میرے گزشتہ روز کے کالم میجر عامر اور فواد حسن کے حوالے سے بے شمار قارئین کافیڈبیک موصول ہوا۔ چند ٹی وی چینل نے تو اسے ہیڈ لائن کے ساتھ خبر کی صورت میں بھی کالم کے مندرجات ناظرین کو سنائے۔ میجر عامر کی طرف سے چونکہ تاحال برادرم سلمان غنی کی خبر کی تردید کہیں شائع نہیں ہوئی لہٰذا اس کی ’’سنگینی‘‘ برقرار ہے۔ البتہ گزشتہ روز ان کا ٹیلیفون موصول ہوا تومیں نے انہیں کہا کہ کسی فرد واحد کے ناپسندیدہ رویہ کی وجہ سے انہیں اپنے کسی نظریاتی ساتھی کے ساتھ رابطہ ختم نہیں کرنا چاہئے، آپ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے وجود کو پاکستان کے لئے بہتر خیال کرتے ہیں لہٰذا آپ کو چاہئے کہ ان کے مزید قریب ہونے کی کوشش کریں، انہیں مخلص اور دل کی بات کہنے (خواہ وہ غلط ہو) والوں کی سخت ضرورت ہے۔ ایک بات جو کل کے کالم میں لکھنی میں بھول گیا تھا کہ فواد حسن فواد کے نامناسب رویے کے حوالے سے مجھے لاکھ اختلاف ہوں مگر وہ مسعود محمود اس لئے بھی نہیں بن سکتے کہ میاں نوازشریف نے کوئی ایف ایس ایف نہیں بنائی اور وہ مخالفوں کو برداشت ہی نہیں کرتے، ان کی کڑوی کسیلی باتوں پر غور بھی کرتے ہیں۔ جناب فواد حسن فواد میں یقیناً ایسی خوبیاں بھی ہوں گی جن کی وجہ سے نوازشریف کے علاوہ شہباز شریف ایسے زیرک اور مردم شناس سیاست دانوں نے انہیں اپنے قریب رکھا، شہباز شریف اپنے افسروں کو بہت کھینچتے بھی ہیں اور ان سے بعض اوقات اتنی شفقت کرتے ہیں کہ ان کے لئے زندہ باد کے نعرے بھی لگوا دیتے ہیں لیکن ان کا عملہ ان کے کسی حکم پر ان کو مشورہ تو دیتا ہے مگر جب مشاورت مکمل ہوتی ہے تو وہ بلا چوں و چرا اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ دوسری طرف یہاں نوازشریف کی آنکھوں میں حیا بہت زیادہ ہے۔ جس سے کم ظرف لوگ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب ان کی کم ظرفی ان کے لئے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ میرے کالم کی اشاعت پر کچھ دوستوں نے کہا جب تم ان دونوں رہنمائوں کو اتنا عزیز رکھتے ہو کہ خود پر ’’جانبداری‘‘ کا ٹھپہ بھی لگوا لیا ہے تو بہت سے مسائل پر ان سے اختلاف کر کے انہیں کیوں Offend کرتے ہو؟ تو میں نے انہیں کہا کہ ’’غیرجانبدار‘‘ کہلانے والے کالم نگاروں کی ’’غیرجانبداری‘‘ تو ’’جیو‘‘ اور حامد میر پر حملے کے بعد کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کن شرائط کے ساتھ ہیں، میری ان سیاست دانوں اور ان جیسے دوسرے افراد کےساتھ محبت بے لوث ہے اور صرف اور صرف پاکستان کے حوالے سے ہے۔ میں پاکستان سے عشق کرتا ہوں اوریہ بھی پاکستان کے عاشقوں میں سے ہیں، میں اپنے ضمیر کے مطابق لکھوں گا خواہ انہیں اچھا یا برا لگے۔ ایک خیر خواہ کا یہی فرض ہے ورنہ مجھ میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہےگا جو ’’آرڈر‘‘ پر مال تیار کرتے ہیں!
