• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(نیلوفر اقبال)

نیلو فر اقبال، اپنے افسانوں کے مجموعے ’’گھنٹی‘‘ سے مُلک گیر شہرت حاصل کرنے سے قبل ایک افسانے ’’آنٹی‘‘ کی اشاعت سےبھی ادبی حلقوں میں پہچان بنا چُکی تھیں۔ احمد ندیم قاسمی کی زیرِ ادارت موقر ادبی رسالے ’’فنون‘‘ سے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی اس منفرد ادیبہ نے آغاز ہی میں ممتاز مفتی، محمّد منشا یاد اور دیگر جیّد ادیبوں کو اپنا گرویدہ کرلیا۔

فرید کوٹ، ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور آباد ہونے والے خاندان میں جنم لینے والی اِس طرح دار اور خوش قلم فسانہ نگار نے انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ معروف مزاح نگار، کرنل محمّد خان کو کتابوں کی وصولی پر اُردو میں شکریے کا ایک نوٹ لکھ بھیجا، کرنل صاحب کو تحریر میں خوبی نظر آئی، سو احمد ندیم قاسمی صاحب کے پاس بغرضِ اشاعت افسانہ ’’گھوڑا گاڑی‘‘ بھجوایا گیا۔

انگریزی محاورے کے مطابق بعد کا قصّہ تاریخ ہے۔ افسانوں کے تین مجموعے شائع ہوچُکے۔ کہانی میں غلام عباس کا سا اندازہے، مگر تازہ اُبلتی بےساختہ کہانی تب ہی لکھی، جب اُس نے مجبور کیا۔ ’’عورت‘‘ ہلکے پُھلکے پیرائے میں نسوانی نفسیات کی پرتیںہٹاتی تحریر، دراصل ایک خوش اطوار بیوی کی کہانی ہے۔ایسی بیوی، جسے اپنے ذاتی گھر کی چاہ تھی اور یہ چاہ اُسے دُور لےگئی۔ جہاں وہ ایک الجھن میں مبتلا ہوگئی، جسےسلجھانے کی اُسے ایک ہی صُورت نظر آئی۔

ریحانہ کا رنگ سانولا تھا اور چہرہ لمبوترا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ آنکھوں کے علاوہ اس کی شخصیت میں دوسری قابلِ ذکر چیز اُس کے بال تھے۔ بےتحاشا لمبے اور گھنے، کمر سے نیچے تک سیاہ آب شار کی طرح لہراتے نظر آتے تھے۔ اُسے معلوم تھا کہ اُس کے بال خُوب صُورت ہیں، اِس لیے وہ عموماً اُنھیں پشت پر کُھلا چھوڑ دیتی تھی۔ مسعود، جوخُود گورا چِٹّا، گلابی گلابی سا نوجوان تھا اورجسے ہمیشہ گول چہرے والی گوری گوری لڑکیاں پسند آتی تھیں، اُس کے بالوں کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا۔ 

پھر لباس کے حوالے سے ریحانہ کے ذوق نے بھی اُسےمتاثر کیا تھا۔ وہ جدید ترین تراش کے لباس پہنتی، جن میں رنگوں کا چناؤ بڑا فن کارانہ ہوتا تھا اور یہ ریحانہ کی خوش قسمتی تھی کہ ہر رنگ اس پر پھب جاتا۔ وہ بہت عمدہ پینٹنگ کرتی تھی اور اپنی تصویروں کی نمائش کی تیاری کررہی تھی۔ مسعود اپنے دوست ذکی کے گھر پارٹیز میں اُسے تین چار بار مل چُکا تھا۔ 

وہ ذکی کی خالہ کی بیٹی تھی اور قریباً ہر پارٹی میں ضرور مدعو ہوتی تھی۔ مسعود کو اس کے بولنے کا انداز بھی بہت پسند آیا۔ وہ ہر موضوع پر بڑی ذہانت سے بات کرتی تھی۔ مسعود نے اُس کا فون نمبر لے لیا اور اُس سے کبھی کبھار فون پر بھی بات کرنے لگا۔ فون پر اُسے ریحانہ کی نرم نرم سی آواز بہت بھلی لگتی تھی۔ وہ بات بات پر ہنستی تھی اور یہ بات بھی مسعود کو بہت پسند آئی تھی۔ اُس نے اپنی ماں کو ریحانہ کے گھر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔

