کا ثواب آپ کی نذر کردوں گی ۔

تازہ ترین