تو یہ تھا ایک مسئلے کا فولوار، اب دوسرا مسئلہ ہے اور وہ میرے نزدیک بہت زیادہ اہم ہے۔ میں فی الحال یہ نہیں کہتا کہ کچھ طاقتوں کو میاں نوازشریف کا حکومت میں رہنا پسند نہیں، بلکہ میں کہوں گا کہ اقتدار کے بھوکے کچھ سیاستدان جنہیں عوام نے حالیہ انتخابات میں گھاس نہیں ڈالی وہ محسوس کررہے ہیں کہ اگر نواز شریف نے اپنی حکومت کی مدت پوری کرلی اور وہ تمام ترقیاتی منصوبے مکمل کرلئے جن کا انہوں نے وعدہ کیا تھا یعنی معیشت کو استحکام بخش دیا، ہمسایوں سے بہتر تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے،دہشت گردی کا حسب توفیق خاتمہ کردیا اور انرجی کا بحران ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اگلے انتخابات میں عوام پاکستان کی قیادت ایک بار پھر ان کے حوالے کردیں گے اور میں یہ بات پورے تواتر سے لکھ رہا ہوں کہ نوازشریف اور شہباز شریف کی ’’جوڑی‘‘ یہ کام نہ صرف کر کے دکھا دے گی بلکہ بہت سے کام شروع ہو چکے ہیں۔ نندی پور انرجی کا منصوبہ جو آٹھ سال سے کتابوں میں گل سڑ رہا تھا وہ شہبازشریف نے صرف آٹھ مہینے کی قلیل مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ اسی طرح مرکز میں بہت بڑے بڑے کاموں کی پلاننگ مکمل ہو چکی ہے اور ان پر عمل شروع ہونے والا ہے۔ بلوچستان کی حکومت بہت اچھے کام کررہی ہے اور اس نے بظاہر بدترین حالات میں بلدیاتی انتخابات تک نہایت پرامن حالات میں منعقد کرا ڈالے۔ ’’علیحدگی پسندوں‘‘ کی سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں۔ اب فرقہ پرست جماعتیں اپنے غیر ملکی آقائوں کی کمان میں وہاں بے گناہ شیعوں کو مار رہی ہیں، تاہم اس میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ لاہور، کراچی موٹر وے کا منصوبہ شروع ہونے والا ہے۔ چینی کمپنیاں (جس میں شہباز شریف کا کردار بہت اہم ہے) پاکستان میں بے پناہ سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ ایک موٹر وے جب کاشغر سے گوادر تک جائے گی اس وقت پورے خطے کی صورت حال میں بہت تبدیلی آئے گی۔
یہ سب باتیںاور اس کے علاوہ بہت سی مثبت باتیں موجودہ حکومت کے کریڈٹ پر ہیں مگر بعض مخلص کالم نگار حکومت کی جن خامیوں کی مسلسل نشاندہی کررہے ہیں ان پر توجہ کی بھی سخت ضرورت ہے میں نے ان افراد سے بات شروع کی تھی جو اقتدار کے حصول کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں مگر وہ بات درمیان ہی میں رہ گئی اور میں کسی اور طرف نکل گیا، سو صورت حال یہ ہے کہ ان افراد میں سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد ہمارے ٹی وی چینلوں کو ایک بہت بڑا تماشہ کئی نسلوں تک دکھاتی رہے گی، یقیناً سیاسی جماعتوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے مگر طاہرالقادری ایسے سیاست دان کو جس کی پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں اور جو غیر ملکی ہیں، انہیں یہ حق کسی طرح نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی کے اشارے پر یا اپنے کسی ’’الہام‘‘ کی وجہ سے پاکستانیوں کو زمینی بحران میں مبتلا کریں۔ چنانچہ میں محمود اچکزئی کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ انہیں پاکستان پہنچتے ہی ڈیپورٹ کردیا جائے۔ ٹی وی چینلوں کے لئے یہ تماشا بہت مختصر ہوگا۔ بصور ت دیگر یہ شخص پاکستان کی منتخب حکومت اور اس کے ووٹروں اور عام پاکستانیوں کے لئے مسلسل دردسر ثابت ہوگا۔ لہٰذا وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد پر پابندی لگائیں اور اس معاملے کو لٹکانے کے بجائے فوری طور پر اس کے طریق کار پر غور فرمائیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ میرے اس تھوڑے لکھے کو ’’بھوتا‘‘ سمجھ کر برسرعمل ہوں گے۔