ماں ریحانہ سے زیادہ متاثر نہ ہوئی۔ اُس کا مڈل کلاس سا گھر اور بجھی بجھی سی رنگت دیکھ کرماں کو مایوسی ہوئی تھی۔ واپس آئی تو چُپ چُپ سی تھی۔ ’’تیرے ساتھ جچے گی نہیں۔‘‘ ’’آپ نے بال نہیں دیکھے اُس کے؟ اور آنکھیں… آنکھیں تو بہت اچھی ہیں اُس کی۔ ہے ناں امّی؟‘‘ ’’بس بال ہی بال ہیں اور آنکھیں… مجھے تو اچھی نہیں لگیں… بھینس کی طرح موٹی موٹی!‘‘ ’’نرگس سے بہت ملتی ہے، اُس کی شکل۔‘‘ ’’کون سی نرگس؟‘‘ ’’فلم اسٹار نرگس سے۔‘‘ ’’تجھے ہی لگتی ہوگی۔‘‘ ’’امّی! مجھے اچھی لگتی ہے ناں۔‘‘ 

مسعود جھٹ سے کارپٹ پر بیٹھ گیا اور ماں کی پنڈلیاں دبانے لگا۔ پھر ماں کی گود میں سر ڈال دیا۔ ’’امّی…‘‘ اُس نے التماس بھری نظروں سےماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’دانت بھی کچھ اُونچے ہیں۔‘‘’’دانت تو ٹھیک ٹھاک ہیں اُس کے۔‘‘ ’’پتا نہیں، تجھے کیا ہوگیا ہے؟ نہ رنگ نہ رُوپ اُس لڑکی کا۔ تجھے تو ہمیشہ میموں جیسی گوری لڑکیاں پسند آتی تھیں۔

وہ کیا نام تھا اُس لڑکی کا… رونی کہ ٹونی…کیسی سفید تھی۔ اب کیا ہوگیا ہے تجھے؟‘‘ ’’امّی! انسان میں کچھ اور بھی تو ہوتا ہے، صرف رنگ ہی تو نہیں ہوتا۔ مجھے اُس کی پرسنیلٹی اچھی لگی ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ فائن آرٹس میں ایم اے کیا ہے اُس نے۔ بیوی ایسی ہونی چاہیے، جس کے ساتھ آدمی کم ازکم بات کرسکے۔‘‘

حقیقت یہ تھی کہ مسعود اب تک جس قسم کی لڑکیاں پسند کرتا آیا تھا، ریحانہ ان سے مختلف تھی۔ دراصل وہ اُس کے ذہن اور فن سے متاثر ہوگیا تھا۔ وہ خُود بھی آرٹسٹک ذہن رکھتا تھا اور کچھ عرصہ آرٹس کائونسل میں ستار سیکھتا رہاتھا، لیکن وہ کوئی کام جم کر نہ کرسکتا تھا، اس لیے جلد ہی اُکتا گیا، البتہ اُس نے پیلو، جے جے ونتی اور پہاڑی کی تین چار خُوب صُورت دُھنوں کی اچھی طرح مشق کرلی تھی اور کوئی بھی فنکشن ہوتا تو دوستوں کی فرمائش پر اُنھی میں سے کوئی دھن بجا کر دادوصول کرلیتا تھا۔ 

ریحانہ بھی اس کی ایسی ہی کسی دھن سے متاثر ہوگئی تھی۔ جب مسعود کے گھر سے باقاعدہ رشتہ آیا تو ریحانہ گھبراگئی… وہ اتنا گورا اور خوُب صُورت اور مَیں… لیکن مسعود نے اُس کی بےپناہ دل داری کرکے اُس کے شکوک رفع کر دیے۔ شادی تک آئینہ اُسے اپنا سب سے بڑا دشمن نظرآتا تھا۔ کسی بھی زاویے سے اپنی صُورت پسند نہ آتی تھی… اور وہ ایسا شہزادہ سا نظر آتا تھا… وہ اُس کا محبوب تھا اور وہ اتنی آسانی سےاُسے پانےجارہی تھی۔ 

اُسے اپنی خوش قسمتی پریقین نہ تھا۔ وہ دل ہی دل میں ڈرتی تھی کہ کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔ وہ شادی کی تاریخ تک درمیان میں آنے والے ہر دن سے ڈرتی تھی۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا… لیکن کچھ بھی نہ ہوا اور شادی والے دن جب شام کو ساڑھے چار بجے کے قریب وہ دلہن بننے بیوٹی پارلر کی طرف روانہ ہوئی تو اُسے یقین آگیا۔

مسعود نے دفتر سے ایک مہینے کی چُھٹی لے رکھی تھی۔ شادی کی پہلی رات اُنھوں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے برائیڈل سویٹ میں گزاری۔ اور پھر وہ اُسے گھمانے پھرانے کاغان اور شنگریلا لے گیا، تو جلد ہی ریحانہ کا اعتماد بحال ہوگیا۔ مسعود تعریف کرنے میں کنجوس نہ تھا۔ جب بھی وہ کوئی نیا لباس پہنتی، جو کہ عموماً اس کا اپنا ڈیزائن کردہ ہوتا، وہ دل کھول کر تعریف کرتا۔ وہ بھی عام عورتوں کی نسبت اپنی پھبن کا زیادہ خیال رکھتی۔ اُسے ہمہ وقت خیال رہتا، جیسے وہ کسی مقابلے میں شریک ہے۔

کس کے ساتھ مقابلہ؟ وہ ٹھیک سے کہہ نہیں سکتی تھی، دوسری عورتوں سے یا شاید خُود مسعود سے۔ مقابلے کے اِس احساس سے وہ ایک خاص قسم کا دباؤ سا محسوس کرتی رہتی۔ اسی دباؤ کے تحت وہ اپنے چہرے اور لباس پراتنی محنت کرتی کہ لپ اسٹک، جوتوں، ناختوں، کپڑوں اور چہرے کے میک اَپ میں ایسا فن کارانہ آہنگ نظر آتا کہ دیکھنے والے بےاختیار داد دے اُٹھتے اور داد دینے والوں میں اُس کا شوہر پیش پیش ہوتا۔ لیکن اکثر مسعود کے گورے بازوؤں کے مقابلے میں اپنے سانولے بازو دیکھ کر افسردہ ہوجاتی۔ 

اُس کے چمکیلے شانے پراپنے ہاتھوں کوبُجھا بُجھاسامحسوس کر کے ہٹا لیتی یا چُپکے سے بازو ہی چُھڑا لیتی۔ مسعود بھی اس فرق کو محسوس کرے، یہ اُسے گوارا نہ تھا۔ مسعود پر مکمل گرفت اب اُس کے لیے ایک جنون سا بنتی جارہی تھی، لیکن یہ سب اندر ہی اندر، چُپکے چُپکے تھا۔ بظاہر وہ ایک پرُسکون بیوی تھی اور مسعود سادہ طبیعت کا صلح پسند شوہر، جسے صرف ایک اچھے گھر، اچھی بیوی اور دفتر سے گھر آنے کے بعد اچھی شام کی ضرورت تھی۔

اچھی شام…مسعود شام کو ٹینس کھیلنے کلب جاتا تھا۔ سرکاری گھروں کے اس بلاک میں اس کے کئی دوست تھے۔ وہ سب شام کو کوئی نہ کوئی گیم کھیلنے کے عادی تھے اور اُنھوں نے باری باری کسی ایک کی گاڑی میں بھر کر جانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ دوسرا چسکا فلیش کا تھا۔ کسی ایک کے گھر میں بازی جمتی تو رات گئے تک چلتی رہتی۔ باقی سب کی بیویاں عادی ہوچُکی تھیں۔ 

سرِشام شوہروں کو سر سے اُتار کر وہ قدرے آزادی محسوس کرتی تھیں اور پھر جیسے چاہتیں اپنا وقت گزارتیں لیکن ریحانہ اپنے سے علیحدہ مسعود کی مصروفیات برداشت نہ کر پا رہی تھی۔ اُس نے شروع شروع میں ساتھ کلب جانا شروع کیا، لیکن جلد ہی ’’روٹین‘‘ سے اُکتا گئی۔ پھر اس نے طرح طرح سے مسعود کو دوستوں کے ساتھ باہر نکل جانے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ 

اُس کے آنے سے قبل کوئی نہ کوئی پروگرام تیار رکھتی تاکہ مسعود شام اُس کے ساتھ گزارے۔ جلد ہی دوستوں نے مسعود کو چھیڑنا شروع کردیا اور اُسے بیوی کے قابو میں آجانے کے طعنے ملنے لگے، لیکن مسعود ہنس کر اُڑا دیتا تھا، کیوں کہ اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور بیوی کا بھی بہرحال حق تھا۔

کچھ دنوں بعد مسعود آہستہ آہستہ اپنی پہلی روٹین میں ڈھلنے لگا۔ دفتر سے آکر ایک گھنٹا آرام کرتا،چائے پیتا اور اُس کے بعد اپنےسفید شارٹس، ٹی شرٹ اور جاگرز پہن کر اپنی ’’اسپورٹس کِٹ‘‘ اُٹھاتا اور ریحانہ کو ’’بائے بائے‘‘ کرتا نکل جاتا۔ دو چار دن تو ریحانہ نے دل پر پتھر رکھ کر برداشت کیا، بالآخر رو دی۔ ’’ارے…ارے ہوا کیا؟‘‘مسعود حیران رہ گیا۔ ’’تم شام کو گیم کھیلتے ہو، رات کو تاش کھیلنے چلے جاتے ہو اور مَیں…مَیں بس گھر ہی کی ہوکےرہ گئی ہوں…‘‘ وہ زور زور سے رونے لگی۔ مسعود نے اُس کے آنسوؤں سے بھیگے رخساروں، آنکھوں کی طرف دیکھا۔ بہت پیار، نرمی و ملائمت سے اُس کےآنسو پونچھے اور بولا۔  ’’میری جان! مَردوں کے لیے گیم کھیلنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ ہارٹ ٹربل اور کئی بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ 

پھر مَردوں کے لیے دوستوں سے ملنا ملانا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح تبادلۂ خیالات ہوتا ہے، آس پاس کی خبریں ملتی ہیں، نالج بڑھتی ہے۔‘‘ ’’پھر میں کیا کروں؟‘‘ریحانہ نے بسور کرکہا۔ ’’تم اپنی پینٹنگ کا شغل شروع کردو۔ اپنا سرکل بڑھاؤ۔ جس سے چاہو، ملو ملاؤ، چلو اب ہنس دو…‘‘مسعود نے بچوں کی طرح پیار سے اُس کے سر پر چپت لگائی، تو ریحانہ ہنسنے لگی اور مسعود اسپورٹس کِٹ گھماتا باہر نکل گیا۔ وہ اُسے بتا ہی نہ سکی کہ اب نہ اُس کا کوئی سرکل ہے اور نہ اُس کا کسی کام میں دل لگتا ہے۔ 

اُسے تو بس اپنا شوہر گھر پہ چاہیے۔ جب تک وہ گھر پہ رہتا، وہ چہکتی رہتی، مگر جب وہ شام کو نکل جاتا تو وہ بےکل، بےچین پھرتی رہتی یا اپنے آپ کو اُس کے لیے خُوب صُورت بنانے کی کوششوں میں جُت جاتی…کوئی ایکسرسائز کر لیتی یا ماسک لگا لیتی یا کسی دل کش لباس کی تیاری میں مصروف ہوجاتی اور مسعود کی واپسی کے لیے گھڑی دیکھتی رہتی۔ 

وہ دیر سے آتا تو الجھ پڑتی۔ جس دن تاش کی محفل اُن کے گھر پر جمتی، وہ قدرے مطمئن ہوتی لیکن آہستہ آہستہ اُسے یہ بھی کھلنے لگا۔ اس کا کام یہی رہ گیا تھا کہ اندر چائے اور تکے کباب بھجواتی رہے۔ اُسے مسعود کے دوست زہر لگنے لگے۔ اُس کا دل چاہتا تھا کہ مسعود کو لے کر کہیں دُور چلی جائے، جہاں اُس کےچہیتے دوستوں کی چوکڑی نہ ہو، جہاں مسعود مکمل طور پراُس کا ہو… اور آخر اُس نے فیصلہ کرلیا۔

شہر کےدوسرے سرے پر، موجودہ گھر سے بہت دُور، اُن کا ایک چھوٹا سا پلاٹ تھا، جس پر فی الحال اُن کا گھر بنانے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ علاقہ زیادہ آباد نہیں تھا، لیکن اب آس پاس کچھ گھر تعمیر ہوچُکے تھے۔ ریحانہ نے اعلان کیا کہ وہ وہاں اپنا گھر بنائے گی۔ مسعود نے شدید مخالفت کی۔ ’’وہاں نہ کوئی خاص آبادی ہے، نہ رونق… کہاں یہ علاقہ کہاں وہ۔ پھر گھر بنانا کون سا آسان ہے۔ کون پڑے اس جھنجھٹ میں؟‘‘ ’’مجھےنہیں رہنا یہاں۔ سب ایک ہی شکل کے گھر ہیں، بدشکل سے، جنہیں انسان اپنےTaste کے مطابق سجا بھی نہیں سکتا۔

مَیں اپنی مرضی کا گھر بنانا چاہتی ہوں، بہت منفرد اور پیارا سا۔ اُس میں موٹے موٹے کارپٹ ہوں گے، پلانٹس ہوں گے، ڈھیر سارے کشن اور قیمتی قیمتی لیمپ… اِس بھدّے سے گھر میں کچھ کرنے کو دل بھی نہیں چاہتا…مَیں اپنی مرضی کا گھر بنواؤں گی۔ پھر آدمی کب تک تنگ سے دو بیڈ روم کے گھر میں رہے؟ اور اس ایریا کی وجہ سے کرایہ اتنا ہے۔ اِس گھر کا کرایہ دینا پڑتا ہے، اپنا گھر ہوگا تو کرایہ بھی نہیں دینا پڑے گا… سیونگ کی سیونگ!‘‘ بات مسعود کی سمجھ میں آگئی اور گھر بنانے کی تیاری شروع ہوگئی۔

’’لون‘‘ کے لیے اِپلائی کردیا گیا۔ کچھ رقم ریحانہ نے اپنےوالد سے لی۔ ایک اور دُور دراز جگہ کی زمین بیچی گئی۔ گھر میں اینٹوں، سیمنٹ، سریے کا تذکرہ رہنے لگا۔ آخر گھر بننا شروع ہوگیا۔ ریحانہ سرِشام ہی تیار ہو کر بیٹھ جاتی تھی اور مسعود کے آتے ہی اُسے ایک پیالی چائے پلا کر زیرِ تعمیر بنگلے کی طرف لے جاتی۔ وہاں دن بھر کے کام کا حساب ہوتا۔ ریحانہ مختلف حصّے اپنی مرضی کے مطابق ڈیزائن کر رہی تھی۔ مسعود بھی اُس کی فن کارانہ صلاحیتوں کا قائل ہوگیا تھا اور خُود بھی گھر کی تعمیر میں بھرپور دل چسپی لے رہا تھا۔ 

جوں جوں گھر کی شکل نکل رہی تھی، اُس کی دل چسپی بڑھتی جارہی تھی۔ اُسے اپنا گھر آس پاس کے تمام دوسرے گھروں سے زیادہ خُوب صُورت نظر آرہا تھا۔ اب وہ گھر کی فنشنگ کےلیے رقم کا انتظام کرنے میں سرگرداں رہتا تھا۔ کلب اورٹینس تو خواب وخیال ہو کر رہ گئے تھے۔ دوست شکایت کرتے تو وہ سیمنٹ اور لیبر کے چارج بڑھ جانے کا ذکر کرتا یا ادھار رقم مانگنے کی کوشش کرتا۔

یہاں تک کہ اب دوستوں میں اُس کا ذکر بھی ہوتا تو یہی کہا جاتا۔ ’’مسعود… وہ تو بس مکان بنانے کے چکروں میں پڑاہواہے۔‘‘ مگر ریحانہ اِس صورتِ حال سے بہت مطمئن تھی ۔ اب مسعود مکمل طور پر اُس کا تھا اور جلد ہی وہ اُسے ہمیشہ کےلیےاس کی پرانی روٹین سے دُور لے جانے والی تھی۔

مکان سال بھر میں مکمل ہوگیا اور مسعود اور ریحانہ آخرکار اُس میں شفٹ ہوگئے۔ ریحانہ خوش تھی، بے حد خوش۔ یہاں سب کچھ ویسے ہی تھا، جیسا وہ چاہتی تھی، بالکل اُس کے خوابوں جیسا… ہلکی ہلکی کنسیلڈ لائٹس، لمبے لمبے ریشوں والے کارپٹ، ڈھیر سارے نرم، گدگدے کشن، بیش قیمت لیمپ! ’’کیسا ہے میرا گھر…؟‘‘ ’’فنٹاسٹک…رومینٹک… اور یہ سب تمھاری وجہ سے ہے۔ یوآر اے گریٹ گرل!‘‘ مہینا بھر گھر کو سجانے سنوارنے میں لگ گیا اور پھر ایک بہت بڑی ہاؤس وارمنگ پارٹی کا پروگرام بنا۔ پچھلے محلے سے بھی دوستوں کو دعوت دی گئی اور کچھ نئے محلے کے لوگوں سے متعارف ہونے کا بہانہ بن گیا۔ 

پچھلے محلے کے دوستوں نے نئے گھر کو بہت پسند کیا اور خُوب خُوب داد دی۔ مسعود اور ریحانہ نئے محلے کے مہمانوں کے پاس جا جا کر بڑے تپاک سے ملے۔ برابر والے مکان کی خاتون بہت چارمنگ تھی…بہت ہی چارمنگ۔ ’’مَیں مسز راحیل ہوں۔ آپ مجھے ماریہ بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ اُس کی شربتی آنکھیں مُسکرا رہی تھیں۔ ریحانہ اُس سے بہت متاثر ہوئی۔ باتوں باتوں میں پتا چلا کہ وہ طلاق یافتہ ہے۔ 

ریحانہ کوبہت شاک پہنچا۔ اتنی پرُکشش خاتون کو کوئی طلاق بھی دے سکتا ہے؟ وہ آرٹس کائونسل میں ستار سکھاتی تھی۔ ستار کا لفظ سن کر مسعود چونک پڑا اور لپک کر قریب آگیا۔ مسز راحیل اور وہ دِنوں کا تعیّن کرنے لگے کہ مسعود نے کب آرٹس کاؤنسل میں ستارسیکھا، کب چھوڑا، مسز راحیل نے آرٹس کائونسل کب جوائن کی، اِس سے پہلے وہ کہاں تھیں؟ پھر مسعود جلدی سے اندر گیا اوراپنا ستار اُٹھا لیا۔

مسز راحیل نے، جسے ماریہ بھی کہہ سکتے تھے، ستار سنبھال لیا اور پھر محفل میں جان پڑ گئی۔ جدید ترین تراش خراش کے لباس میں ستار سنبھالے وہ بہت گریس فُل لگ رہی تھی اور سب کی نگاہوں کا مرکز تھی۔ اُس کی سفید سفید خُوب صُورت انگلیاں ستارکے تاروں پر بڑے دل کش انداز میں تیررہی تھیں۔ ترشے ہوئے بھورے بال ایک رخسار پر جھک آئے تھے… ’’جب طلاق ہو چکی ہے، پھر خدا جانے یہ خُود کو مسز راحیل کہلوانے پر کیوں مُصر ہے؟ ‘‘ریحانہ نے سوچا۔

ریحانہ دوبارہ اپنے خوابوں کے گھر کی سجاوٹ میں مصروف ہوگئی اور بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے کام رہتے تھے۔ اُس کی پارٹی میں آنے والے تمام محلے داروں نے اُنھیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی تھی، لیکن فی الحال ریحانہ کی مصروفیات اتنی تھیں کہ وہ کہیں بھی نہ جاسکی۔ مسعود نے بھی کلب جانا چھوڑا تو نہ تھا، لیکن بہت کم کردیا تھا۔ پچھلے محلے میں تو مل جل کر اورگاڑیوں کا پول کرکے وہ لوگ پابندی سے جاتے تھے، لیکن اب مسعود جب موڈ ہوتا چلا جاتا، ورنہ زیادہ تر شام کو وہ اور ریحانہ شاپنگ یا کسی سے ملنے ملانے نکل جاتے تھے۔

ہفتہ ریحانہ کا پسندیدہ دن تھا۔ اُس دن وہ اور مسعود باہر کسی ہوٹل میں رات کا کھانا کھاتے تھے۔ ایسے میں کبھی کبھار مسعود کی بہن اوراس کے بچّے ساتھ شامل ہوجاتے یا ریحانہ اپنے بھائی کو لے لیتی۔ آج بھی ہفتہ تھا۔ شام کو ریحانہ نے شیمپو کیا اور اپنا ڈیزائن کردہ براؤن کھدر پرسیاہ بلاک پرنٹ کے ڈیزائن کا لباس پہنا۔ بالوں کو خوب خوب برُش کرکے پشت پر کُھلا چھوڑ دیا۔ 

مسعود دفتر سے آیا تو اُس نے ریحانہ کے لباس کی خوب تعریف کی۔ آج وہ واقعی خاصی اسمارٹ لگ رہی تھی۔ مسعود کی بےساختہ تعریف پر ریحانہ خُوب مُسکراتی گنگناتی چائے تیار کرنے نیچے کچن میں چلی گئی اور مسعود فریش ہونےکے لیے باتھ روم میں گُھس گیا۔

ننھے ننھے چیز سینوچ، جن کے ساتھ سلاد کے پتّے سجے تھے اور آرٹسٹک ٹچ کے لیے اوپر کیچپ کے دھبے… چائے کی ٹرے لیے وہ اوپر آئی۔ مسعود کمرے میں نہیں تھا۔ شاید ٹہلنے کے لیے ٹیرس میں نکل گیا تھا۔ ٹیرس پر چار کرسیاں اور ایک گول میز دھری رہتی تھی تاکہ کبھی کبھار چائے وہاں بھی پی جا سکے۔ ریحانہ نے چائے کی ٹرے قریب رکھی ہوئی میز پررکھی اور ٹیرس کا دروازہ کھولنے لگی۔ جالی کو ذرا سا کھولتے ہی وہ رُک گئی۔

سامنے مسعود فیروزی ٹی شرٹ پہنے ریلنگ پر جُھکا کھڑا تھا اور اُس سے قریباً دس فٹ کے فاصلے پر برابر والے ٹیرس پر مسزراحیل، جسے ماریہ بھی کہا جا سکتا تھا، پی کاک بلیو ڈریس میں، ریلنگ پر کہنیاں ٹکائے سامنے کوجُھکی کھڑی تھی۔ اُس کے ڈائی کیے ہوئے بال ہَوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں سے لہرا رہے تھے۔ 

شفق کی گلابی روشنی میں دونوں کے گورے گورے رنگ دمک رہے تھے۔ مسعود کہہ رہا تھا۔ ’’یو وَر ونڈرفُل دیٹ نائٹ۔ اتنا پیارا ستار بجایا آپ نے کہ مَیں سیریسلی سوچ رہا ہوں کہ آپ کا شاگرد ہوجاؤں۔‘‘ ’’یُو آلسو پلیڈ ویل۔ آئی وُڈ لو ٹو ہیو آسٹوڈنٹ لائک یُو۔ آئی ہوپ یور وائف وُڈ ناٹ مائنڈ…‘‘

وہ شوخ انداز سے ہنسی۔ ’’مائی وائف… وہ تو خُود بہت اچھی آرٹسٹ ہے۔ وہ بہت خوش ہوگی۔ اُسے تو میرا ستار بجانا بےحد پسند ہے۔ دیٹ از وائے شی فیل اِن لو وِد می۔‘‘ مسعود زور سے ہنسا۔ ’’اینی وومن وُڈ فال اِن لووِد یو!‘‘ ’’اوہ کم آن۔ یُو آر جوکنگ۔‘‘ ’’واقعی مَیں مذاق کر رہی ہوں۔ آپ خواہ مخواہ نہ خوش ہوجائیں۔ پھر کب سے آپ ستار جوائن کر رہے ہیں؟‘‘ ’’جلد، بہت جلد۔ آپ آیا کریں ناں ہمارے گھر۔ 

میری بیوی بہت خوش ہوگی، آپ کی کمپنی میں۔‘‘ ’’مَیں بہت مصروف رہتی ہوں۔ پڑھاتی ہوں، شام کو آرٹس کائونسل میں… بس یہ ٹیرس کی ملاقاتیں ہی ٹھیک ہیں۔‘‘ ’’تو پھر سبق بھی یہیں ٹھیک ہے۔ آپ وہاں اپنا ستار لے آئیں۔ مَیں یہاں اپنا لے آؤں گا، کیسا رہے گا؟‘‘ ریحانہ زور سے دروازہ کھول کر ٹیرس میں آگئی۔ وہ دونوں اُسے دیکھ کر سیدھے کھڑے ہوگئے۔ ریحانہ نے چائے کی ٹرے میز پر رکھ دی۔ مسز راحیل نے بڑی پیاری مسکراہٹ کے ساتھ اسے ’’ہیلو‘‘ کہا۔ ریحانہ نے بھی مسکرا کر ’’ہیلو‘‘کہا۔ ’’آیئے، آپ بھی چائے پئیں ہمارے ساتھ۔‘‘ 

مسعود بولا۔ ’’نو تھینکس۔ ساڑھے پانچ بجے کلاس شروع ہوجاتی ہے۔ مَیں تو ویسے ہی فریش ایر کے لیے ذرا ٹیرس پر آئی تھی۔ کیوں جی، آپ کے ہینڈسم ہسبینڈ میرے شاگرد بننے والے ہیں۔ آپ کی اجازت ہے؟‘‘’’میری بیوی بہت براڈ مائینڈڈ ہے۔ شی از این آرٹسٹ ہر سیلف۔‘‘ "Fine to have neighbours like you." مسز راحیل نے کہا اور اپنا پی کاک بلیولباس لہراتی ہوئی ٹیرس سے چلی گئی۔

شام کو چائنز کھانے کا پروگرام تھا۔ مسعود اور اُس کی بہن اور بچّے بھی شریک تھے۔ مسعود بہت خوش تھا اور بہن سے اپنے نئے محلے کی باتیں کررہا تھا۔ ’’تم بور تو نہیں ہو رہے یہاں؟‘‘ بہن نے پوچھا۔’’نہیں۔ بالکل نہیں۔‘‘ مسعود نے کہا۔ ریحانہ گہری سوچوں میں گم تھی۔ ’’تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ مسعود کی بہن نے ریحانہ کی طرف دیکھا۔ ’’سوچ رہی ہوں… ڈرائنگ روم میں گِرے پردے لگا کر غلطی کی۔‘‘ ’’اوہوہو… دیکھو کیا کررہی ہو… اتنی مرچیں؟‘‘ریحانہ بےخیالی میں سُوپ میں مرچیں انڈیلتی جارہی تھی۔ 

واقعی منہ میں ایک چمچ ڈالتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ رات کو مسعود کمرے میں آیا، تو وہ بستر پر جیسے ساکت پڑی تھی۔ ’’کیا ہوا ہے تمھیں؟‘‘ اُس نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چھونی چاہی مگر ریحانہ نے ایک جھٹکے سے اُس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا۔ ’’بھئی، کیا ہوگیا ہے؟‘‘ ’’اُف! بہت گرمی ہو رہی ہے۔ آپ ہٹ جائیں بس۔‘‘ ’’اے سی چلا دوں؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ’’بات کیا ہے؟ ہیں…ارے رو رہی ہو تم؟‘‘ ’’مجھے نہیں رہنا یہاں۔‘‘ ’’کیا… کیا مطلب…کہاں نہیں رہنا؟‘‘’’یہاں۔ عجیب سی جگہ ہے یہ…‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔ ’’میرا دل نہیں لگتا یہاں۔ 

پچھلے گھر سے پہاڑ نظر آتے تھے… یہاں…یہاں… عجیب سی منحوس جگہ ہے۔ اتنے دُور دُور گھر ہیں…So Insecure! نہ بندہ، نہ پرندہ…‘‘ ’’کیامطلب!‘‘ مسعود تیر کی طرح سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ ’’بتایا تو ہے۔‘‘ وہ بدستور رونی آواز میں بولی۔ ’’کیا مطلب ہے تمھارا؟ خُود ہی تو ضد کر کے بنوایا تم نے یہ گھر…اب کیا ہوگیا اس گھر کو؟‘‘ ’’بس نہیں رہنا مجھے یہاں۔ میرا نہیں دل لگ رہا…پچھلے محلے میں اتنے دوست تھے۔ اتنی Activities تھیں…اتنی وارمتھ تھی۔ تم کلب بھی جاتے تھے،یہاں ہرچیز سے کٹ گئے ہیں۔‘‘’’مجھے نہیں ہے ضرورت کلب ولب جانے کی…ایسے ہی ٹھیک ہوں میں۔‘‘ 

مسعود نے لیٹ کر اپنا بازو آنکھوں پرلپیٹتے ہوئے کہا۔ ’’اُس دن پارٹی میں مسز منیر کہہ رہی تھیں، ہمارا پہلے والا گھر اُسی طرح خالی پڑا ہے۔ بس آپ کل ہی بات کرلیں… اور اتنا لون چڑھ گیا۔ کیا ضرورت ہے اتنے منہگے فور بیڈ روم ہاؤس میں رہنے کی…This house is not feasible … مَیں نے صُبح اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کی تھی، ٹھیک ٹھاک کرایہ مل جائے گا اِس گھر کا۔ پہلے والے کا کرایہ اِس سے آدھا ہے۔ کیوں، مَیں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں… بولوبھی ناں… ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں مَیں… سیونگ کی سیونگ!‘‘